مولاناندیم احمد انصاری
ه حج‘ اسلام کا عظیم ترین رکن اور اہم فریضہ ہے، جو ہر مسلمان پر استطاعت پائے جانے پر زندگی بھر میں ایک بار عائد ہوتا ہے۔ اس میں مالی و جانی ہر دو طرح کی قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں۔ پھر بھی اکثر مسلمان مکہ مکرمہ میں واقع اللہ تعالیٰ کے اس گھر کے دیدار کرنانعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے جن منتخب بندوں کو اس مبارک سفر کی دولت نصیب ہو، انھیں چاہیے کہ درجِ ذیل باتوں کا لحاظ رکھیں:
وطن کی محبت
حضرت انسؓروایت کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺجب سفر سے واپس ہوتے اور مدینے کی بلند جگہوں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کو تیز چلاتے اور اگر کوئی دوسری سواری ہوتی تو اسے حرکت دیتے۔ ابوعبداللہ بخاری کہتے ہیں حارث بن عمیر نے حمید سے اس زیادتی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حرکھا من حبھا یعنی مدینے کی محبت کے سبب سے اس کو حرکت دیتے۔ (بخاری) اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سفر سے واپس ہونے پر اپنے وطن اور شہر کو دیکھ کر خوش ہونا معیوب نہیںبلکہ فطری عمل ہے، جس کا ثبوت خود ذاتِ نبوی سے بھی ملتا ہے۔
اہلِ خانہ کو مشقت میں نہ ڈالے
ایک مسئلہ یہ ہے کہ حج یا کسی بھی سفر سے واپس آنے والایہ خیال رکھے کہ جہاں تک ممکن ہو گھر میں ایسے وقت پہنچے جس سے اہلِ خانہ کو مشقت کم سے کم ہو۔حضرت انسؓسے روایت ہے:حضر ت نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں رات کو نہ اترتے اور صبح یا شام کے وقت ہی داخل ہوتے تھے۔ (بخاری، مسلم)
واپسی کی دعا و اذکار
حج سے واپس آنے والے کے لیے بعض اذکار کا احادیث سے ثبوت ملتا ہے، اس لیے ان کے اہتمام کی کوشش کرنی چاہیے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ جب جہاد یا حج یا عمرے سے واپس لوٹتے تو ہر بلند زمین پر تین تکبیریں کہتے، پھر فرماتے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللہ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ۔اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم لوٹنے والے، توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے اور سجدہ کرنے والے اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور کافروں کی فوج کو تنہا شکست دے دی۔ (بخاری)
حاجی کو پھولوں کا ہار پہنانا
بعض جگہ رواج ہے کہ کوئی شخص حج یا عمرے کے لیے جائےتواس کے احباب اسے پھولوں کے ہار ،اسی طرح واپسی پر بھی پھولوں یا نوٹوں کے ہار پہناتے ہیں۔حاجی کو رخصت کرنے یا استقبال کے لیے جانے میں تو کوئی حرج نہیں،مگر پھولوں کے ہار پہنانا محض ایک رسم ہے اور شریعت میں من گھڑت رسموں کی کوئی اصل نہیں۔ (دیکھیےزبدۃ المناسک)’اغلاط العوام ‘ میں لکھا ہے کہ عام عادت ہے کہ جب کوئی شخص حج کے لیے اپنے گھر سے چلتا ہے تو لوگ پھولوں اور روپیوں کا ہار بنا کر اس کے گلے میں ڈالتے ہیں، جس میں اکثر کی نیت فخر اور شان کی ہوتی ہے، جو کہ شریعت میں ممنوع اور نہایت مذموم ہے اور اگر اس میں ثواب کی نیت کی جاتی ہے تو اور بھی زیادہ قبیح اور برا عمل ہے، جو واجب الترک ہے۔(ص)
بے جا پابندیاں عائد نہ کریں
حضرت ابوبراء سے روایت ہے،یہ آیت: وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا۔ (البقرہ)ہمارے متعلق نازل ہوئی۔ انصار جب حج کر کے واپس ہوتے تو اپنے گھروں کے دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ گھروں کی پشت کی طرف سے داخل ہوتے۔ ایک انصاری شخص حج سے واپس آیا اور اپنے گھر کے دروازے سے داخل ہو گیا تو اسے عار دلائی گئی،اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نیکی کی بات یہ نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں ان کی پشت سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ گناہ سے بچو اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔ (بخاری، مسلم)اس آیت سے یہ مسئلہ نکلاکہ جس چیز کو شریعتِ اسلام نے ضروری یا عبادت نہ سمجھا ہو اس کو اپنی طرف سے ضروری اور عبادت سمجھ لینا جائز نہیں۔ اسی طرح جو چیز شرعاً جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا بھی گناہ ہے۔ (معارف القرآن)
حاجی کی دعا
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں۔ اگر اللہ سے دعا مانگیں تو اللہ قبول فرمائیں اور اگر اللہ سے بخشش طلب کریں تو اللہ ان کی بخشش فرما دیں ۔(ابن ماجہ، ابن خزیمہ) خلاصۂ کائنات نے دعا بھی فرمائی:اے اللہ حج کرنے والے کی مغفرت فرما دے اور اس کی بھی، جس کی مغفرت کی حاجی دعا کرے۔ (الترغیب)نیز رسول اللہ ﷺنے ہمیں تعلیم دی ہے: جب تم کسی حاجی سے ملاقات کروتو اس سے مصافحہ کرو اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اپنے لیے مغفرت کی دعا کرواؤ، اس لیے کہ وہ بخشا بخشایا ہوا آیا ہے۔(مسند احمد)
حاجی کی دعوت
ہمارے معاشرے میں حج سے پہلے اور بعد میں حاجی کی دعوت کا بھی رواج عام ہے، یہاں تک کہ کسی کو سفرِ حج میں رخصت کرنے کے لیے بہت عورتیں بھی جمع ہو جاتی ہیں، جو بالکل خلافِ شرع اور سخت منع ہے اور غضب یہ ہے کہ بعض تو مستقل دعوت دے کر مجمع بناتے ہیں جو کہ ریا و نمود کی دلیل ہے۔ ان سب کو ترک کرنا چاہیے۔(اغلاط العوام)اسی طرح حج سے واپسی پر بھی اگر ریا و نمود کا شائبہ پائے جائے تو دعوت کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر دعوت واقعی حج سے واپسی کے جشن میں نہ ہو اور کسی رسم کی پابندی مقصود ہو اور نہ اس میں کوئی منکر اور خلافِ شریعت بات ہو تو ایسی دعوت ممنوع نہیں ہوگی۔حضرت ابن عباسؓروایت کرتے ہیں:جب حضرت نبی کریم ﷺ مکّے پہنچے تو بنی عبدالمطلب کے کئی لڑکوں نے آپ کا استقبال کیا، آپ نے ایک لڑکے کو اپنے سامنے اور دوسرے کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ (بخاری )اس حدیث کو امام بخاریؒنے ’کتاب العمرہ‘ میں جس باب کے تحت ذکر کیا ہے، اس کا ترجمہ ہوتا ہے: ’آنے والے حجاج کا استقبال کرنا اور تین افراد کا سواری پر بیٹھنا‘۔اس لیے علما نے لکھا ہے کہ ’نقعیہ‘ بنانا مستحب ہے،یعنی وہ کھانا جو مسافر کے آنے پر تیار کیا جائے اور اس کا اطلاق مسافر یا کسی اور کی طرف سے بنائے گئے کھانے‘ سب پر ہوتا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپ نے اونٹ یا گائے ذبح کی تھی۔(ہدایۃ السالک)ویسے بھی اس طرح کے مسائل میں بہت زیادہ شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ یہ ان کی خوشی میں شراکت ہے۔ لیکن فضول خرچی سے بچے کہ شریعت میں اس سے روکا گیا ہے۔
حج پر افتخار و اشتہار نہ ہو
ویسے تو حج کوئی مخفی عبادت نہیں، پھر بھی اپنے نفس کو ریا سے بچانے کا اہتمام کرنا چاہیے، دیکھا جاتا ہے کہ حج سے واپسی پر بہت سے لوگ شیخی بگھارنے لگتے ہیں، یہ سب غیر مناسب ہے۔حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اکثر لوگوں کو افتخار اور اشتہار کی عادت ہو جاتی ہے، جہاں بیٹھتے ہیں اپنے حج کے تذکرے کرتے ہیں، تاکہ لوگ ان کو حاجی سمجھیں۔ لوگوں سے فخراً کہتے ہیں کہ ہم نے سفرِ حج میں اتنا روپیہ خرچ کیا، مکہ میںاتنا دیا، مدینہ میں اتنا خرچ کیا۔ یقول اہلکت مالاً لبداً۔ حق تعالیٰ کفار کی مذمّت فرماتے ہیں کہ کافر خرچ کرکے گاتا پھرتا ہے کہ میں نے مال کے ڈھیر خرچ کر دیے،یہ وہ معاصی ہیں کہ خشک مولوی بھی یہاں تک نہیں پہنچتے۔ حج میں افتخار اور اشتہار اور تعظیم و تکریم کی خواہش نہ ہونی چاہیے، اس میں تواضع و مسکنت، ذلّت و خواری ہونی چاہیے، یاد رکھو اس افتخار اور اشتہار سے سب کی کرائی محنت اکارت ہو جاتی ہے۔(اغلاط العوام)بعض لوگ صراحتاً اپنے حاجی ہونے کا اگر ذکر نہیں کرتے تو کسی نہ کسی پیرایے میں مخاطب کو بتلاتے ہیں کہ ہم حاجی ہیں۔ ایک بزرگ کسی کے یہاں مہمان ہوئے تو میزبان نے خادم سے کہا کہ اس صراحی کا پانی لانا، جو ہم دوسرے حج میں ساتھ لائے تھے! مہمان نے کہا کہ حضرت آپ نے ایک بات میں دونوں حج کا ثواب کھو دیا۔چوں کی اس بات میں اس نےبتلا دیا کہ میں نے دو مرتبہ حج کیا ہے، یہ ریا نہیں تو اور کیا ہے؟(ایضاً)
حج کے بعد کیسے رہیں؟
ان سب کے بعد اہم مرحلہ آتا ہے، حج کے بعد زندگزارنے کا۔ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :نماز قائم کرو ، زکاۃ ادا کرو ، حج و عمرہ کرو اور استقامت اختیار کرو تمھارے معاملات درست رہیں گے ۔( طبرانی کبیر، طبرانی اوسط)معلوم ہوا اسلامی عبادات جیسے نماز، روز اور حج و زکوٰۃ وغیرہ کی سعادت حاصل ہونے پر بھی اگر کوئی نیکیوں پر استقامت اختیار نہ کرے تو یہ محرومی کی بات ہے، اس سے جہاں یہ اندیشہ ہے کہ اس کی عبادت ہی قبول نہیں ہوئی کہ اس میں خوش گوار تبدیلی نہیں آئی، وہیں لوگوں کو کہنے سننے کا موقع دینا بھی ہے کہ پھر لوگ کہیں گے کہ ’دیکھو یہ حاجی صاحب ہو کر ایسا کرتے ہیں، کیا فایدہ ایسے حج و عمرے کا؟‘