مولانا ندیم احمد انصاری
اللہ تبارک و تعالی قادرِ مطلق ہے۔ موسم کا تغیر اسی کی قدرت کے ایک نشانی ہے۔ وہ خالق ہے اور اس کے سوا سب مخلوق۔ وہ جب چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے، جس طرح چاہتا ہے، پھیر دیتا ہے۔ اس نے انسان کو تمام مخلوقات پر شرف و بزرگی عطا کی اور دیگر تمام مخلوقات کو انسان کی خدمت پر مامور فرمایا۔ موسم آنے جانے والے ہوتے ہیں۔ کبھی گرمی ہوتی ہے، جس سے بہت سے کام نکلنے ہیں۔لیکن جب انسان اس سے سخت تکلیف محسوس کرتا ہے تو ربِ کائنات اپنی قدرت سے موسم کو تبدیل کر دیتا ہے اور بادلوں سے مینہ برساتا ہے، جس سے جلتی ہوئی دھرتی سکون پاتی ہے، فصلیں لہلہانے لگتی ہیں اور پانی کا ذخیرہ جمع ہو تا ہے۔کبھی وہ قادرِ مطلق ٹھنڈی ہوائیں چلاتا اور موسم میں خنکی پیدا کر دیتا ہے، جس سے مخلوق فرحت و انبساط محسوس کرتے ہیں۔لیکن کبھی بعض علاقوں میں ٹھنڈی اس قدر شدید ہو جاتی ہے کہ وضو اور غسل کرنا- جو کہ بدن کی صفائی کے ساتھ ساتھ اس پاک پروردگار کی عبادت کے وسیلے بھی ہیں- مشکل بلکہ مہلک بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن قربان جائیے اس رحیم و کریم رب کے کہ اس نے اپنے بندوں کو ہلاک ہونے سے بچایا اور نبیِ آخر الزماں کے ذریعے قیامت تک آنے والی انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے عام اجازت دے دی کہ جو حضرات وضو و غسل کے لیے پانی پر قدرت نہیں رکھتے- خواہ پانی موجود نہ ہونے کی صورت میں یا یہ کہ پانی تو میسّر ہو لیکن کسی عذر کے باعث وہ اس کو استعمال پر قادر نہ ہوں-ان تمام لوگوں کو اللہ رب العزت نے بعض شرائط کے ساتھ’تیمم‘ کی اجازت دی ہے اور یہ نعمت اس امت کو خاتم النبیین، حبیبِ خدا، حضرت محمد ﷺ کے صدقے میں ملی ہے۔اس وقت بھارت کے بعض علاقوں میں خاصی ٹھنڈ محسوس کی جا رہی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ تیمم سے متعلق چند ضروری باتیں پیش کردی جائیں۔
تیمم اور اس کی اجازت
’تیمم‘ کے لغوی معنی ہیں: قصد کرنا، اور شرعی اصطلاح میں اس لفظ کا مطلب ہوتا ہے ’پاکی حاصل کرنے کی نیت سے پاک مٹی کے قائم مقام کسی چیز کا قصد کرنا اور اس کو منہ ہاتھ وغیرہ پر لگانا‘۔(مرقاۃ المفاتیح)اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْه.پس تم پاک مٹی سے تیمم کرو اور اس سے اپنے منہ اور ہاتھوں کو مَلو۔(المائدہ)حضرت عائشہؓسے روایت ہے، انھوں نے (اپنی بہن) حضرت اسماءؓ سے ہار عاریتًا لیا تھا، وہ گم ہوگیا تو حضرت نبی کریم ﷺ نے اسے ڈھونڈنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا۔ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا۔ (پانی تھا نہیں) اس لیے انھوں نے بغیر وضو نماز پڑھ لی۔ جب وہ حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ شکایت پیش کی۔ اس پر آیتِ تیمم نازل ہوئی، تو اسید بن حضیرؓ(عائشہؓسے) کہنے لگے: اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، اللہ کی قسم ! جب بھی آپ پر کوئی پریشانی آئی، اللہ تعالیٰ نے اس میں راہ نکال دی اور اہلِ اسلام کے لیے اس میں برکت فرما دی۔(ابن ماجہ)اللہ تعالی کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وضو و طہارت کےلیے ایسی چیز کو پانی کے قائم مقام قرار دے دیا، جو پانی سے زیادہ سہل الحصول ہے۔ (معارف القرآن)
تیمم صرف امتِ محمدیہ کے لیے
تیمم 5ھ میں مشروع ہوا۔ یہ پانی دستیاب نہ ہونے یا معذور ہونے کی صورت میں وضو اور غسل کا قائم مقام ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان جلیل القدر نعمتوں میں سے ایک ہے جو اس نے اپنے فضل و کرم سے صرف امتِ محمدیہ کو عطا کی ہیں۔ گذشتہ امتوں میں تیمم مشروع نہیں تھا۔(مظاہر حق جدید)حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں: (1) ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی (2) زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنادی گئی، لہٰذا میری امت میں جس شخص پر نماز کا وقت (جہاں) آجائے، اسے چاہیے کہ وہیں نماز پڑھ لے (3) میرے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیے گئے، حالاں کہ مجھ سے پہلے کسی (نبی) کے لیے حلال نہیں کیے گئے تھے (4) مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی (5) ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔(بخاری)
پانی پر قدرت نہ ہونے پر تیمم
حضرت ابوذرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: پاک مٹی مسلمان کے لیے پاک کرنے والی ہے، اگرچہ اسے دس سال تک پانی نہ ملے۔ پھر جب پانی مل جائے تو وضو اور غسل کرے،کیوں کہ یہ اس کے لیے بہتر ہے۔(ترمذی)اورسعید بن عبدالرحمن بن ابزی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے غسل کی حاجت ہوگئی اور پانی نہ مل سکا! تو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم اور آپ سفر میں جنبی ہوگئے تھے تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی اور میں (مٹی میں) چمٹ گیا اور نماز پڑھ لی، پھر میں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے اس کو بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تجھے صرف اتنا کافی تھا (یہ کہہ کر) آپ ﷺنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان میں پھونک دیا، پھر ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرما لیا۔(بخاری)
سردیوں میں تیمم
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے سردی کے زمانے میں ایک رات غزوۂ ذات السلاسل میں احتلام ہوگیا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو مرجاؤں گا، اس لیے میں نے تیمم کر کے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا دی، بعد میں میرے ساتھیوں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: عمرو! تو نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی؟ میں نے غسل نہ کرنے کا سبب بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ۔ تم اپنے آپ کو قتل مت کرو اور اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے! یہ سن کر آپ ﷺ مسکرا دیے اور کچھ نہ کہا۔ (ابوداود) تیمم جائز ہونے کے پانی کے استعمال سے عاجز ہونا شرط ہے، خواہ وہ اس وجہ سے ہو کہ پانی مفقودرہے، یا اس وجہ سے کہ پانی کے استعمال سے مرض کی زیادتی وامتداد کا خوف ہے، یا سردی کی وجہ سے ہلا کی یا بیماری کا اندیشہ ہے اور پانی گرم نہیں مل سکتا ۔ پس اگر ان امور میں سے کوئی امر پایا جائے تو تیمم جائزہے، ورنہ جائز نہیں۔اگر سرد پانی سے مرض کا اندیشہ ہو تو گرم پانی سے غسل (یا وضو)کرنا چاہیے،اگر گرم پانی سے ظنِ غالب یا ماہر مسلمان ڈاکٹر کے مطابق مرض کا اندیشہ ہو توتیمم جائز ہے، ورنہ نہیں۔ اولمرض یشتد او یمتد بغلبۃ ظن او قول حاذق مسلم ولو بتحرک الخ او بردیھلک الجنب او یمرضہ ولو فی مصر اذا لم یکن لہ اجرۃ حمام الخ درمختار۔(عزیز الفتاویٰ)
تیمم کا مسنون طریقہ
تیمم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر نیت کرے کہ میں ناپاکی دور کرنے اور نماز پڑھنے کے لے تیمم کرتا ہوں۔ پھر دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے اندرونی جانب سے کشادہ کرکے مار کر مَلتا ہوا آگے کو لائے اور پھر پیچھے لے جائے۔ پھر ان کو اٹھا کر اس طرح جھاڑے کہ دونوں ہتھیلیوں کو نیچے کی طرف مائل کرکے دونوں انگوٹھوں کو آپس میں ٹکڑا دے کہ زائد مٹی گر جائے اور اس طرح نہ جھاڑے کہ دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں ملے کہ اس طرح ضرب باطل ہو جائے گی، اور اگر زیادہ مٹی لگ جائے تو پھونک مار کر اڑا دے۔ پھر پورے دونوں ہاتھوں کو اپنے پورے منہ پر اوپر سے نیچے کو اس طرح مسیح کرے کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہے جہاں ہاتھ نہ پہنچے۔ ایک بال برابر بھی اگر جگہ چھوٹ گئی تو تیمم جائز نہ ہوگا۔ ڈاڑھی کا خلال بھی کرے۔ پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ مٹی پر مارے اور جھاڑے اور بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں سوائے کلمے کی انگلی اور انگوٹھے کے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے سوا چاروں انگلیوں کے سرے سے پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اور اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی بھی کچھ لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے۔ پھر باقی دونوں انگلیوں (یعنی انگشتِ شہادت اور انگوٹھا) اور ہاتھ کی باقی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر کہنی کی طرف سے پہنچے (کلائی) تک کھینچا جائے اور انگوٹھے کے اوپر کی جانب بھی اس کے ساتھ ہی مسیح کرے۔ مسح عضو تمام ہونے سے پہلے اگر ہاتھ اٹھالیا تو ضرب باطل ہوجائے گی۔ اسی طرح دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ کا مسح کرے۔ پھر انگلیوں کا خلال کرے۔ ہاتھوں کے مسح کا دوسرا طریقہ اس طرح ہے کہ بائیں ہاتھ کی چاروں انگلیوں کے اوپر یعنی پشت کی جانب انگلیوں کے سروں سے کہنیوں تک مسیح کرے پھر صرف ہتھیلی سے یعنی بغیر انگلیوں کے کہنی سے کلائی تک دوسری یعنی اندر کی جانب مسح کرے، پھر بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصے سے دائیں انگوٹھے کے اندرونی حصے سے دائیں انگوٹھے کے ظاہری (پشت) کے حصے کا مسح کرے۔ پھر اسی طرح دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا مسح کرے۔ دونوں طریقے صحیح اور احوط ہیں۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی طریقہ ہے۔ اگر انگوٹھی وغیرہ ہو تو اس کو اتار دے یا ہلا کر اس کی جگہ بھی مسح کرے۔(عمدۃ الفقہ)