طلاق!! طلاق!! طلاق!!
ندیم احمد انصاری
انسانی زندگی میں نکاح و شادی کی ضرورت و اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، ان لوگوں میں سے اکثریت بھی اس کی اہمیت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے، جو کسی بنا پر مجرد زندگی گزارتے ہیں۔ انسانی زندگی کو صحیح طور پر چلانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جن چیزوں کو زندگی میں اختیار کیا جائے، ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر اس سے خلاصی و نجات کی بھی گنجائش ہو، ایسا نہ ہونے کی صورت میں انسان زندگی سے مایوس تو ہوتا ہی ہے بعض دفعہ زندگی سے ہاتھ ہی دھو بیٹھتا ہے، جس سے کوئی دانا و بینا ناواقف نہ ہوگا۔اسی کے پیشِ نظر مذہب نیز قانون میں نکاح کے ساتھ طلاق کا اختیار بھی رکھا گیا ہے۔کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، جس طرح نکاح کو ضروری سمجھتا ہے، اسی طرح طلاق کی ضرورت سے بھی انکار نہیں کرسکتا اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نکاح و طلاق کو عام معاملات؛ اجارہ و بیع و شرا پر قیاس نہیں کرتا بلکہ اکثر انسانی آبادی ایسا سمجھنے والوں کو عزت و اچھی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ اسی لیے اکثر کے نزدیک نکاح و طلاق کے مقررہ اصول و ضوابط ہیں، جن کی پابندی لازم و ضروری ہے، جس سے ظاہر ہے کہ سماج و معاشرہ صحت مند رہتا ہے۔معاملۂ ازدواج کی درستگی عام نسلِ انسانی کی درستگی کی ضامن ہوتی ہے اس لیے قرآن مجید او ر شریعتِ اسلامی نے ان معاملات کو بہت وضاحت و اہتمام کے ساتھ بیان کیا ہے اور نکاح کو صرف ایک عام انسانی معاملہ نہ مان کر اسے عبادت میں داخل کر دیا تاکہ عمرانی مسائل اور اولاد کی تربیت جیسے اہم موضوعات کا حل آسان ہو۔
اس مختصر تمہید کے بعد عرضِ مسئلہ یہ ہے کہ سماج میں ہر طرح کے افراد پائے جاتے ہیں، وہ بھی جو مذہب کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، وہ بھی جو دیکھا دیکھی یا کسی مجبوری کے تحت مذہب پر عامل ہوتے ہیں، وہ بھی جنھیں مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا نیز وہ بھی جو مذہب کو نیست و نابود یا کم سے کم بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش و سعی کرتے رہتے ہیں۔ خیر ہمیں اس سے زیادہ اس وقت کچھ عرض نہیں کرنا کہ عالم کی اکثر آبادی مذہب پر عمل کرنے والی ہے۔ پھر بھی مشاہدہ ہے کہ جو لوگ مذہب پر فقرے کستے اور اس کا مذاق اڑانے کی ادھیڑ بُن میں رہتے ہیں ،ان کی دل چسپی کا خاص موضوع اسلام کے نکاح و طلاق کے مخصوص مسائل ہیں، جنھیں وہ گاہ بہ گااچھالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور سوے اتفاق سے اس کے لیے انھیں ایسے مہرے بھی ملتے رہتے ہیں جو ان کے کام کو مزید آسان کر دیں۔یہ کوئی نیا واقعہ نہیں کہ سائرہ بانو نامی ایک عورت کے حوالے سے میڈیا میں ایک بار پھر ’طلاق‘ کو موضوعِ بحث بنایا گیا اور ہر جگہ ’طلاق، طلاق، طلاق‘ کا موضوع زیرِ بحث160آگیا، جس پر ہر اہل و نا اہل رائے زنی کر رہا اور مندرجۂ ذیل جیسی سرخیاں لگا کر بحث کو مزید دل چسپ بنانے کی کوششیں جاری ہیں: ’’مسلمان مرد اپنی بیوی کو ایک لمحے میں تین مرتبہ لفظ طلاق بول کر نکال سکتا ہے اسے اپنی زندگی سے باہر‘‘۔ ’’تہری طلاق کے متنازع مسئلے کو شدید چیلنج کا سامنا‘‘۔’’ہندستان میں سپریم کورٹ تہری طلاق کو غیر آئینی قرار دینے کی لیے کر رہی ہے غور‘‘۔وغیرہ وغیرہ۔
واقعہ یہ ہوا کہ گذشتہ اکتوبر(2015) میں ایک 35 سالہ خاتون، دو بچوں کی ماں ’سایرہ‘ شمالی ریاست اُترکھنڈ میں علاج کے سلسلے میں اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی تھی کہ اُسے اپنے شوہر کی جانب سے ایک خط موصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ وہ اس سے علاحدگی اختیار کر رہاہے۔فروری میں مایوس سایرہ بانو نے سُپریم کورٹ میں درخواست دایر کی، جس میں تہری طلاق پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا، جو ان کے مطابق مسلمان مَردوں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ ’ذاتی سامان‘ جیسا سلوک کریں۔جب کہ مسلمان ہندستان کی سب سے بڑی اقلیتی برادری ہے اور اُن کی شادیاں اور علاحدگیاں اسلامی قوانین کے مطابق ہوتی ہیں۔اس کے بعد سے مسلسل آگ میں گھی ڈالنے کا کام وہ لوگ کر رہے ہیں جو بہ زعمِ خود اسے اسلامی قانون گر داننے کو تیار نہیں، ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ معاشرے میں آج تک اس پر عمل کیا جاتا رہا ہے لیکن یک طرفہ فوری طلاق کا شریعت یا قرآن میں کوئی ذکر نہیں۔اس لیے ان کا مطالبہ ہے کہ ’زبانی طلاق‘ اور طلاقِ بدعی‘ کو ممنوع بلکہ منسوخ قرار دیا جائے۔ ان میں سے بعض افراد تو ایسے بھی ہیں جو ہند میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کی حفاظت میں سرگرم مسلم پرسنل لا بورڈ کو ہی سرے سے کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ بہ ایں وجہ کہ ان کی سطحی معلومات کے پیشِ نظر جب ’طلاقِ بدعی حرام ہے تو وہ نافذ کیوں کر ہو سکتی ہے؟ ‘موقع کا فایدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے طلاقِ سکران و طلاقِ غضبان جیسے حساس ترین مسئلوں کو بھی اچھالنے کی کوشش کی ہے۔ظاہر ہے کہ ان تمام دعووں یا مطالبوں میں ایسا کچھ بھی نہیں جن پر علمی گفتگو کی از سرِ نو ضرورت ہو، اس لیے کہ ان تمام اعتراضات کے جوابات اپنے مقام پر دیے جا چکے ہیں اور اگر ضرورت و موقع ہواتو ہم بھی اس پر تفصیل سے گفتگو کریں، اس وقت مختصراً عرض ہے کہ تیسری طلاق کے غیر مستحسن ہونے کی طرف خود اسلوبِ قرآن میں واضح اشارہ پایا جاتا ہے اور حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے تیسری طلاق کا خصوصیت سے مبغوض و مکروہ ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ’الطلاق مرتان‘ فرمایا، تیسری طلاق کا یہاں کیوں ذکر نہیں؟[جیسا کہ پندرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی آج تک بعض ناواقف سوال کرتے ہیں، جب کہ اس کے جواب میں] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماچکے ہیں کہ’تسریحٌ باحسان‘ جو بعد میں مذکور ہے، وہی تیسری طلاق ہے۔مطلب اس کا جمہور علماء کے نزدیک یہ ہے کہ جو کام تعلقاتِ زوجیت کے کُلّی انقطاع کا تیسری طلاق سے ہوتا ہے، وہی کام اس طرزِ عمل سے ہو جائے گا۔۔۔یعنی اگر کسی نے تیسری طلاق دے ہی ڈالی تو اب اس نے شریعت کی دی ہوئی ساری آسانیوں کو نظر انداز کر کے بلاوجہ و بلا ضرورت ختم کر دیا، جس کی سزا یہ ہے کہ اب وہ رجعت کر سکتا ہے نہ بغیر اپنی بیوی کی دوسری شادی کے اُس سے نکاح کر سکتا ہے۔
رہا یہ اعتراض کہ جب یہ عمل سرے سے ناپسندیدہ و حرام یا مکروہ ہے تو اس پر عمل کیوں جائز رکھا گیا تو نہ معلوم یہ اعتراض کرنے والوں کے یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی فعل کا جرم و گناہ ہونا اس کے مؤثر ہونے میں کہیں بھی مانع نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر قتلِ نا حق جرم و گناہ ہے مگر جس کو گولی یا تلوار وغیرہ مار کر قتل کیا گیا ہو، وہ قتل ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت اس کا انتظار نہیں کرتی کہ یہ گولی جائز طریقے سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقے سے۔ چوری کرنا باتفاقِ مذاہب جرم و گناہ ہے مگر جو مال اس طرح غایب کر دیا گیاہو وہ تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے۔ اسی طرح تمام معاصی اور جرائم کا حال ہے کہ ان کا جرم و گناہ ہونا اُن کے مؤثر ہونے میں مانع نہیں ہوتا۔اس اصول کا مقتضیٰ یہی ہے کہ شریعت کی دی ہوئی آسانیوں کو نظر انداز کرنا اور بلا وجہ اپنے سارے اختیاراتِ طلاق کو ختم کرکے تین طلاق تک پہنچنا اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب ہوا اور اسی لیے یہ فعل غیر مستحسن اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے، مگر ان سب باتوں کے باوجود جب کسی نے ایسا اقدام کر لیا تو اس کا وہی اثر ہونا چاہیے جو جائز طلاق کا ہوتا یعنی تین طلاق واقع ہو جائیں اور رجعت کا اختیار نہ رہے اور بغیر ایک خاص صورت کے نکاحِ جدید کا اختیار بھی سلب ہو جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اس پر شاہد ہے کہ اظہارِ غضب کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا۔ جس کے بہت سے واقعات کتبِ حدیث میں مذکور ہیں اور جن علماء نے اس مسئلے پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ان میں ان واقعات کو جمع کر دیا ہے۔ (مستفاد از معارف القرآن:1/563)
البتہ ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں شریعت و قرآن کو بدلنے کی کوشش کے بجائے معاشرے اور سماج کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، جس میں طلاق کو ایسا امر بنا دیا گیا ہے کہ اس کے بعد مَرد ہو یا عورت، اس کا جینا محال ہو گیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ’تین طلاق جائز ہی کیوں قرار دی جائیں‘ ہمارے ناقص خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’طلاق شدہ عورت کو سماج و معاشرے میں مناسب مقام دیا جائے‘۔ بہت افسوس ناک ہے کہ طلاق شدہ مَرد اور خصوصاً عورت کے ساتھ ہمارے معاشرے میں ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے وہ طلاق لینے یا دینے سے بہتر اپنی جان دینا سمجھنے لگے ہیں۔ انھیں اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی اور خاندان کی عزت کی اتنی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ اس شرعی حکم کو وبالِ جان سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلم عورتیں اسلامی قانون کو چھوڑ کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں!
آخری بات یہ معاشرے میں چوں کہ دینی مسائل سے جہالت و عدمِ واقفیت چوں کہ عام ہے اس لیے بہتر اور اصل تو یہی ہے کہ نکاح سے کچھ وقت پہلے ہی سے نکاح و طلاق کے مسائل معتبر دینی کتابوں یا جاننے والوں سے سیکھے جائیں ورنہ کم سے کم کہ نکاح پڑھانے والے ہی معمول بنائیں کہ مجلسِ نکاح میں مَردوں کو اس حق ’طلاق‘ کو استعمال کرنے کی شرائط کی تعلیم دیں اور اس کے قیود و حدود کسی حد تک ذہن نشین کروائیں تاکہ جہالت کے سبب ایسے مسائل ہی پیدا نہ ہوں۔ شوہر کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ یہ اس کا حق تو ہے، لیکن اُس وقت جب کہ اِس کے سوا کوئی راستہ ہی موجود نہ ہو، نیز اگر طلاق کی نوبت آہی جائے تو اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے قرآنی و اسلامی طریقۂ طلاق اختیار کیا جائے۔ غصّے کے نشے میں چور ہو کر اپنے ساتھ اپنی بیوی بچوں کی زندگی تباہ کر لینا یقیناً مذموم عمل ہے، جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔