ندیم احمد انصاری
مذہب کو بنیاد بنا کر بھارت میں جو تعصب گذشتہ چند سالوں میں دیکھنے میں آرہاہے، اس نے جمہوریت کو شرم سار کر دیا ہے۔ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم میں سے ہی بہت سے لوگ لالچ یا معصومیت کے سبب چال بازوں کی چالوں کو کامیاب کرتے چلے آئے ہیں۔ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس صورت میں ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ تعصب نہیں تو اور کیا ہے کہ سردی سے بچنے کے لیے کپڑے در کپڑے پہن کر امتحان گاہ میں آنا آپ کو گوارا ہے، آزادی کے نام پر چھوٹے سے چھوٹے کپڑے پہن کر امتحان گاہ میں آنے کی اجازت ہے، لیکن مذہب پر عمل پیرا لڑکوں کو ٹوپیوں میں اور لڑکیوں کو حجاب میں آناآپ برداشت نہیں کر سکتے۔ اس سے آپ کے تحفظ کو خطرہ ہونے لگتا ہے!
خبر ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ امیہ خان کو دسمبر 2018ء میں ہونے والے یوجی سی نیٹ، امتحان میں بیٹھنے کی صرف اس لیے اجازت نہیں دی گئی کہ وہ حجاب میں تھی۔جس پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’آئین میںیہ بالکل واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ہم کسی بھی مذہب پر عمل پیرا ہونے کے لیے آزاد ہیں۔تاہم اس جارحانہ قوم پرستی کے حامل سرکاری ملازم نے مجھے نیٹ جے آر ایف امتحان میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی، کیوں کہ میرا کہنا تھا کہ مجھے سر ڈھکے رہنےدیا جائے کہ یہ میرے مذہب میں ہے‘ ۔امیہ خان کا ایک انٹرویو بھی آیا ہے، جس میں اس نے صاف کہا ہے کہ میں نے وہاں موجود سکیورٹی اہل کار سے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو خاتون اہلکار کے ذریعے میری مکمل جانچ کر سکتے ہیں، لیکن انھوں نے میری ایک نہ سنی۔اب امیہ خان نے قومی اقلیتی کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے او ردیگر تنظیموں سے بھی رجوع کیاہے۔ایک دیگر مسلم طالبہ سفینہ خان ، جو کہ گوا کے پناجی میں امتحان دینے گئی تھی، اسے بھی سپروائزر نے حجاب کے ساتھ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ علاوہ ازیں کالم نویس کا مشاہدہ ہے کہ ایسے مقامات پر ٹوپی پہنے ہوئے لڑکوں کو بھی مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سر سے ٹوپی اتار دیں، استثنا ہے تو صرف ان پنجابی لڑکوں کا جو پگڑی پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔اب آپ اسے انتظامیہ کا تعصب کہہ سکتے ہیں یا پنجابیوں کی ایکتاکہ کوئی ان کے مذہبی معاملے میں دخل دینے کی جرات نہیں کر سکتا۔ تختۂ مشق بنایا جاتا ہے تو فقط مسلمان۔ البتہ یہ خوش آیندہ خبر ہے کہ اس ظلم کے خلاف احتجاج میں دیگر سیکولر طلبا امیہ خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہی ہمارے ملک کی رنگینی بھی ہے، جس پر ہم سو جان سے فدا ہیں۔لیکن کیا ایسا کرنے سے گزرا ہوا وقت لوٹ آئے گا؟
یو جی سی نیٹ امتحان نوجوان طالبِ علموں کی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جسے حکومت سال میں فقط دو مرتبہ منعقد کرواتی ہے۔ جس کے لیے طلبہ جی جان لگا کر دن رات ایک کرکے تیاری کرتے ہیں۔ اس کے بعد امتحان گاہ میں جب انھیں اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ان پر جو بیتتی ہوگی، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے، جسے کبھی اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ایک طرف حکومت نے کالج کی پروفیسری کے لیے یوجی سی نیٹ امتحان پاس کرنا لازمی قرار دے رکھا ہے، دوسری طرف اس کو بلاوجہ اسے مشکل بنایا جا رہا ہے کہ کمزور دل کا آدمی غش کھا کر گر جائے۔
واضح رہنا چاہیے کہ پڑھنے والے رات رات بھر امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ نیٹ امتحان میں انھیں ساڑھے ساتھ بجے امتحان ہال میں پہنچنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ ساڑھے نو سے ساڑھے دس بجے تک پہلا پرچہ ہوتا ہے۔پھر آدھے گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے، جس میں زیادہ سے زیادہ استنجا سے فارغ ہونے جتنا موقع ملتا ہے۔ گیارہ سے ایک بجے تک دوسرا پرچہ ہوتا ہے۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد ہی صبح کے بھوکے پیاسے طلبہ کو کچھ کھانے پینے کیا موقع مل پاتا ہے ۔جب کہ طلبہ دور دراز مقامات سے امتحان گاہوں پر بھوکے پیاسے پہنچتے ہیں۔ کیا اس نظام میں کسی اصلاح کی ضرورت نہیں؟اگر اس سخت نظام کے چلتے کسی طالبِ علم کی صحت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے، تو اس کا ذمے دار کون ہوگا؟
دسمبر 2018ء سے نیٹ امتحان کو آن لائن کر دیا گیا ہے، جس میں بعض خوبیاں بھی ہیں۔ لیکن جو لوگ کمپیوٹر استعمال کرنے پر بہ خوبی قادر نہیں ہیں، ان کے لیے یہ کسی آفت سے کم نہیں۔کتنوں کو کمپیوٹر کا ماؤس چلانا ہی نہیں آتا ہے،جس سے وہ سوال کا جواب جاننے کے باوجود اسے حل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ نیز پہلےپرچے میں دیا جانے والا وقت ورنا کولر میڈیم کے طلبہ کے لیے عموماً اور اردو طلبہ کے لیے خصوصاً بالکل ناکافی ہوتا ہے۔ اس میں پچاس سوالوں کو ایک گھنٹے میں حل کرنا ہوتا ہے، جب کہ متعدد سوالات میں ذیلی سوالات بھی ہوتے ہیں۔ مانا کہ پرچے کو انگریزی اور ہندی دو زبانوں میں حل کرنے کی سہلوت ہوتی ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے طلبہ انگریزی کے ساتھ ہندی میں سوال سمجھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ ہندی بھی ایسی سنسکرت زدہ ہوتی ہے، جسے دیکھ کر انگریزی آسان لگنے لگتی ہے۔
ایک تو نیٹ امتحان کا پرچہ اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ کب کیا پوچھ لیا جائے، اس کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا بھی محال ہے! دوسرے چار آپشن میں سے ایک کو کلک کرنے والا یہ سسٹم بہت سے ذہین لوگوں کے لیے بھی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ذہانت اور لیاقت سے زیادہ تقدیر اور نصیب کا دخل ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو محض اندازے سے نشانات لگا کر پاس ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ امتحان گاہ سے باہر نکلنے کے بعد اُن میں سے اکثر کو صحیح جواب بھی معلوم نہیں ہوتا۔یہ چند وہ صاف صاف باتیں ہیں، جن پر انتظامیہ کو توجہ دلانا ضروری معلوم ہوا، جس میں سدھار لانے کی ہر ممکن کوشش کرنا وقت کا تقاضا اور نہایت ضروری ہے۔رفاہی کام انجام دینے والی تنظیموں اور جماعتوں کو بھی اس میں بہتر کردار ادا کرنا چاہیے۔
نیز امیہ خان کا جو معاملہ سامنے آیا ہے، اس کو بھی ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں کی ترقی و بہبود کی جب بھی بات کی جاتی ہے، ایک طبقہ محض اعلیٰ تعلیم کے راگ آلاپنے پر اکتفا کرتا ہے۔ یہ خیال کرنا کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے آتے ہی نہیں، بالکلیہ درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مسئلۂ ہٰذا کی طرح انھیں اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مسائل اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان سے آنکھیں بند کرکے صرف اپنا سا راگ آلاپتے رہنا کچھ کارگر نہیں ہو سکتا۔اعلیٰ تعلیم کی بات کرنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ اگر ہماری قوم باوجود سیکڑوں فوائد کے اس سے برگشتہ ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟کیا وجہ ہے کہ اسکول میں جانے والی بھیڑ، کالج میں کم ہو جاتی ہے؟ اور کالج میں جانے والے طلبہ کیوں یونی ورسٹیوں کا رُخ کم کرتے ہیں؟