وَقف: ضروری مسائل اور مسلمانوں کی ذمّے داریاں

اسلام میں نیکی کے کاموں اور خیراتی مقاصد کے لیے زمین جائے داد اور مال وقف کرنا بہت بڑا کارِ ثواب اور صدقۂ جاریہ ہے، اس لیے مسلمان جس ملک اور جس علاقے میں بھی آباد ہیں نیک کاموں کے لیے زمین جائے داد اور مال وقف کرتے ہیں۔ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ بہت پرانی ہے، سیکڑوں سال سے ہندوستان کے ہر علاقے میں آباد ہیں، اس لیے ہندوستان کے ہر صوبے اور علاقے میں مختلف دینی اور رفاہی و خیراتی مقاصد کے لیے مسلم اوقاف موجود ہیں، اس اوقاف کی حفاظت، انھیں ترقی دینا اور ان کی آمدنی وقف کرنے والوں کے مقاصد کے مطابق خرچ کرنا، نیز اوقاف کی املاک سے غاصبانہ قبضہ ختم کرنا ہندوستانی مسلمانوں اور حکومتِ ہند کی اہم ترین ذمّے داری ہے۔

تقسیمِ ہند کے موقع پر ہندوستان کے (خصوصاً پنجاب، ہریانہ، دہلی اور مغربی یوپی کے) بعض علاقوںسے بڑے پیمانے پر مسلمان پاکستان منتقل ہوگئے، ان علاقوں میں مسلمانوں کے مختلف النوع بڑے بڑے اوقاف (مساجد، مدارس، خانقاہیں، قبرستان، سرائے وغیرہ) ہیں، ان علاقوں میں اگر کچھ بھی مسلمان آباد ہیں تو ان کی ذمّے داری ہوتی ہے کہ ان اوقاف کے تحفُّظ اور انھیں نفع آور بنانے کی جد وجہد کریں۔ جو آبادیاں مسلمانوں سے کلیۃً خالی ہوچکی ہیں، وہاں کے اوقاف کا تحفُّظ وہاں کے وقف بورڈ کی ذمّےداری ہے اور قریبی مسلم آبادی کو ان کے تحفُّظ کی جد وجہد کرنی چاہیے۔[نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے،اوقاف سے متعلق مسائل]

وقف کی حفاظت

وقف کے مال کی حفاظت متولی پر حتی المقدور لازم ہے، اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ واقف نے جو مال جس مقصد کے لیے دیا ہے، اسی مصرف میں اسے صَرف کرنا واجب ہے۔ (مثال کے طور پر) جو زمین مسجد کے لیے وقف ہوچکی ہے، اب ضروری ہے کہ واقف نے جس مقصد کے لیے وقف کیا ہے اسی میں اس کا استعمال ہو، گاؤں والے اس میں ترمیم وتغییر نہیں کرسکتے۔ شرط الواقف کنص الشارع فقہا کے یہاں مسلَّم ہے۔ [محمود الفتاویٰ]

وقف میں رجوع

وقف ایسی چیز نہیں، جس میں بچوں کے کھیل کی طرح نیت سے رجوع کیا جا سکے۔ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کی نیت کر لی گئی، اب اس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ شامیؒ نےشیخ قاسمؒ کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: وقف میں جو شرطِ معتبر ابتداء ًلگائی گئی ہو، خود واقف کو بھی اس میں تبدیلی اور تخصیص کا اختیار حاصل نہیں، خاص طور پر جب کہ قاضی بھی اس کا فیصلہ کر دے۔ اس سے ثابت ہوا کہ واقف کے لیے اپنی شرط سے رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔وَمَا کَانَ مِنْ شَرْطٍ مُعْتَبَرٍ فِي الْوَقْفِ فَلَیْسَ لِلْوَاقِفِ تَغْیِیرُهُ وَلَا تَخْصِیْصُهُ بَعْدَ تَقَرُّرِهِ وَلَا سِیَّمَا بَعْدَ الْحُکْمِ. فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ الرُّجُوعَ عَنْ الشُّرُوطِ لَا یَصِحُّ. [فتاویٰ شامی]

وقف میں اپنے لیے شرط

بخاری شریف ’کتاب الوصایا‘ میں ایک باب ہے: زمین یا کنواں وغیرہ وقف کرنے والے نے اپنے لیے شرط لگائی کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی اپنا ڈول اس میں ڈالے گا، تو ایسے وقف کے درست ہونے کا بیان۔ اس میں یہ روایت آئی ہے کہ حضرت انسؓنے ایک گھر وقف کردیا تھا، پھر وہ جب وہاں جاتے تو اسی میں مقیم ہوتے۔ حضرت زیبر نے بھی اپنے گھر خیرات کردیے تھے اور اپنی مطلقہ بیٹیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اس میں رہیں، لیکن مکان کو نقصان نہ پہنچائیں اور نہ خود تکلیف اٹھائیں، پھر اگر کوئی شوہر کی وجہ سے مال دار ہوجاتی تو اس سے کہہ دیتے کہ اس کو ان مکانات میں رہنے کا حق نہیں ہے، اور حضرت ابن عمرؓ نے اپنا حصہ؛ جو حضرت عمر کے گھر سے انھیں ملا تھا، اس کو اپنی محتاج اولاد کے لیے ’عمریٰ‘ (ایسا ہبہ جس میں تاحیات خود تصرف کرنے کا حق ہو) کردیا تھا۔۔۔ حضرت عمرؓ نے اپنے وقف کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو شخص اس کا متولی ہوا، اس پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ اس میں سے کچھ کھالے، اور وقف کا متولی کبھی خود واقف بھی رہتا ہے، کبھی کوئی دوسرا، تو یہ بات ہر ایک کے لیے جائز ہوئی کہ متولی اپنے ضروری خرچ کے لیے اس میں (عُرف کے مطابق) کچھ لے لے۔ بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِينَ: وَأَوْقَفَ أَنَسٌ دَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا قَدِمَهَا نَزَلَهَا وَتَصَدَّقَ الزُّبَيْرُ بِدُورِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِلْمَرْدُودَةِ مِنْ بَنَاتِهِ:‏‏‏‏ أَنْ تَسْكُنَ غَيْرَ مُضِرَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مُضَرٍّ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِ اسْتَغْنَتْ بِزَوْجٍ فَلَيْسَ لَهَا حَقٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ نَصِيبَهُ مِنْ دَارِ عُمَرَ سُكْنَى لِذَوِي الْحَاجَةِ مِنْ آلِ عَبْدِ اللَّهِ. . . وَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فِي وَقْفِهِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ وَقَدْ يَلِيهِ الْوَاقِفُ وَغَيْرُهُ فَهُوَ وَاسِعٌ لِكُلٍّ.[بخاری] حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے، حضرت عمرؓ نے اپنے وقت میں یہ شرط مقرر کی تھی کہ جو شخص اس کا متولی ہو وہ اس میں سے کھالے اور اپنے دوست کو کھلا دے، بہ شرطے کہ وہ اس طریقے سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَاشْتَرَطَ فِي وَقْفِهِ أَنْ يَأْكُلَ مَنْ وَلِيَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُؤْكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ مَالًا.[بخاری]یعنی جو شخص وقفی جائے داد کا متولی و منتظم ہو، اپنی محنت و انتظام کی اجرت دستور کے مواقف لے سکتا ہے۔[نصر الباری]

مقاصدِ مسجد کے لیے

مسجد کے لیے وقف اشیا، زمین، مکان، دکان، جانور یا جمع شدہ روپے کو مسجد کا مستقل ذریعۂ آمدنی بنانے کے لیے مصرف میں لانا شرعاً جائز ہے۔ اس سے مقاصدِ مسجد کی تکمیل اور ضروریاتِ مسجد پوری کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی کو ان امور میں علما کے مشورے کے بعد فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:مسجد کی گھاس اور چٹائی‘ جب مسجد کو ان کی ضرورت نہ رہے، اسی طرح مسافرخانہ اور کنواں‘ جب ان سے نفع نہ اٹھایا جا رہا ہو، تو ان کا وقف قریبی مسجد، مسافرخانے، کنویں اور حوض پر صَرف کیا جائے گا۔حَشِيشُ الْمَسْجِدِ وَحُصْرُهُ مَعَ الِاسْتِغْنَاءِ عَنْهُمَا وَ كَذَا الرِّبَاطُ وَالْبِئْرُ إذَا لَمْ يُنْتَفَعْ بِهِمَا فَيُصْرَفُ وَقْفُ الْمَسْجِدِ وَالرِّبَاطِ وَالْبِئْرِ وَالْحَوْضِ إلَى أَقْرَبِ مَسْجِدٍ أَوْ رِبَاطٍ أَوْ بِئْرٍ أَوْ حَوْضٍ.[درِ مختار]اور ایک وقف کا ملبہ اُسی طرح کے دوسرے وقف پر خرچ کرنا جائز ہے۔وقف کے ملبے کو بعینہٖ وقف میں استعمال کرنا ممکن نہ ہو تو حاکم یا متولی اس ملبے کو وقف کی تعمیر میں استعمال کرے، ورنہ اسے محفوظ رکھے، اور اگر اس کے ضایع ہونے کا اندیشہ ہو تو اس ملبے کو بیچ دے اور حاصل ہونے والی قیمت محفوظ رکھے، تاکہ وقف کو ضرورت پڑنے پر وہ وقف میں استعمال کی جا سکے۔وَصَرَفَ الْحَاکِمُ أَوْ الْمُتَوَلِّي نَقْضَهُ أَوْ ثَمَنَهُ إنْ تَعَذَّرَ إعَادَةُ عَیْنِهِ إلَی عِمَارَتِهِ إنْ احْتَاجَ وَإِلَّا حَفِظَهُ لَهُ لِیَحْتَاجَ إلَّا إذَا خَافَ ضَیَاعَهُ فَیَبِیعَهُ وَیُمْسِکَ ثَمَنَهُ لِیَحْتَاجَ. [ایضاً]

وقف کی زمین بیچنا

اگر واقف نے بہ وقتِ وقف اس زمین میں تبدیلی کرنے کا اختیار اپنے لیے یا (بعد میں آنے والے) کسی اور کے لیے رکھا ہے، تب تو اس کی تجویز کردہ شرط کے مطابق تبدیلی درست ہے، اور اگر اس نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی اور موقوفہ زمین بالکلیہ ناقابلِ انتفاع نہیں بنی، بلکہ اس میں سے آمدنی ہوتی ہے، اگرچہ اس کے بدل سے زیادہ آمدنی متوقع ہے، تو اس صورت میں مختار قول کے بہ موجب اس زمین کو فروخت کرکے آمدنی کا کوئی دوسرا مستقل ذریعہ بنانا درست نہیں ہے، البتہ اگر اس زمین سے ہونے والی آمدنی اتنی قلیل ہے کہ اس زمین پر ہونے والے مصارف کے لیے بھی کافی نہیں ہے، تو چند شرائط کے ساتھ اس میں تبدیلی درست ہے۔اعلم ان الاستبدال علی ثلاثة وجوه:الأول: أن یشرطه الواقف لنفسه او لغیره أو لنفسه وغیرہ فالاستبدال فیه جائز علی الصحیح، وقیل: اتفاقا۔ والثاني: أن لا یشرطه سواء شرط عدمه أو سکت؛ لکن صار بحیث لا ینتفع به بالکلیة، بأن لا یحصل منه شیء أصلا، أو لا یفی بمؤنته فھو ایضاً جائز علی الأصح، إذا کان بإذن القاضي، ورأیه المصلحة فیه۔ والثالث: أن لا یشرطه أیضاً؛ ولکن فیه نفع في الجملة، وبدله خیر منه ریعاً ونفعاً، وھذا لا یجوز استبداله علی الاصح المختار، کذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته ’الموضوعة الاستبدال اطنب فیها علیه الاستدلال‘ وھو مأخوذ من الفتح أیضاً۔[شامی،محمود الفتاویٰ مبوب]

وقف کا مال بینکوں میں رکھنا

وقف کا مال بلا شدید ضرورت کے بینکوں میں رکھنا جائز نہیں۔ اگر متولی نے وقف کا مال بینکوں میں رکھا تو بینک کے دیوالیہ ہونے پر اس پر ضمان لازم آئے گا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں: بہ جُز خاص صورتوں کے‘ جن میں مال کا تلف ہوجانا مظنون قریب یا متیقن ہو، کسی کو قرض دینا جائز نہیں اور بینکوں میں جوجمع کیا جاتا ہے گو عنوان اس کا ودیعت ہو لیکن اس کے قواعد میں یہ امر یقینی اور معروف ہے کہ وہاں بعینہٖ یہ ودائع نہیں رکھی جاتیں، بلکہ اُن سے کاروبارکیا جاتا ہے پس بقاعدۂ المعروف کالمشروط اس تصرف کو مودع بکسرالدال کی جانب سے ماذون فیہ کہا جائے گا، اور تصرف کا اذن دینا اقراض ہے، پس خزانچی کا یہ فعل یقیناً اقراض ہوا، جو ناجائز تھا، اس لیے بہ صورت اتلاف کے خزانچی پر اور جتنے ممبروں نے اس اقراض کی اجازت دی ہے سب پر ضمان لازم آوے گا، خزانچی پر بہ وجہ مباشرت کے اور ممبروں پر بہ وجہ اجازت کے۔[امداد الفتاوی جدید]

کالم نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here