مولانا ندیم احمد انصاری
افراط و تفریط جس قدر بُری چیز ہے، اُس کا چلن اتنا ہی عام ہے۔ اعتدال جس قدر عمدہ چیز ہے، اس میں غفلت اسی قدر عام ہے۔ ان دنوں ایک وبائی مرض کرونا وائرس نے انسانی آبادی میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ ویسے اس مرض سے زیادہ اس کی سرکاری تشہیر نے لوگوں میں خوف کا ماحول پیدا کر رکھا ہے، ورنہ انسانی آبادی کے اعتبار سے اس کا اوسط اتنا نہیں کہ اس قدر شور و غل مچایا جائے۔ اسلامی ہدایات کی رو سے ایسے موقعوں پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اجازت ہے لیکن بلا وجہ خود کو یا معاشرے کو خوف میں مبتلا کرنا مناسب نہیں۔ بعض مساجد میں جماعت بالکل موقوف کر دینے کی خبریں آ رہی ہیں اور بعض مقامات پر باجماعت نماز تو ادا کی جا رہی ہے، لیکن ہر دو نمازیوں کے درمیان خاصا فاصلہ رکھا گیا ہے۔ اس کی کوئی مثال قرون مشہود لہا بالخیر میں شاید نہیں ملے گی۔ اگر احتیاط ہی برتنا ہے تو جس طرح دیگر مقامات پر ماسک لگا کر بضرورت نکلتے ہیں، اسی طرح مساجد میں بھی ماسک کا استعمال کر لیا جائے، لیکن جماعت کو موقوف کر دینا یا اس کی ہیئت کو تبدیل کر دینا کسی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا۔اس موقع پر شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ایک چینل کے انٹریو میں چند تجاویز یا مشورے پیش کیے ہیں، وہ لائقِ عمل اور شریعت کے مزاج کے موافق ہیں۔ اس لیے ان حالات میں گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنا نیز خوف و ہراس کا شکار ہوئے بغیر ان مشوروں پر عمل کرنا مناسب ہے۔جس طرح خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرناغلط ہے، اسی طرح احتیاطی تدابیر کو توکل کے منافی سمجھنا بھی درست نہیں۔یہاں اولاً چند باتیں عرض کرکے پھر حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے مشورے پیش کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ
اسلامی عقیدہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: کسی کی بیماری کسی کو نہیں لگتی۔ ایک اعرابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایک اونٹ جسے کھجلی ہوتی ہے، جب دوسرے اونٹوں کے درمیان آتا ہے تو سب کو کھجلی والا کردیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر پہلے اونٹ کو کس کی کھجلی لگی؟ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور نہ ہی صفر کا اعتقاد صحیح ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا اور اس کی زندگی، رزق اور مصیبتیں بھی لکھ دیں۔(ترمذی)اصل اسلامی عقیدہ یہی ہے۔
چھوا چھوت کا عقیدہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: زمانۂ جاہلیت کی چار چیزیں ایسی ہیں جو میری امت کے چند لوگ نہیں چھوڑیں گے؛ (۱)نوحہ کرنا(۲)نسب پر طعن کرنا(۳)چھوا چھوت یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ ایک اونٹ کو خارش ہوئی تو سب کو ہی ہوگئی، اگر ایسا ہی ہے تو پہلے اونٹ کو کس سے ہوئی تھی؟(۴)یہ اعتقاد رکھنا کہ بارش ستاروں کی گردش سے ہوتی۔(ترمذی)اس لیے کسی مرض سے اس طرح بچنا کہ وہ مرض ہمیں لگ جائے گا‘ جائز نہیں،البتہ جس طرح شیر سے یا آگ سے بچتے ہیں، باوجود اس عقیدے کے کہ بغیر اللہ کی مرضی وحکم کے شیر یا آگ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں،یا جھکی ہوئی دیوار کے نیچے نہیں جاتے ،باوجود اس عقیدے کے کہ بغیر حکمِ خدا کے یہ دیوار نہیں گِر سکتی‘اسی طرح کسی کو طبعاً اختلاط سے الجھن ہو تو بغیراس غلط عقیدے کے (اس سے) بچ سکتا ہے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ نہ بچنے میں بھی بغیر حکمِ خدا ، کوئی مضرت یا نقصان نہ ہوگااور اگر خدا کا حکم ہوگا تو ہزار طرح بچنے کے باوجود بھی مضرت اور نقصان پہنچ سکتا ہے۔(نظام الفتاویٰ، حصہ اوّل)
حقیقی توکّل
اب توکل کے مفہوم پر بھی غور کیجیے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا:اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے؟ آپ ﷺفرمایا: باندھو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔(ترمذی)اس لیےعلما نے لکھا ہے کہ توکل کے معنی یہ نہیں کہ تمام اسبابِ ظاہری سے بالکل قطع تعلق کر کے اللہ پر اعتماد کیا جائے، بلکہ توکّل یہ ہے کہ تمام اسبابِ ظاہری کو اپنی قدرت کے مطابق جمع کرے اور اختیار کرے اور پھر نتائج اللہ کے سپرد کرے اور ان ظاہری اسباب پر فخر و ناز نہ کرے، بلکہ اعتماد صرف اللہ پر رہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے۔ خود اسی جہاد (بدر) میں مسلمانوں کے لشکر کو جنگ کے لیے منظم کرنا، اپنی قدرت کے موافق اسلحہ اور دیگر سامانِ حرب فراہم کرنا، محاذِ جنگ پر پہنچ کر مناسبِ حال و مقام نقشۂ جنگ تیار کرنا، مختلف مورچے بنا کر صحابۂ کرام کو ان پر بٹھانا وغیرہ۔ یہ سب مادّی انتظامات ہی تو تھے جن کو سید الانبیاء ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے استعمال فرماکر بتلادیا کہ مادّی اسباب بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں، ان سے قطعِ نظر کرنے کا نام توکّل نہیں۔ یہاں مومن اور غیر مومن میں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مومن سب سامان اور مادّی طاقتیں حسبِ قدرت جمع کرنے کے بعد بھی بھروسہ و توکل صرف اللہ پر کرتا ہے، غیر مومن کو یہ روحانیت نصیب نہیں اس کو صرف اپنی مادّی طاقت پر بھروسہ ہوتا ہے، اور اسی فرق کا ظہور تمام اسلامی غزوات میں ہمیشہ مشاہدہ ہوتا رہا ہے۔(معارف القرآن)
موت اپنے وقت پر آکر رہے گی
جو لوگ موت کے خوف سے سہمے رہتے ہیں انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَبے شک جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ موخر نہیں ہوتا، کاش کہ تم سمجھتے۔ (نوح) ایک مقام پر فرمایا:قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ۔ (اے پیغمبر ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تم موت سے بھاگ بھی جاؤ تو یہ بھاگنا تمھیں کوئی فایدہ نہیں دے گا۔(الاحزاب)ایک جگہ فرمایا: اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ ۭتم جہاں بھی ہوںگے موت تمھیں جاپکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہوں۔ (النساء)
حج موقوف ہو جائے گا
بخاری شریف میں شعبہ سے روایت ہے، قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک خانۂ کعبہ کا حج موقوف نہ ہوجائے۔(بخاری)ان دنوں سوشل میڈیا پر یہ حدیث گردش کر رہی ہے، لیکن اس کا تعلق قیامت کے بالکل قریبی زمانے سے ہے۔ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض عوارض کے سبب چالیس مواقع پر پہلے بھی طوافِ کعبہ موقوف ہو چکا ہے۔
مفتی تقی عثمانی کے مشورے
حضرت مفتی صاحب نے بہ طور احتیاط چند مشوروں سے نوازا ہے، انھیں اپنے الفاظ میں یہاں لکھا جاتا ہے:(۱)کثرت سے توبہ و استغفار کا اہتمام کیا جائے (۲)ڈاکٹروں اور اطبّا کے مشوروں پر عمل کیا جائے (۳)وضو گھر سے کرکے جائیں، اس میں ثواب بھی زیادہ ہے(۴)مساجد میں صفوں کے بجائے فرش پر نماز ادا کی جائے، اس لیے کہ زمین کے مقابلے میں قالین وغیرہ میں جراثیم زیادہ پناہ گزیں ہوتے ہیں (۵)فرض نماز کے علاوہ سنن و نوافل گھر پر پڑھنے کا اہتمام کیا جائے، یہ عمل بہ ذات خود پسندیدہ ہے(۶)نمازوں میں ائمہ مختصر قراءت پر اکتفا کریں(۷)جمعہ کے خطبوں کو ڈیڑھ دو منٹ تک محدود رکھا جائے، تاکہ اجتماع کا وقفہ مختصر ہو، چاہے عجمیوں کے لیے اس پر عمل کرنا خلافِ عادت ہونے کے باعث مشکل معلوم ہو(۸)ہر دو صفوں کے درمیان کا فاصلہ قدرے زیادہ رکھنے کی گنجائش ہے(۹)ماہرین اگر مصافحہ و معانقہ ترک کرنے کے لیے کہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں(۱۰)جو حضرات وبائی امراض کا شکار ہوں، وہ مسجدوں میں تشریف نہ لائیں۔