حج و عمرہ کرنے والوں کی بعض غلطیاں(۲)

عورتوں کا حرمین میں نماز ادا کرنا

حضرت ام حمیدؓنے بارگاہِ نبویﷺ میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: تمھارا شوق بہت اچھا ہے (اور دینی جذبہ ہے) مگر تمھاری نماز اندونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کے احاطے کی نماز محلّے کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلّے کی مسجد کی نماز میری مسجد (یعنی مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔ چناں چہ حضرت ام حمید نے فرمائش کر کے اپنے کمرے کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہ وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہو گیا اور اپنے خدا کے حضور میں حاضر ہوگئیں۔عن أمِّ حُميدٍ امرأةِ أبي حُميدٍ السَّاعديِّ أنها جاءتِ النَّبيَّ ﷺ فقالت: يا رسولَ اللهِ إنِّي أُحِبُّ الصَّلاةَ معك، قال: قد علِمْتُ أنَّك تُحِبِّينَ الصَّلاةَ معي وصلاتُك في بيتِك خيرٌ مِن صلاتِك في حجرتِك، وصلاتُك في حجرتِك خيرٌ مِن صلاتِك في دارِك، وصلاتُك في دارِك خيرٌ مِن صلاتِك في مسجدِ قومِك، وصلاتُك في مسجدِ قومِك خيرٌ مِن صلاتِك في مسجدي، قال: فأَمَرَت فَبُنِيَ لها مسجدٌ في أقصى شيءٍ مِن بيتِها وأظلَمِهِ، وكانتْ تُصلِّي فيه حتَّى لقيَتِ اللهَ عزّ و جلَّ. [الترغیب و الترہیب]

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے گھر(قیام گاہ)ہی میں نماز پڑھنا بہتر ہے، چاہے وہ محلّے کی مسجد ہو یا حرم شریف کی (مذکورہ حدیث تو خاص مسجدِ نبوی سے متعلق ہےاور حضورِ اقدس ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے سے متعلق درخواست تھی)لہٰذاعورتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ خاص نماز کے ارادے سے مسجد میں نہ جائیں، چاہے حرم شریف ہو،البتہ اگر عورت طوا ف کے ارادے سےیا روضۂ پاک پر صلاۃ وسلام پیش کرنے کے لیے حرم شریف میں حاضر ہوئی ہو اور نماز کی تیاری ہونے لگے تووہاں عورتوں کے ساتھ نماز پڑھ لے،مَردوں کے ساتھ ہزگز کھڑی نہ ہو۔[فتاویٰ رحیمیہ ترتیبِ صالح] مکہ مکرمہ میں عورت کو گھر میں نماز پڑھنے کا وہی اجر ملے گا جو مَردوں کے لیے مسجدِ حرام میں نماز پر ہے۔[احسن الفتاویٰ]یہی حکم مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی کا ہوگا، اس کے باوجود بعض خواتین حرمین شریفین میں مَردوں کی موجودگی میں نماز کو افضل سمجھتی ہیںاور بعض صورتوں میں خود بھی گنہ گار ہوتی ہیں اور دوسروں کو بھی گنہ گار کرتی ہیں۔ حرمین میں خواتین کے لیے وضو اور نماز وغیرہ کے تمام انتظامات الگ الگ ہوتے ہیں، اس کے باوجود ایک عورت پر نظر پڑی وہ برقعے میں تھی، لیکن مَردوں کے وضو خانے پر پنڈلیاں کھولے وضو کر رہی تھی۔

چھوٹے بچوں کو لے کر نماز پڑھنا

بعض لوگ حرمین شریفین میں حج و عمرے کے دوران میں چھوٹے بچوں کو گود میں لے کر یا کمر پر باندھ کر یا وھیل چئیر پر اپنی گود میں بٹھا کر نماز پڑھتے نظر آتے ہیں، اس صورت میں ایسا بچہ جو خود چل پھر سکتا ہو وہ ناپاک بدن یاکپڑوں کے ساتھ نمازی پر چڑھ جائے یا اس کی گود میں بیٹھ جائے تو نمازی کی نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن بچہ اتنا چھوٹا ہو جو خود چل پھر نہیں سکتا اور اسے کوئی اٹھاکر نماز کی حالت میں نمازی پر رکھ دے یا خود وہ نمازی کی گود میں آ کر بیٹھ جائے یا نمازی اسے اپنی کمر وغیرہ پر باندھے ہوئے ہو او راس بچے کے بدن یا کپڑے پر نجاست لگی ہو، چاہے پیمپر وغیرہ کے اندر ہو تو اگر اس کے ساتھ ایک رکن ادا کرلیا تو نمازی کی نماز فاسد ہوجائےگی ۔كصبي عليه نجس إن لم يستمسك بنفسه منع وإلا لا.(قوله: إن لم يستمسك) الأولى حذف ’إن‘ وجوابها؛ لأنه تمثيل للمحمول، فحق التعبير أن يقول: كصبي عليه نجس لا يستمسك بنفسه ط (قوله: وإلا لا) أي وإن كان يستمسك بنفسه لا يمنع؛ لأن حمل النجاسة حينئذٍ ينسب إليه لا إلى المصلي… ويؤيده ما في البحر عن الظهيرية: لو جلس على المصلي صبي ثوبه نجس وهو يستمسك بنفسه أو حمام نجس جازت صلاته؛ لأن الذي على المصلي مستعمل للنجس، فلم يصر المصلي حاملاً للنجاسة، اهـ.[شامی]

طواف کے دوران بچہ اگر پیشاب کر دے

اگر طواف کے دوران بچہ پیمپر میں پیشاب پاخانہ کر دے تو طواف کو موقوف کر کے پہلے نجاست کو دور کرے پھر طواف مکمل کرے، تاہم اگر کسی نے اسی حالت میں طواف کو مکمل کر لیا تو شرعاً یہ طواف ہوجائے گا مگر مکروہ ہوگا، کیوں کہ نجاست کے ساتھ طواف کرنا مکروہ ہے۔ولو طاف طواف الزيارة وفي ثوبه نجاسة أكثر من قدر الدرهم أجزأه ولكن مع الكراهة ولا يلزمه شيء كذا في المحيط. [الہنديۃ]

طائف سے آنے والے پر عمرہ

بعض لوگ مکہ سے طائف زیارت کے لیے جاتے ہیں اور وہاں سے بلااحرام واپس چلے آتے ہیں۔ یاد رہے طائف میقات سے باہر ہے، اس لیے وہاں سے بلااحرام مکہ مکرمہ نہیں آسکتے۔ طائف سے آتے ہوئے میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرنا ہوگا اور اگر بغیر احرام کے میقات سے گزرگیا تو گنہ گار ہوگا اور اس کو میقات پر دوبارہ آکر احرام باندھنا واجب ہوگا، اگر دوبارہ میقات پر آکر احرام نہیں باندھا تو دم لازم آئے گا اور ایک حج یا عمرے کی قضا بھی لازم ہوگی یعنی خواہ حج کرلے یا عمرہ کرلے۔طائف سے آنے والوں کی میقات’قرن المنازل‘ہے۔ آج کل طائف سے مکہ مکرمہ آنے کے دو راستے ہیں، ایک راستے میں ’السیل الکبیر یا السیل الصغیر‘ اور دوسرے راستے میں ’ہدا‘ نامی علاقہ میقات کہلاتا ہے۔(وَ) یَجِبُ (عَلَی مَنْ دَخَلَ مَکَّةَ بِلَا إحْرَامٍ) لِکُلِّ مَرَّةٍ (حَجَّةٌ أَوْ عُمْرَةٌ) فَلَوْ عَادَ فَأَحْرَمَ بِنُسُکٍ أَجْزَأَہُ عَنْ آخِرِ دُخُولِہِ، وَتَمَامُہُ فِی الْفَتْحِ (وَصَحَّ مِنْہُ) أَیْ أَجْزَأَہُ عَمَّا لَزِمَہُ بِالدُّخُولِ (لَوْ أَحْرَمَ عَمَّا عَلَیْہِ) مِنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ أَوْ نَذْرٍ أَوْ عُمْرَةٍ مَنْذُورَةٍ لَکِنْ (فِی عَامِہِ ذَلِکَ) لِتَدَارُکِہِ الْمَتْرُوکَ فِی وَقْتِہِ (لَا بَعْدَہُ) لِصَیْرُورَتِہِ دَیْنًا بِتَحْوِیلِ السَّنَةِ. [الدرالمختار]

بغیر دُھلے ہوئے احرام سے عمرہ کرنا

ہمارے ساتھ ٹور والوں کی طرف سے ایک مولوی صاحب تھے، وہ لوگوں میں اعلان کرتے پھرتے تھے کہ ایک احرام سے جب ایک عمرہ ادا کر لیا جائے تو دھونے سے پہلے اسی کو پہن کر دوسرا عمرہ نہیں کیا جا سکتا، اگر کر لیا تو دم واجب ہو جائےگا۔جب کہ ایک عمرے کے اعمال مکمل کرنے کے بعد اِحرام کی چادروں کو دھوئے بغیر خواہ انھیں اتار دیا ہو یا اتارا نہ ہو ا،ہر دو صورت میں دوسرا عمرہ کرنا بلاشبہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ ’ایک احرام سے دو عمرے جائز نہیں‘ وہ شاید یہ مسئلہ نہیں سمجھ سکے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر عمرے کا الگ احرام باندھنا ضروری ہے یعنی ایک مرتبہ احرام باندھ کر عمرے کے اعمال مکمل کرلے،پھر اس کے بعد میقات یعنی تنعیم یا جعرانہ وغیرہ جا کر دوبارہ دوسرے عمرے کا احرام باندھے، اس طرح ایک سے زائد عمرے کرنا صحیح ہے،اگر کسی نے ایک ہی احرام سے ایک سے زائد عمرے کر لیے تو اس پر دم لازم ہوگا۔یجب أن يعلم أن الجمع بين احرامي الحج أو احرامي العمرة بدعة بالإتفاق بين أصحابنا، وفي الجامع الصغير للعتابي: حرام؛ لأنه من أكبر الكبائر هكذا روى عن النبي ﷺ… وفي المحيط: والجمع بين احرامي العمرة مكروه.[البحر العمیق]

احرام کی حالت میں خود یا کسی مُحرم سے بال کٹوانا

حج و عمرے کے ارکان مکمل کرنے کے بعد احرام کی حالت میں خود اپنے بھی بال کاٹے یا مونڈے جاسکتے ہیں اور اس شخص سے بھی کٹوائے جا سکتے ہیں جو ارکان مکمل ہوچکا ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(واذا حلق ) أي المحرم (رأسه) اي رأس نفسه (او رأس غيره) أي ولو كان محرما (عند جواز التحلل) أي الخروج من الإحرام بأداء افعال النسك ( لم يلزمه شيئ).[ارشاد الساری]

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر ومفتی ہیں]

جاری

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here