مفتی ندیم احمد انصاری
بارش کی ضرورت، اہمیت، حکمت اور فوائد وغیرہ پر قرآن مجید میں جا بہ جا مختلف انداز سے گفتگو کی گئی ہے، اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کا بھی احساس دلایا ہے اور انسان کی بےبسی کا بھی۔ ان آیات پر غور کرنے سے ایمان تازہ ہوتا ہے اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کو زندگی کا سبب بتایا، اسے لوگوں کے لیے فضل و خیر بنایا تو کبھی عذاب۔ قحط اور بارش کی مثال دے کر موت کے بعد زندگی یعنی حیاتِ دنیوی کے بعد حیاتِ اُخروی یا دوبارہ اٹھائے جانے کے مسئلے کو انتہائی موثر انداز میں سمجھایا ہے۔یہاں قرآن مجید کے تیس پاروں سے ترتیب وار پچیس مقامات اور ان سے کُل چالیس آیتوں کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
m(وہ پروردگار) جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور آسمان کو چھت، اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمھارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہٰذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جب کہ تم ( یہ سب باتیں) جانتے ہو۔ [البقرہ:22]
mبےشک آسمان اور زمین کی تخلیق میں، رات دن کے لگاتار آنے جانے میں، اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فایدے کا سامان لے کر سمندر میں تیرتی ہیں، اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندگی بخشی، اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے، اور ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع دار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔ [البقرۃ: 164]
m اور اللہ وہی ہے جس نے تمھارے لیے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر قسم کی کونپلیں اگائیں، ان (کونپلوں) سے ہم نے سبزیاں پیدا کیں جن سے ہم تہہ بہ تہہ دانے نکالتے ہیں، اور کھجور کے گابھوں سے پھلوں کے وہ گچھے نکلتے ہیں جو (پھل کے بوجھ سے) جھکے جاتے ہیں، اور ہم نے انگوروں کے باغ اگائے، اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ جب یہ درخت پھل دیتے ہیں تو ان کے پھلوں اور ان کے پکنے کی کیفیت کو غور سے دیکھو۔ لوگو ! ان سب چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں (مگر) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔ [الانعام: 99]
mاور وہی (اللہ) ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے جو (بارش کی) خوش خبری دیتی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادلوں کو اٹھالیتی ہیں تو ہم انھیں کسی مُردہ زمین کی طرف ہنکالے جاتے ہیں پھر وہاں پانی برساتے ہیں، اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی زندہ کر کے نکالیںگے، شاید (ان باتوں پر غور کر کے) تم سبق حاصل کرلو۔ اور جو زمین اچھی ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اپنے رب کے حکم سے نکل آتی ہے اور جو زمین خراب ہوگئی ہو اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اسی طرح ہم نشانیوں کے مختلف رخ دکھاتے رہتے ہیں، (مگر) ان لوگوں کے لیے جو قدردانی کریں۔ [الاعراف: 57، 58]
m(حضرت ہودؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا) اے میری قوم ! اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارشیں برسائےگا اور تمھاری موجودہ قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا، اور مجرم بن کر منھ نہ موڑو۔ [ہود: 52]
mاسی نے آسمان سے پانی برسایا جس سے ندی نالے اپنی اپنی بساط کے مطابق بہہ پڑے، پھر پانی کے ریلے نے پھولے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھا لیا، اور اسی قسم کا جھاگ اس وقت بھی اٹھتا ہے جب لوگ زیور یا برتن بنانے کے لیے دھاتوں کو آگ پر تپاتے ہیں۔ اللہ حق اور باطل کی مثال اسی طرح بیان کر رہا ہے کہ ( دونوں قسم کا) جو جھاگ ہوتا ہے وہ تو باہر گر کر ضایع ہوجاتا ہے، لیکن وہ چیز جو لوگوں کے لیے فایدے مند ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اسی قسم کی تمثیلیں ہیں جو اللہ بیان کرتا ہے۔ [الرعد: 17]
mاللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمھارے رزق کے لیے پھل اگائے، اور کشتیوں کو تمھارے لیے رام کردیا، تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں، اور دریاؤں کو بھی تمھاری خدمت پر لگا دیا۔ [ابراہیم: 32]
mاور کوئی (ضرورت کی) چیز ایسی نہیں ہے جس کے ہمارے پاس خزانے موجود نہ ہوں مگر ہم اس کو ایک معین مقدار میں اتارتے ہیں۔ اور وہ ہوائیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں ہم نے بھیجی ہیں، پھر آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے، پھر اس سے تمھیں سیراب ہم نے کیا ہے، اور تمھارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھ سکو۔ ہم ہی زندگی دیتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہم ہی سب کے وارث ہیں۔ [الحجر: 22]
m وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمھیں پینے کی چیزیں حاصل ہوتی ہیں اور اسی سے وہ درخت اگتے ہیں جن سے تم مویشیوں کو چراتے ہو۔ اسی سے اللہ تمھارے لیے کھیتیاں، زیتون، کھجور کے درخت، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں۔ [النحل:10،11]
mیہ وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمھارے لیے فرش بنادیا، اور اس میں تمھارے لیے راستے بنائے، اور آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے طرح طرح کی مختلف نباتات نکالیں، خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ، یقیناً ان سب باتوں میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا تھا، اسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے ایک مرتبہ پھر تمھیں نکال لائیں گے۔ [طہ: 53 سے 55]
mکیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، جس سے زمین سرسبز ہوجاتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا مہربان، ہر بات سے باخبر ہے۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے، اور یقین رکھو کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو سب سے بےنیاز ہے، بہ ذاتِ خود قابلِ تعریف۔ [الحج: 63،64]
mاور ہم نے آسمان سے ٹھیک اندازے کے مطابق پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیا، اور یقین رکھو ہم اسے غایب کردینے پر بھی قادر ہیں۔ پھر ہم نے اس سے تمھارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے جن سے تمھیں بہت سے میوے حاصل ہوتے ہیں، اور اِنھی میں سے تم کھاتے ہو۔ [المؤمنون: 18،19]
mکیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ بادلوں کو ہنکاتا ہے، پھر ان کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے، پھر انھیں تہہ بہ تہہ گھٹا میں تبدیل کردیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ بارش اس کے درمیان سے برس رہی ہے، اور آسمان میں (بادلوں کی شکل میں) جو پہاڑ کے پہاڑ ہوتے ہیں، اللہ ان سے اولے برساتا ہے، پھر جس کے لیے چاہتا ہے ان کو مصیبت بنا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ان کا رخ پھیر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی اچک لے جائے گی۔ [النور: 43]
m اور وہی ہے جس نے اپنی رحمت (یعنی بارش) سے پہلے ہوائیں بھیجیں جو (بارش کی) خوش خبری لے کر آتی ہیں، اور ہم نے ہی آسمان سے پاکیزہ پانی اتارا ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندگی بخشیں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے مویشیوں اور انسانوں کو اس سے سیراب کریں، اور ہم نے لوگوں کے فایدے کے لیے اس (پانی) کی الٹ پھیر کر رکھی ہے تاکہ وہ سبق حاصل کریں، لیکن اکثر لوگ ناشکری کے سوا ہر بات سے انکاری ہیں۔ [الفرقان: 48 سے 50]
mبھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے آسمان سے پانی اتارا ؟ پھر ہم نے اس پانی سے بارونق باغ اگائے، تمھارے بس میں نہیں تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگا سکتے، کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ نہیں ! بلکہ ان لوگوں نے راستے سے منھ موڑ رکھا ہے۔ [النمل: 60]
mاور اگر تم ان سے پوچھو کہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا؟ پھر اس کے ذریعے زمین کے مُردہ ہونے کے بعد اسے زندگی بخشی ؟ تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ ’اللہ‘ ! کہو : الحمدللہ ! لیکن ان میں سے اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ [العنکبوت: 63]
mاللہ ہی وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے چناں چہ وہ بادل کو اٹھاتی ہیں، پھر وہ اس کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اسے کئی تہوں میں تبدیل کردیتا ہے، تب تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش برس رہی ہے، چناں چہ جب وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے وہ بارش پہنچاتا ہے تو وہ اچانک خوشی منانے لگتے ہیں،حالاں کہ اس سے پہلے جب تک ان پر بارش نہیں برسائی گئی تھی وہ ناامید ہورہے تھے۔ اب ذرا اللہ کی رحمت کے اثرات دیکھو کہ وہ زمین کو اس کے مُردہ ہونے کے بعد کس طرح زندگی بخشتا ہے! حقیقت یہ ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ [الروم: 48-50]
mاس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا جو تمھیں نظر آسکیں، اور زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے ہیں تاکہ وہ تمھیں لے کر ڈگمگائے نہیں، اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے ہیں۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس (زمین) میں ہر قابلِ قدر قسم کی نباتات اگائیں۔ [لقمان: 10]
m کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ذریعے رنگ برنگ کے پھل اگائے ؟ اور پہاڑوں میں بھی ایسے ٹکڑے ہیں جو رنگ برنگ کے سفید اور سرخ ہیں اور کالے سیاہ بھی۔ [فاطر: 27]
mکیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اسے زمین کے سوتوں میں پرو دیا ؟ پھر وہ اس پانی سے ایسی کھیتیاں وجود میں لاتا ہے جن کے رنگ مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں سو کھ جاتی ہیں تو تم انھیں دیکھتے ہو کہ پیلی پڑگئی ہیں، پھر وہ انھیں چورا چورا کردیتا ہے، یقیناً ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو عقل رکھتے ہیں۔ [الزمر: 21]
m اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہونے کے بعد بارش برساتا اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی ہے جو قابلِ تعریف رکھوالا ہے۔ [الشوری: 28]
m یہ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں تمھارے لیے راستے بنائے، تاکہ تم منزل تک پہنچ سکو، اور جس نے آسمان سے ایک خاص اندازے سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ذریعے ایک مردہ علاقے کو نئی زندگی دے دی، اسی طرح تمھیں (قبروں سے) نکال کر نئی زندگی دی جائےگی۔ [الزخرف: 10،11]
mاور ہم نے آسمان سے برکتوں والا پانی اتارا، پھر اس کے ذریعے باغات اور وہ اناج کے دانے اگائے جن کی کٹائی ہوتی ہے، اور کھجور کے اونچے اونچے درخت جن میں تہہ بہ تہہ خوشے ہوتے ہیں، تاکہ ہم بندوں کو رزق عطا کریں اور (اس طرح) ہم نے اس پانی سے ایک مُردہ پڑے ہوئے شہر کو زندگی دے دی، بس اسی طرح (انسانوں کا قبروں سے) نکلنا بھی ہوگا۔[ق: 9 سے 11]
mان سے پہلے نوحؑ کی قوم نے بھی جھٹلانے کا رویہ اختیار کیا تھا، انھوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا کہ یہ دیوانے ہیں، اور انھیں دھمکیاں دی گئیں، اس پر انھوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ ’میں بےبس ہوچکا ہوں، اب آپ ہی بدلہ لیجیے‘۔ چناں چہ ہم نے ٹوٹ کر برسنے والے پانی سے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ [القمر: 9 سے 11]
[۲۵] اچھا یہ بتاؤ کہ یہ پانی جو تم پیتے ہو کیا اسے بادلوں سے تم نے اتارا ہے یا اتارنے والے ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنا کر رکھ دیں، پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے ؟ [الواقعہ: 68 سے 70]
[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]