مفتی ندیم احمد انصاری
عجیب فتنوں کا دور ہے۔ خود کو مسلمان کہنے والے بھی اصحابِ رسول پر زبان درازی کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔ قرآنِ کریم کے اولین مخاطبین کو برا بھلا کہنا ہر کس و ناکس کے لیے بازیچۂ اطفال بن گیا ہے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر اتحادِ امت کی بات کرنے والے اسلام کی مقدس و محترم شخصیتوں کو ہدفِ ملامت بنا رہے ہیں۔ چودہ سو سال پہلے رونما ہونے والے ناخوش گوار واقعات کی راکھ میں چنگاریاں تلاش کی جا رہی ہیں۔ حق کے متلاشی کے لیے تفصیلات اور دلائل تو ضخیم کتابوں میں موجود ہیں یہاں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے دس ملفوظات مع چار احادیث نقل کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ عقلِ سلیم اور فہمِ صحیح رکھنے والوں کے لیے اس قدر کافی ہے۔ یہ ملفوظات تسلّی بخش بھی ہیں اور نہایت جامع بھی، جنھیں بتّیس جلدوں میں سے نہایت جستجووتلاش کے بعد جمع و مرتب کیا گیا ہے۔
چار احادیث
(۱)حضرت ابوسعید خدریؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ؓکو برا نہ کہو، تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: “لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ”. [بخاری] (۲)حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میرے صحابہؓکا اکرام کروکیوں کہ وہ تم میں بہترین ہیں۔ عن عمر رضي الله عنه قال ، قال رسول اللہ ﷺ : ” أكرموا أصحابي، فإنهم خياركم، الحدیث. [مشکوۃ] (۳)حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ایسے مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکےگی جس نے مجھے دیکھا ہو، یا اسے دیکھا ہو جس نے مجھے دیکھا ہو۔ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: ” لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي، أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي”. [ترمذی](۴)حضرت عبداللہ بن مغفلؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :میرے صحابہؓکے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو! میرے صحابہؓکے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو! میرے بعد انھیں ہدفِ ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرےگا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا، اور جو ان سے بغض رکھےگا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھےگا۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ، الحدیث. [ترمذی]
کسی کو اعتراض کا حق نہیں
ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ جیسے حضرات انبیا علیہم السلام کی شانیں مختلف ہیں اسی طرح صحابۂ کرامؓاور ائمۂ مجتہدینؒاور اولیاء اللہ کی شانیں مختلف ہیں، کسی کو حق نہیں کہ کسی پر اعتراض کرے، بلکہ غیر محقق کو تو مشتبہ لوگوں پر بھی اعتراض نہ کرنا چاہیے گو ان سے تعلق بھی نہ رکھنا چاہیے۔[الافاضات الیومیۃ]
صحابۂ کرامؓ کی فضیلت
ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ حضراتِ صحابہؓکا یہ ایک عمل -کہ ایمان کے ساتھ حضورﷺ کو دیکھ لیا-اتنا بڑا ہے کہ تمام اقطاب، ابدال، اتقیا، عباد کے اعمال ایک طرف اور ان کا یہ عمل ایک طرف۔[الافاضات الیومیۃ] صرف صحابیت کا وصف سب معاصی (گناہ) کے لیے ماحی (مٹانے والا) ہے، کیوں کہ حدیث: لا یمس النار من رآنی (جس نے مجھے دیکھا، اسے آگ نہ چھوسکےگی) اور الصحابۃ کلھم عدل (صحابہ سب کے سب عادل تھے) کلیہ ہے، بدون استثنا کے۔[خیرالافادات]
ہر صحابی مہتدیٰ و مقتدیٰ ہے
ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ حضور قیامت کے روز فرماویں گے: یا رب أصحابی اور ملائکہ جواب دیں گے کہ إنك لا تدرى ما احدثوا بعدك اس حدیث میں اصحاب سے مراد صحابۂ کرامؓنہیں ہیں، جن میں مشاجرہ وغیرہ ہوا ہے، کیوںکہ صحابۂ کرامؓمیں جو تشاجر ہوا ہے اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کہ اصحابِ بدر ہیں اور عشرۂ مبشرہ میں سے بھی بعض حضرات تھے۔ پس اگر صحابہؓکو مراد لیا جائے تو خدا تعالیٰ پر اعتراض لازم آتا ہے کہ ایسوں کے فضائل ارشاد فرمائے، نیز دوسری حدیث سے تعارض ہوتا ہے کہ أصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم۔ جس سے ہر صحابیؓکا مہتدیٰ و مقتدیٰ ہونا ثابت ہوتا ہے، بلکہ مراد اصحابی سے ’میری امت کے لوگ ‘ ہیں، اس پر ملائکہ کہیں گے کہ آپ کو معلوم نہیں انھوں نے کیا کیا اختلاف اور بدعات آپ کے بعد پیدا کیے ہیں۔[مقالاتِ حکمت اول]
مشاجراتِ صحابہؓ کا ایک پہلو
ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ صحابہؓکی عجیب حالت ہے، حضور ﷺکی جووقعت اور عظمت ان کے قلوب میں پیدا ہوئی وہ حضور کا معجزہ تھا یا صحابہؓکی کرامت، اور یہ جو صحابہ میں لڑائی ہوئی یہ بھی ان کی قوتِ ایمانیہ کی دلیل تھی یعنی ان کو یہ اطمینان تھا کہ یہ دین حق ہے ایسے اختلافات سے مٹ نہیں سکتا، ور نہ اتنی جلدی اختلاف نہ کرتے کیوںکہ نئے مشن میں اختلاف کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ اس مشن کو مضرت ہوگی، نقصان پہنچ جائےگا، اس سے صحابہؓکے جذبات کا پتہ چلتا ہے۔ سو لوگوں کے نزدیک تو یہ بات عیب کی ہے اور میرے نزدیک کمال کی۔[الافاضات الیومیۃ]
سیدنا معاویہؓ کو برا نہ کہنا چاہیے
ایک موقع پر ارشاد فرمایا: حضرت معاویہؓکو برا نہ کہنا چاہیے۔ فقہا نے جو ان کی نسبت ’جور‘ کا لفظ لکھا ہے تو یہ لفظ بہ مقابلہ ’عدل‘ کے ہے، جس طرح عدل کے مراتب ہیں، جو ر کے بھی ہیں۔ صغیرہ سے کبیرہ تک سب اس میں داخل ہیں۔ پس اس سے استدلال کبیرہ پر کیوں کہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر بالفرض ارتکاب کبیرہ کا بھی کوئی ثابت کر دے تب بھی برا کہنا نہ چاہیے۔ خود حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صحابی سے ارتکاب کبیرہ کا ہو جائے تو اس کو برا کہنا جائز نہیں۔ وہ حدیث یہ ہے : بعض صحابہ کا گزر ایک مردہ جانور پر ہوا، حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اس مردہ کو کھاؤ! صحابہؓنے عرض کیا: یہ تو مردہ ہے! حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: تم نے جو ماعزؓکو -کہ ان سے معصیت زنا کی سرزد ہو گئی تھی-برا کہا، اس مردہ کا کھانا اس سے زیادہ برا نہیں۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ صحابی کو برا کہنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ علاوہ اس کے اگر دو بھائی یا باپ بیٹے میں نزاع واقع ہو تو دوسروں کی کیا مجال کہ زبان ہلائے۔[مقالاتِ حکمت اول]
اگر ایک صحابی دوسرے صحابی کو کچھ کہے؟
ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ حدیث میں ہے: من سب أصحابی فقد سبنی اور حضرت معاویہؓکی نسبت منقول ہے کہ وہ حضرت علیؓکی شان میں کچھ کہتے سنتے تھے تو وہ بھی اس وعید میں داخل ہیں؟ اس لیے ان کو برا سمجھنا بھی درست ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اس میں مَن سے مراد غیر اصحاب ہیں، تو حضرت معاویہؓعمومِ مَن میں داخل ہی نہیں، اور اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ میری اولاد کو جو شخص بھی برا کہے گا اس کے لیے مجھ سے برا کوئی نہیں! تو ظاہر ہے کہ ’جو شخص‘ سے مراد وہی ہوتے ہیں جو کہ اس کی اولاد سے خارج ہو، ورنہ اگر اسی کے دو لڑکے آپس میں لڑنے لگیں تو ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن نہیں ہوتا۔ پس اگر ہم تم کسی صحابی کی شان میں گستاخی کریں وہ علیؓہوں یا معاویہؓہم البتہ اس میں داخل ہیں۔[مقالاتِ حکمت اول] حدیث کے یہ معنی ہوںگے کہ اگر کوئی غیرصحابی مثلاً میں یا آپ صحابہؓ کو برا کہیں تو وہ اس وعید میں داخل ہے، یہ نہیں کہ ایک صحابی دوسرے صحابی کو کہے۔ [مقالاتِ حکمت دوم]
سیدنا معاویہؓ کے بارے میں انتہائی بات
حضرت معاویہؓکے متعلق ایک صاحب کے سوال پر حضرت نے فرمایا کہ انتہائی بات یہ ہے کہ حضرت معاویہؓسے گناہ ہو گیا، اور فرض کر لو کہ گناہ بھی کبیرہ ہوا، مگر اب یہ فیصلہ کرو -اگر کسی صحابی سے گناہ سرزد ہو جائے تو ہمیں ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے؟-کیا ان کی بد گوئی اور غیبت جائز ہو جائے گی؟ دیکھو حضرت ماعزؓکا گناہ کبیرہ یعنی زنا پھر خود رسول اللہ ﷺ سے ان پر سزائے رجم جاری کرنا مخصوص احادیث سے ثابت ہے، مگر جب ایک صحابی نے حضرت ماعز ؓکی غیبت کی تو حضور ﷺ نے سختی سے منع فرمایا۔[مجالسِ حکیم الامت]
سید نا معاویہؓ کی اجتہادی خطا
ایک ملفوظ میں ارشاد فرمایا کہ حضرت معاویہؓکے واقعے پر یاد آیا؛ ایک شخص نے ایک کم علم مگر ذہین مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت معاویہؓاور حضرت علیؓمیں جو جنگ ہوئی اس میں حضرت معاویہ کا یہ فعل کسی درجے کا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ بھائی حضرت معاویہؓکی اجتہادی خطا ہے اور اس لیے وہ امرِ خفیف ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ یہ ہی ہمارے بزرگوں کا عقیدہ ہے۔ یہ سن کر وہ شخص کہتا ہے کہ جس درجے کا شخص ہوتا ہے اس درجے کی اس کی خطا ہو گی، اس لیے اس خطا پر بھی شدید سزا ہونی چاہیے۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ارے یہ کیا تھوڑی سزا ہے کہ ایک صحابی پر ہم نالائق یہ حکم کریں کہ انھوں نے خطا کی، ورنہ ہمارا کیا منھ تھا؟ ہم گندے ناپاک اور وہ صحابی! [جمیل الکلام]
اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور صحیح سمجھ نصیب فرمائے۔ آمین