مفتی ندیم احمد انصاری
ہمارے سماج میں لڑکیوں کو زندگی بھر عموماً اور نکاح کے موقع پر خصوصاً بڑے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن اس وقت ہم بالقصد لڑکوں کے مسائل پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔اسلام انصاف کا علَم بردار ہے، اسلام کسی بھی مخلوق کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کرتا۔ فیمنزم (feminism) کے زیرِ اثر آج عورتوں کے حقوق پر تو بات ہوتی ہے لیکن مَردوں کے حقوق سے غفلت برتی جاتی ہے۔ نکاح کے موقع پر لڑکی کی مالی حیثیت پر اگر گفتگو کی جائے تو اسے معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن لڑکے کے سلسلے میں صرف اور صرف مال کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ خاندانی رئیس یا سرکاری نوکری کرنے والے بےڈھب اور بےجوڑ لڑکے کو پسند کر لیا جاتا ہے، ورنہ ٹال دیا جاتا ہے۔
لوگ باقاعدہ یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ لڑکے کا بینک بیلینس دیکھنا چاہیے، پھر چاہے وہ جیسا بھی ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں کہ بیس ہزار کمانے والا رنکاح کے وقت پچاس ہزار آمدنی اور بہت سی پراپرٹی بتاتا ہے، پھر شادی کے بعد جب بات کھلتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن کیا کیجیے لوگ ایسوں کے ہی جھانسے میں آنا پسند کرتے ہیں، شرافت اور سچائی کا کوئی مول نہیں رہا۔ لڑکی والے کہتے ہیں کہ لڑکی کا مسئلہ ہے، دیکھنا تو پڑتا ہی ہے، ہماری بیٹی کو کل کوئی تکلیف نہ ہو۔ بڑے ادب سے عرض ہے کہ ماں باپ کو بھی ماں باپ ہی بن کر رہنا چاہیے، خدا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مناسب یہ ہے کہ سماج میں ہر آدمی اپنی حیثیت سے میل کھاتا ہوا رشتہ تلاش کرے، نہ بہت اونچی حیثیت والوں سے رشتہ بنانے کی کوشش ہو نہ بہت پست حیثیت والوں سے۔ اسی میں عافیت ہے، اس کے بغیر ہم آہنگی نہیںہو سکتی۔ ’رحمۃ اللہ والواسعہ‘ میں لکھا ہے کہ حسب و نسب ، قومیت، ذات برادری اور پیشوں وغیرہ کے ساتھ جو شرف وعزت اور دنائت ورذالت کا تصور قایم ہو گیا ہے وہ غیر اسلامی ہے مگر ایسی چیز ہے جس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہے، پس جب تک معاشرہ اس برائی سے پاک نہ ہو جائےعارضی طور پر نکاح میں اس کا لحاظ ضروری ہے ، حضرت عمر ؓنے جو فرمایا ہے کہ میں شریف خاندانوں کی عورتوں کو میل کے لوگوں ہی میں نکاح کی اجازت دوںگا، اسی طرح کفات کے اعتبار کی جو روایات ہیںان کا مصداق یہی عارضی صورت ہے، پس اگر چہ یہ امر جاہلی ہے مگر نکاح کو پروان چڑھانے کے لیے اس کا لحاظ ضروری ہے، ان کا مصداق یہی عارضی صورت ہے ، البتہ اخوتِ اسلامی کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ یہ تصور اور یہ تفاوت ختم ہو جائے۔ [رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ]
لیکن سچ یہی ہے کہ جب بھی لڑکے کے نکاح کی بات چلتی ہے تو سب سے پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے کہ آپ کا ذریعۂ معاش کیا ہے؟سوال اصل میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کماتے کتنا ہو؟ اس کے بعد عموماً یہ پوچھا جاتا ہے کہ مکان آپ کا ذاتی ہے یا کرایے کا؟ بعض لوگ ڈھکے چھپے انداز میں تو بعض دوٹوک الفاظ میں یہ سوالات ضرور کرتے ہیں۔کُل ملا کر یہ کہ لڑکی والوں کا پورا فوکس اسی پر ہوتا ہے کہ لڑکے کی مالی حیثیت کیا ہے؟ دین داری کو ترجیح دینا تو دور اس کا لحاظ تک نہیں رکھا جاتا بلکہ اب تو بعض مسلم لڑکیاں دین داری سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے صاف کہتی ہیں کہ انھیں کسی ڈاڑھی والے یا کرتے پاجامے والے سے نکاح ہی نہیں کرنا، جو کہ دین داری کی ظاہری علامت ہے۔
مال کی بنیاد پرنکاح کا انجام
حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی عورت سے اس کی عزت کی خاطر نکاح کیا اللہ تعالیٰ اس شخص کی ذلت میں اضافہ فرمائےگا، جو اس کے مال کے لیے اس سے نکاح کرےگا اللہ تعالیٰ اس کی تنگ دستی میں اضافہ فرمائےگا، جو اس کے حسب کے لیے اس سے نکاح کرےگا اللہ تعالیٰ اس کی حقارت میں اضافہ فرمائےگا، اور جو کسی عورت سے اس نیت سے نکاح کرے کہ اپنی نظر نیچی رکھے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے یا صلہ رحمی کرے، اللہ تعالیٰ اس لڑکے کے لیے لڑکی میں برکت دےگا اور لڑکی کے لیے لڑکے میں برکت دےگا۔ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لِعِزِّهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا ذُلًّا ، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِمَالِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا فَقْرًا ، وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِحَسَبِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا دَنَاءَةً ، وَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لَمْ يَتَزَوَّجْهَا إِلَّا لِيَغُضَّ بَصَرَهُ أَوْ لِيُحْصِنَ فَرْجَهُ ، أَوْ يَصِلَ رَحِمَهُ بَارَكَ اللَّهُ لَهُ فِيهَا ، وَبَارَكَ لَهَا فِيهِ.[معجم اوسط طبرانی] یہ روایت تو سنداً ضعیف ہے، لیکن صحیحین کی مشہور حدیث میں رشتۂ نکاح کے لیے قاعدۂ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ نکاح دین داری کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے نہ کہ حسب، نسب، جمال اور مال کی بنیاد پر۔
نکاح دین داری کی بنیاد پر
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے: (۱)اس کے مال کی وجہ سے (۲)اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے (۳)اس کی خوب صورتی کی وجہ سے (۴)اس کی دین داری کی وجہ سے! اور تم دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو، اگر ایسا نہ کروگے تو تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوںگے ۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: “تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ”. [بخاری] عورت کی دین داری کی طرح نکاح میں مَرد کی دین داری کو بھی ترجیح دی جائےگی، بخاری کی ہی اگلی حدیث ہے:
دین دار فقیر مال دار دنیادارسے بہتر
حضرت سہلؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک (مال دار) اعرابی گزرا،آپ ﷺ نے صحابۂ کرامؓسے پوچھا: تم لوگوں کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: اگر کہیں نکاح کا پیغام دے تو قبول کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو منظور کرلی جائے، اگر کوئی بات کہے تو دل جمعی سے سنی جائے۔ پھر ایک دوسرا مسلمان فقیر گزرا، آپﷺ نے پوچھا: اس شخص کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: کسی کے یہاں پیغام بھیجے تو نکاح نہ کیا جائے، اگر سفارش کرے تو منظور نہ کی جائے، کوئی بات کہے تو توجہ نہ کی جائے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : تم روئے زمین کے سرمایے داروں اور امیروں سے یہ فقیر بہتر ہے۔ عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا ؟ قَالُوا: حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ، وَإِنْ قَالَ أَنْ يُسْتَمَعَ، قَالَ: ثُمَّ سَكَتَ، فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا ؟ قَالُوا: حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ لَا يُنْكَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ لَا يُشَفَّعَ، وَإِنْ قَالَ أَنْ لَا يُسْتَمَعَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “هَذَاخَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الْأَرْضِ مِثْلَ هَذَا”. [بخاری]