کچھ دیر’محمود المکاتیب‘کی جلومیں

بہ قلم: ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

ملک کے صاحبِ نسبت بزرگ، نامور علماے کرام کی فہرست میں ایک نمایاں نام حضرت اقدس مولانا مفتی احمد خان پوری صاحب مدظلہ العالی (سابق صدر مفتی وحال شیخ الحدیث جامعہ تعلیم الدین، ڈابھیل، گجرات،ورکنِ شوری دارالعلوم دیوبند)کا آتا ہے۔ ملکِ عزیز کے لیے عموماً اور صوبۂ گجرات کے لیے خصوصاً موصوف کی شخصیت کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے۔خلاقِ عالَم نے آپ کو ان گنت خوبیوں سے نوازا ہے۔ جہاں آپ بےمثل محدِّث ہیں، وہیں آپ فقیہِ زمانہ ہیں۔ایک طرف آپ کامیاب مدرس ہیں تو وہیں دوسری طرف آپ ایک عالمِ ربانی بھی ہیں۔جہاں آپ ہزاروں طالبانِ علومِ نبوت کے مایہ ناز استاذِ گرامی ہیں تو وہیں آپ ہزاروں مریدین و متوسلین کے شیخِ ربانی اور پیر و مرشد بھی ہیں۔ایک طرف آپ کےسامنے ہزاروں طالبانِ علوم نبوت زانوے تلمذ تہہ کررہے ہیں تو وہیں دوسری طرف ہزاروں طالبانِ تزکیۂ احسان راہِ سلوک بھی تہہ کررہے ہیں، اور سب کے سب اپنے اپنے ظرف کے مطابق علوم و معارف اور روحانیت سے دامن بھر رہے ہیں۔آپ کی ذات سے کسبِ علم اور کسبِ احسان یافتگان ملک و بیرون ملک میں اپنے اپنے مقام پر بندگانِ خدا کو رشد وہدایت کی رہنمائی کررہےہیں، گویا کہ آپ کی ذات موجودہ دور میں اس مینارۂ نور کی سی ہے جس سے پھوٹنے والی کرنیں ایک عالم کو جہاں تاب کررہی ہے۔آپ کی ذاتِ بابرکت ملک و بیرون ملک کے علما،طلبہ اور عوام سبھی کے لیے مرجع ہے، اسی وجہ سے طالبانِ علوم نبوت وطالبانِ احسانِ نبوت اپنے اشکالات و سوالات کے حل کے لیے آپ سے رجوع کرتے ہیں اور آپ انھیں کتاب و سنت کی روشنی میں تشفی بخش جواب دے کر مطمئن کرتے ہیں۔حضرت والا مدظلہ العالی سے رابطے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ مکتوب بھی ہے،آپ کے شاگرد اور مریدین و متوسلین خطوط لکھتے ہیں اور حضرت والا مدظلہ العالی ان تمام خطوط کا اہتمام کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ یہ خطوط مکتوب الیہ کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کے لیے بھی علوم و معارف کے گوہرِ نایاب ہوتے ہیں، اسی وجہ سے ان خطوط کو جمع کرکے کتابی شکل میں بنام ’محمود المکاتیب‘(جلد اول)ترتیب دیا گیا ہے اور اس وقت میرے زیرِ بصارت یہی علمی بیش بہا تحفہ ہے۔
اس کے مرتب عروس البلاد ممبئی کے نوجوان، مشہور و معروف عالمِ دین، سیال قلم کار، دینی وسیاسی تجزیہ نگار، حضرت مولانا مفتی ندیم احمد انصاری صاحب زیدمجدہ (بانی و صدر الفلاح انٹرنیشنل فاونڈیشن) ہیں ۔موصوف کی علمی شخصیت اہلِ علم خصوصاً ممبئی کے پڑھے لکھے طبقے میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ موصوف کم عمر مگر زود مطالعہ و زود نویس ہیں،آپ صلاحیت اور صالحیت دونوں میں ہی لائق و فائق ہیں، اب تک آپ کے عطر بیز قلم سے پانچ درجن سے زائد کتابیں منظرِعام پر آکر اہلِ علم سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں ،نیز آپ کے سیکڑوں دینی و اصلاحی مضامین ملک و بیرونِ ملک کے مشہور روزناموں، اخبارات اور مقبول ماہ ناموں اور رسائل و جرائد کی زینت بن چکے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے آپ روزنا’ممبئی اردونیوز‘کے مستقل کالم نگار بھی ہیں ۔آپ دینی علوم میں پختگی کے ساتھ ساتھ معاصرعلوم میں بھی مہارت رکھتے ہیں، اسی وجہ سے آپ کے مضامین و مقالات دینی و عصری دونوں تعلیم یافتگان حضرات قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور شوق کی نگاہ سے پڑھتے ہیں ۔جہاں تک موصوف کی صالحیت کی بات ہے تواس کے لیے یہی کافی و شافی ہے کہ آں موصوف بقیۃ السلف ،منبع الحسنات،ذوالمجد والکرم، حضرت اقدس مولانا مفتی احمد صاحب خان پوری مدظلہ العالی کے خلیفہ و مجازِ بیعت ہیں۔
کتاب کی تحفیظ و تقدیم کرنے والے صوبۂ گجرات کے دارالعلوم دیوبند’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل‘کے معین مفتی اور حضرت مفتی احمد خان پوری مدظلہ العالی کے شاگردِ رشید حضرت مولانا مفتی عبدالقیوم صاحب راج کوٹی مدظلہ ہیں ،موصوف کی علمی و فقہی شخصیت صوبۂ گجرات و مہاراشٹر کے اہلِ علم کے درمیان محتاجِ بیان نہیں ہے، موصوف کئی کتابوں کے کامیاب مصنف ہیں۔مفتی صاحب مدظلہ العالی کا مقدمہ 16صفحات پر مشتمل ہے جسے ہم ’تعارف مکتوبات‘کہہ سکتے ہیں ،جس کا عنوان ’ہند میں مکتوبات کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر‘ ہے ۔اس میں ہندوستان کے اہل اللہ کے مکاتیب کا عمدہ انداز میں تعارف پیش کیا گیا ہے اور اس کے فوائد پرروشنی ڈالی گئی ہے جو ہراہلِ ذوق کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ ان خطوط کے فوائد سے متعلق ایک اقتباس جو مفکر ِاسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہٗ کے خوشبو ریز قلم سے مقدمہ کی زینت ہے اس کا پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، حضرت ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’خطوط ان کے دلی جذبات اور اصلی خیالات کا آئینہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ (مکاتیب کے ) مجموعے ان کے صحیح حالات و خیالات اور ان کی دعوت و تحریک کے اصلی محرکات معلوم کرنے کا ،ان کی سوانح و سیر کے مقابلے میں زیادہ مستند ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ،اس لیے کہ سوانح اور سیرتیں دوسرے اشخاص کی مرتب کی ہوئی ہوتی ہیں اور ان میں ان کے مصنفین کے ذوق و رجحان کا اچھا خاصا دخل ہوتا ہے،کم سے کم ترجمانی اور استنباط تمام تر مصنفین کی طرف سے ہوتا ہے اور اپنے ذوق و رجحان سے بالکل آزاد اور مجرد ہوجانا نہایت مشکل بات ہے۔‘‘
کتابِ ہذا کے تمام مکتوبات مفتی عبد القیوم صاحب راج کوٹی مدظلہ کی ہی علمی زنبیل میں تھےاور کتابی شکل میں آنے کے لیے کسی باذوق علم دوست کے منتظر تھے کہ وہ اسے علمی و روحانی قیمتی گلدستہ بناکر اہلِ علم کی خدمت میں پیش کرے ،اس مبارک خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر ندیم احمد انصاری صاحب زیدمجدہ کو قبول فرمایا۔حضرت مفتی صاحب اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’یہ نامہاے گرامی ایک عرصے سے راقم سطور کے پاس محفوظ تھے جو کسی علم دوست ،قدرداں،صاحبِ قلم کی خدمات کے منتظر تھے۔اللہ تعالیٰ حضرت کے تمام متعلقین کی طرف سے محترم و مکرم مولانا ندیم احمد انصاری سلمہ و اکرمہ (ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن ،انڈیااور سابق استاذ اسماعیل یوسف کالج ،ممبئی)کو جزائے خیر عطافرمائے ۔موصوف کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ماشاءاللہ تصنیف کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں ۔انھوں نے’محمود المکاتیب‘کو خوبصورت گلدستے کی صورت میں مرتب و مدلل و معنون فرماکر عظیم خدمت انجام دی۔‘‘
حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری مدظلہ العالی اس وقت عمرکی اٹھترویں بہار میں ہیں ،اور سالوں سے لکھنے سے قاصر ہیں، اس کے باوجود آئے ہوئے خطوط کا جواب املا کراتے ہیں اور ہر تشنگان علم و معرفت کو سیراب کرتے ہیں۔ حضرت مولانا ندیم احمد انصاری صاحب زید مجدہ عرضِ مرتب میں رقم طراز ہیں:
’’آپ اپنی دینی و علمی گوناگوں مصروفیات کے باوجود آنے والی ڈاک کا بہت اہتمام سے جواب عنایت فرماتے،اگر حضر میں موقع نہیں ملتا تو سفر اور چلتی ہوئی ٹرین میں جواب تحریر فرمادیتے ۔تقریباً بیس سالوں سے لکھنے سے قاصر ہونے کے باوجود کاتب سے بروقت جواب لکھوا کر ارسال کرتے۔ہجومِ کار اور افتا وغیرہ کی کثرت کے باعث اگر کچھ تاخیر ہوتی تو اپنے چھوٹوں سے بھی معافی مانگنے میں عار نہیں محسوس کرتے اور اولین فرصت میں جواب مرحمت فرماتے۔‘‘
حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی کی ذات اُس حدیث پاک کی مصداق ہے جس میں حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جس ہدایت اور علم کے ساتھ بھیجا ہےاس کی مثال بہت زیادہ بارش کی سی ہےجو ایک زمین پر ہوئی،اس زمین کا کچھ حصہ زرخیز تھا تو اس نے پانی کو جذب کرلیا اور خوب گھانس اور چارہ اگایا ،اور اسی زمین میں کہیں کہیں گڑھے تھے جہاں پانی اکٹھا ہوگیا ،اس طرح اللہ نے اس زمین کو لوگوں کے لیے نفع بخش بنا دیا ،انھوں نے پانی بھی پیا اور جانوروں اور کھیتوں کو سیراب بھی کیا اور خوب کھیتی بھی کی۔یہ اس شخص کی مثال ہے جس کو اللہ کے دین میں تفقہ اور بصیرت حاصل ہوئی ،اس ہدایت اور علم سے اس کو فائدہ ہوا اس نے سیکھا بھی اور سکھایا بھی۔۔‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ”. [بخاری]‘‘
حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی ٹھیک اس مثالِ رسول ﷺ کے مطابق اپنے علم و معرفت سے خود بھی دن بہ دن، فزوں سے فزوں تر ہو رہے ہیں اور خلقِ خدا بھی آپ سے علم و معرفت اور تزکیہ و احسان کی منزلیں طے کررہے ہیں۔
کتابِ ہذا 422صفحات کو محیط ہے۔ پچھلے دنوں راقم الحروف کو مکمل کتاب بالاستیعاب مطالعہ کرنے کا موقع ملا ، عرضِ مرتب میں ان خطوط سے متعلق جو باتیں درج ہیں اس میں ذرّہ برابر بھی مبالغہ نہیں پایا بلکہ اس سے بھی بہتر پایا۔ کتاب میں خطوط سے متعلق مرتب لکھتے ہیں:
’’ان مکتوبات میں دینی و فقہی مسائل کاحل ،اسراروحکم کی باتیں ،انتظامِ مدارس کے گُر ،گھریلو جھگڑوں کاعلاج ،خوابوں کی تعبیر، اور سالکینِ راہِ طریقت کی رہنمائی اور طالبین صادقین کی علمی و سلوکی تربیت کا انمول خزانہ موجود ہے۔‘‘
راقم الحروف اس میں یہ اضافہ کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ ان خطوط میں حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی کے دل کی صدائیں ہیں،اور خطوط مثلِ کلام ہوتا ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں:
گفتۂ او گفتہ اللہ بود
گرچہ ازحلقوم عبداللہ بود
کتاب کی ابتدا میں حضرت مولانا مفتی احمد خان پوری مدظلہ العالی کا مختصر مگر جامع تعارف بھی ہے، اس کے پڑھنے سے قاری خود بہ خود مکتوبات پڑھنے کے لیے تیار و بے چین سا ہوجاتا ہے ۔
کتاب کی ایک اہم خصوصیت جو لائقِ تحسین اور قابلِ ستائش ہے وہ یہ ہے کہ مرتبِ کتاب نے قیمتی حواشی کا اضافہ کیا ہے جس میں بہت سی قیمتی اور نفع بخش باتیں آگئی ہیں، جیسے بہت سے مکتوب الیہ علماے کرام ہیں اس لیے ان کے خطوط میں صرف علمی اشارے ہیں، محشی نے وہاں تشریح کردی ہے تاکہ علما وغیر علما سب بہ آسانی سمجھ سکیں ۔اسی طرح قرآنی آیات کے ترجمے اور احادیث کی تخریج ،نیز عربی و فارسی اشعار وغیرہ کا سلیس اُردو ترجمہ بھی درج کر دیا گیا ہے۔
کتاب میں سوا دو سو سے زائد مکتوبات ہیں ج میں 221مکتوبات پر عنوانات بھی لگائے گئے ہیں۔کتاب مختلف پھولوں کا حسین گلدستہ ہے جس میں اہلِ علم کے لیے سامانِ تسکین ہےاور یہ اس لائق ہے کہ ہر اہلِ علم کے مطالعے میں رہے۔
کتاب ظاہری اعتبار سے بھی قابلِ تعریف ہے کہ عمدہ کاغذ اور مضبوط جلد کا انتخاب کیا گیا ہے، اور باطن کا تو کیا ہی کہنا! اس کا ادراک ہر قاری خود کر سکا ہے۔
اللہ تعالیٰ صاحبِ مکتوب ،محافظِ مکتوب اور مرتبِ مکتوب تینوں حضرات کو اس کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائےاور کتاب کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here