بیوی بچّے ہی نہیں، محتاج والدین کا نفقہ اور خرچہ بھی لازم و ضروری

بیوی بچّے ہی نہیں، محتاج والدین کا نفقہ اور خرچہ بھی لازم و ضروری!
ندیم احمد انصاری

ان گنہ گار آنکھوں نے یہ نظارہ خوب دیکھا ہے کہ اولاد جوانی کے جوش میں بوڑھے والدین کو زندگی کی منج دھار میں تنہا چھوڑ جانے میں ذرا دیر نہیں لگاتی اور اس طرح جانے والے محروم افراد اکثر اپنے والدین کی جانی یا مالی کسی طرح کی خدمت کو لازم و ضروری نہیں سمجھتے۔ اُنھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مَرد پر صرف اپنی بیوی اور بچوں ہی کا نفقہ لازم ہوتا ہے، کسی اور کی ان پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ بعض نافرمان تو وہ ہیں جو عذر یا بلا عذر علاحدہ ہو جانے کے بعد والدین کی زیارت کو بھی کارِ عبث سمجھتے ہیں، اور ان سے صرف جایداد میں حصہ ملنے کی تمنا کرتے ہیں،وہ حضرات اس وقت مخاطب ہی نہیں۔ ہم ان افراد کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں، جو والدین سے کسی درجے میل جول تو رکھتے ہیں، لیکن ان کی جانی مالی خدمت کو اپنے اوپر کسی درجے میں لازم نہیں سمجھتے۔جیسا کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ فرماتے ہیںکہ ایک غلطی یا کوتاہی کہیے، یہ ہے کہ بجز بی بی اور اولاد کے اور کسی کا نفقہ اپنے ذمے نہیں سمجھتے، حالاںکہ ایک تو محتاج والدین کا نفقہ مال دار اولاد پر واجب ہے اور دوسرے جتنے اقارب -(قریبی رشتے دار) اس کے ذی رحم ہوںاور وہ حاجت مند ہوں اور کسب سے بھی عاجز ہوں- اُن سب کا بھی نفقہ واجب ہے، مگر صرف تنہا پر نہیں، بلکہ والدین کا تو تمام اولاد پر اور ان اقارب کا ایسے رشتے داروں پر کہ اگر وہ ذی رحم مرجائے تو ان رشتے داروں کو ان کی میراث میں سے (شرعاً)حصہ پہنچے، بہ قدر اس حصے کے ہر شخص پر واجب ہوگا۔ذی رحم محرم کا نفقہ بھی حصۂ میراث کی طرح تقسیم ہوگا، مثلاً ایک آدمی کے تین بھائی ہیں، ایک عینی، ایک علاتی(باپ شریک)، ایک اخیافی (ماں شریک)، تو اب دیکھنا چاہیے کہ اگر یہ شخص مرجائے تو ان تینوں میں میراث کس طرح بٹے؟ سو حکم یہ ہے کہ اخیافی کو تو ذی فرض ہونے کے سبب چھٹا حصہ ملے، اور عینی کو عصبہ ہونے کے سبب پانچ باقی مل جائیں، اور علاتی کو کچھ بھی نہ ملے، پس اس شخص کا نفقہ بھی ان ہی دونوں پر واجب ہوگا۔ اس طرح سے اگر چھے روپے مہینہ (آج کے زمانے میں اسے ہزار سمجھ کر پڑھ لیں)تجویز کیا جائے تو ایک روپیہ اخیافی بھائی پر اور پانچ روپیہ عینی بھائی پر، اور یہ نسبت میراث کی اُس وقت دیکھیں گے جب سب ذِی رحم محرم ہوں، ورنہ ایک اگر ذِی رحم محرم ہو، دوسرا نہ ہو، تو نفقہ صرف ذی رحم محرم پر ہوگا، اگرچہ اس شخص کے مرنے پر وارث وہ دوسرا غیر ذِی رحم محرم ہوجائے، مثلاً ایک شخص کا ایک چچا زاد بھائی ہے اور ایک ماموں، تو نفقہ صرف ماموں پر ہوگا، اور میراث چچازاد بھائی کو ملے گی۔ یہ سب نفقات تھے علاقۂ قرابت (رشتے داری کے تعلق) کے سبب۔ (اصلاحِ انقلابِ امت)

والدین کے متعلق تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا الاَّایَّاہُ وَبِالوَالِدَیْنِ احْسَانًا۔ اور تمھارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (الاسراء)نیز حدیث شریف میں آیا ہے:اذا کان أحدکم فقیراً فلیبدأ بنفسہ، فان فضل فعلی عیالہ، فان کان فضل فعلی قرابتہ۔ تم میں سے جب کوئی فقیر ہو تو (خرچ کرنے میں) اپنے نفس سے ابتدا کرے، اس کے بعد جو مال بچے اسے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اور اس کے بعد جو مال بچے اسے اپنے اقربا پر خرچ کرے۔(نسائی)

اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے:وعلیٰ الرجل أن ینفق علیٰ أبویہ و اجدادہ و جداتہ اذا کانوا فقراء، وان خالفوہ فی دینہ۔آدمی پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین پر خرچ کرے اور اپنے اجداد و جدات پر خرچ کرے، جب کہ وہ حضرات غریب ہوں، اگرچہ دین میں اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ (الہدایہ)یعنی اگر والدین یا دادا دادی، نانا نانی وغیرہ محتاج ہوں ، تو اُن کے اِخراجات کی ذمے داری اُن کی اولاد پر ہوگی، اور اگر متعدد اَولاد ہوں تو وہ سب برابری کے ساتھ والدین کے ضروری اِخراجات کی ذمے داری ادا کریں گے۔وتجب علیٰ موسرٍ ولو صغیرًا یسار الفطرۃ علی الأرجح الخ ، النفقۃ لأصولہٖ ولو أب أمہٖ – ذخیرۃ – الفقراء ، ولو قادرین علی الکسب الخ ، بالسویۃ بین الابن والبنت (الدر المختار ) وفي الشامي : قولہ : ولو قادرین علی الکسب : فالمعتبر في إیجاب نفقۃ الوالدین مجرد الفقر ، قیل: وہو ظاہر الروایۃ ، فتح ، الخ ۔ والجد کالأب ، بدائع۔ ( شامی) لیکن اگر والد اور اولاد دونوں ہی محتاج ہوںایسی صورت میں ان میں کسی پر کسی کا نفقہ واجب نہیں ہوگا۔ وفي الأصل : إذا کان الأب والابن معسرین لا تجب علیٰ أحدہما نفقۃ الآخر۔ (تاتارخانیہ ) نیز والدین کا نفقہ اولاد کی حیثیت کے موافق لازم ہوگا۔ اس کی وضاحت کے لیے کفایت المفتی سے ایک سوال و جواب ملاحظہ ہو:

(سوال)ایک بیوہ عورت کے چار بیٹے ہیں ۔ ایک نابالغ اورتین بالغ۔ بالغوں میں سے دو لڑکے بہت غریب ہیں، مشکل سے تین تین آنے روز کی مزدوری کرتے ہیں ۔ ان دونوں میں سے ایک تو اکثر بواسیر کے مرض میں مبتلا رہتا ہے ۔ بہرحال یہ دونوں بہت غریب ہیں ۔ تیسرا لڑکا خوش حال ہے، پچیس روپے ماہوار کا سرکاری ملازم ہے اور بھی کچھ بچوں کو پڑھا لیتا ہے ۔ اس کومہینے میں معقول یافت ہوتی ہے ۔ وہ دونوں غریب لڑکے اپنی بیوہ ماں اور نابالغ بھائی کو دو روپے ماہوار نفقے کے لیے دیتے ہیں اور ہاتھ پائوں سے اکثر خدمت کرتے ہیں ۔ اب گزارش ہے کہ تیسرا لڑکا جو خوش حال ہے اس پر بھائی نابالغ اور والدہ کا کیا حق ہے؟ ان دونوں غریبوں کے برابر ہی حق ہے یا کچھ زائد ؟

(جواب)اگر وہ دونوں مالکِ نصاب نہیں ہیں یعنی ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کا مال ان کی ملک میں نہیں ہے اور تیسرا اتنے مال کا مالک ہے تو والدہ اور چھوٹے بھائی کا نفقہ صرف تیسرے کے ذمہ واجب ہے، اور اگر یہ دونوں بھی مالکِ نصاب ہوں تو پھر تینوں کے ذمہ واجب ہے۔ لیکن چوں کہ ان کی آمدنی میں تفاوتِ فاحش ہے، اس لیے ان دو غریبوں پر ان کی حیثیت کے موافق اور تیسرے مالدار پر اس کی حیثیت کے موافق واجب ہوگا۔ وان کان للفقیر ابنان احدھما فائق فی الغنی والاٰخریملک نصابا کانت النفقۃ علیہما علی السواء۔ قال الا مام شمس الائمۃ؛ قال مشائخنا رحمہم اللہ تعالیٰ : انماتکون النفقۃ علیہما علی السواء اذا تفا وتافی الیسار تفاوتایسیرا واما اذا تفاوتا تفاوتا فاحشا فیجب ان یتفاوتا فی قدر النفقۃ انتھیٰ۔(عالمگیری)(کفایت المفتی)

یہ بھی خیال رہے کہ قرابت کی وجہ سے جن لوگوں کا نفقہ واجب ہوتا ہے، ان میں والدین کا نفقہ واجب ہونے پربھی فی الجملہ فقہا کا اجماع و اتفاق ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم فرمایا ہے اور والدین کی کفالت حسنِ سلوک میں داخل ہے(لیکن) والدین کا نفقہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب ان میں خود اپنی ضروریات مکمل کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ باپ اگر محتاج ہو اور کسبِ معاش کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن نہ کماتا ہو، جب بھی اس کا نفقہ بیٹے کے ذمّے واجب ہے، وہ اپنے باپ کو کمانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ یہ حنفیہ کی رائے ہے، حنابلہ وغیرہ کے نزدیک بشمول والدین، اقارب کا نفقہ اسی وقت واجب ہوتا ہے کہ وہ کمانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔والدین کا نفقہ جس میں کھانا، پینا، رہائش سبھی شامل ہیں۔(بترمیم)نیز نفقے کے ان احکام میں جو کہ والدین سے متعلق ہیں، دادا، دادی اور نانا، نانی بھی شامل ہیں، اگر وہ محتاج ہوں تو پوتے، پوتیاں اور نواسے، نواسیاں ان کا نفقہ ادا کریں گے۔(ہدایہ مع الفتح بحوالہ قاموس الفقہ)

مختصر یہ کہ ماں باپ جب محتاج ہوں اور ان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی ذریعۂ آمدنی نہ ہو تو ان کا نان و نفقہ اولاد پر لازم ہے، اگر اولاد ادا نہ کرتی ہو،تو گنہ گار ہوگی۔ (فتاویٰ حقانیہ)اگر والدین غنی ہوں تو اولاد کو ان کے اخراجات برداشت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ، چاہے اولاد خوش حال ہی کیوں نہ ہو، لیکن جب والدین کا متبادل بندوبست نہ ہو تو ان کے اخراجات کی ذمے داری بالغ اولاد پر عائد ہوتی ہے، تاہم اگر اولاد خود تنگ دست ہو تو اسے اس کے لیے مجبور کرنا بھی مناسب نہیں۔(ایضاً)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here