مہمان یا میزبان کی خاطر نفلی روزہ چھوڑنا یا توڑنا وغیرہ

[مہمان نوازی، چھٹی اور آخری قسط]

مفتی ندیم احمد انصاری

مہمان کانفلی روزہ رکھنا

حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی جماعت کے یہاں اترے یعنی ان کا مہمان ہو تو ان کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے ۔[ترمذی]

میزبان کے لیے مہمان کا نفلی روزہ نہ توڑنا

’مسنداحمد ابنِ حنبل‘میں ہے: حضرت امِ عمارہؓسےروایت ہے، ایک مرتبہ حضرت نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف لائے، اطلاع ملنے پر ان کی قوم کے کچھ دوسرے لوگ بھی ان کے یہاں آگئے، انھوں نے مہمانوں کے سامنے کھجوریں پیش کیں، لوگ وہ کھانے لگے، لیکن ان میں سے ایک آدمی ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔آپ ﷺ نے پوچھا: اسے کیا ہوا ہے؟ اس نے بتایا: میں روزے سے ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب کسی روزے دار کے سامنے روزہ توڑنے والی چیز کھائی جارہی ہو تو ان لوگوں کے اٹھنے تک فرشتے اس روزے دار کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ [مسند احمدابن حنبل] معلوم ہوا کہ اس روزےدار نے اپنا نفلی روزہ نہیں توڑا، اس پر حضرت نبی کریمﷺ نے یہ فضیلت ارشاد فرمائی۔ ’ترمذی شریف‘ میں ہے:حضرت ام عمارہ بنتِ کعب انصاریہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ ان کے گھر تشریف لائے تو انھوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم بھی کھاؤ! میں نے عرض کیا: میرا روزہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی روزے دار کے سامنے کھایا جائے تو ان کے کھانے سے فارغ ہونے یا فرمایا ان کے سیر ہونے تک فرشتے روزے دار کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔[ترمذی]

مہمان کی خاطر میزبان کا نفلی روزہ چھوڑنا

حضرت ابو امامہؓفرماتے ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم روزے رکھا کرو، کیوں کہ اس کے مثل کوئی چیز نہیں۔ (راوی کہتے ہیں) اس کے بعد سے حضرت ابو امامہؓکا حال یہ تھا کہ ان کے گھر سے اسی وقت دھواں نظر آتا تھا جب ان کے گھر میں کوئی مہمان ہوتا۔ [مصنف ابن ابی شیبہ]

میزبان یا مہمان کا نفلی روزہ توڑنا

عون بن ابی حجیفہؒسے روایت ہے، ان کے والد (حضرت وہب بن عبداللہؓ) نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلمانؓاور حضرت ابوالدرداءؓکے درمیان (ہجرت کے بعد) بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سلمانؓحضرت ابودرداءؓسے ملاقات کے لیے تشریف لائے تو حضرت ام الدرداءؓکو بہت پراگندہ حال میں دیکھا۔ انھوں نے پوچھا: یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے ؟ حضرت ام الدرداءؓ نے جواب دیا: تمھارے بھائی ابوالدرداءؓکو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے۔ پھر ابوالدرداءؓبھی آگئے اور ان کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھانا کھاؤ! انھوں نے کہا: میں تو روزے سے ہوں۔ اس پر سلمانؓنے کہا: میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم شریک نہ ہوگے۔ راوی نے بیان کیا: پھر وہ کھانے میں شریک ہوگئے (اور اپنا نفلی روزہ توڑ دیا)۔ رات ہوئی تو ابوالدرداءؓعبادت کے لیے اٹھے۔ اس مرتبہ بھی سلمانؓنے فرمایا: ابھی سو جاؤ، پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمانؓنے فرمایا: اب اٹھو، چناں چہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمانؓنے کہا: تمھارے رب کا بھی تم پر حق ہے، تمھارے نفس کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہیے۔ پھر آپؓحضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے اس کا تذکرہ کیاتو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سلمانؓنے سچ کہا۔ [بخاری]
حضرت سلیمان بن موسیٰ نے حضرت عطاؒ سے سوال کیا: کیا آدمی اپنے مہمان کے لیے (نفلی) روزہ توڑ سکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ [مصنف ابن ابی شیبہ]حضرت حسنؒاس بات کی رخصت دیا کرتے تھے کہ اگر کسی کے یہاں کوئی مہمان آ جائے تو وہ مہمان کی خاطر روزہ توڑدے اور اس کی جگہ ایک دن کے روزے کی قضا کرے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ]
علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:مہمان اور میزبان کے لیے ضیافت عذر ہے، جب کہ اس کا ساتھی بغیر کھائے صرف ساتھ رہنے پر راضی نہ ہو اور افطار کو ترک کرنے پر وہ اذیت محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ نفلی روزہ توڑ دے، اگر ایسا نہیں ہے تو روزہ نہ توڑے، یہی صحیح مذہب ہے۔ [درمختار] علامہ شامیؒنقل فرماتے ہیں:یہ زوال سے پہلے عذر ہے، اس کے بعد عذر نہیں، اور یہ اس وقت عذر ہوگا جب اسے اپنے بارے میں وثوق ہو کہ وہ اس روزے کی قضا کر لےگا ، نیز یہ اپنے مسلمان بھائی سے تکلیف دور کرنے کے لیے ہو، ورنہ عذر نہیں۔[شامی] اس کے بعد علامہ شامیؒ تحریر فرماتے ہیں:جب اسے اپنے بارے میں قضا کا اعتماد نہ ہو تو اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنے سے روکنا، اپنے ساتھی کی جانب کسی رعایت سے اولیٰ ہے۔[شامی]

مہمان جب رخصت چاہے

جب مہمان رخصت ہونے کی اجازت چاہے تو اسے اجازت دے دینی چاہیے، بلاوجہ اس کی ضرورت کا خیال کیے بغیر روکنے پر اصرار کرنا اچھا نہیں، تکلیف کا باعث ہو سکتا ہے۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]

مہمان کے ساتھ دروازے تک آنا

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ بھی سنت ہے کہ مرد اپنے مہمان (کو رخصت کرنے اس) کے ساتھ گھر کے دروازے تک آئے ۔ [ابن ماجہ]فقہا نے لکھا ہےکہ مہمان کے اکرام کی تکمیل کے لیے دروازے تک اس کے ساتھ جائے۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]

مہمان کو سواری تک پہنچانا

حضرت عبداللہ بن بسرؓ-جن کا تعلق بنو سلیم سے تھا-فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے والد کے پاس تشریف لائے اور مہمان ہوئے، میرے والد نے کھانا پیش کیا اور حَیس (ایک خاص قسم کا کھانا) کا ذکر کیا اور اسے لائے، پھر کوئی مشروب لے کر آئے۔ آپ ﷺ نے پیا اور پھر اسے اپنے دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص کو دے دیا اور کھجوریں کھائیں اور ان کی گٹھلیوں کو درمیان اور شہادت کی انگلی پر رکھتے گئے۔ جب آپ ﷺ (واپسی کے لیے) کھڑے ہوئے تو میرے والد بھی کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور کہا: میرے لیے اللہ سے دعا فرمائیے، آپ ﷺ نے فرمایا:أَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ. اے اللہ ان کے مال میں -جو آپ نے انھیں دیا ہے-برکت عطا فرما اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔ [ابوداود]فقہا نے لکھا ہے کہ جب مہمان سوار ہونے کا ارادہ کرے تو اس کے رکاب کو تھام لے۔[الموسوعۃ الفقھیۃ] آج کے زمانے میں گاڑی کا دروازہ کھولنا بھی اسی قبیل سے ہے۔

ایمان کے بغیر آخرت میں کوئی نفع نہیں

حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول! ابن جدعان زمانۂ جاہلیت میں مہمان نوازی کرتا تھا، قیدیوں کو چھڑاتا تھا، صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا، کیا یہ چیزیں اسے فایدہ پہنچا سکیںگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ ! نہیں، اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ پروردگار ! روزِ جزا میں میری خطائیں معاف فرما دینا۔ [مسند احمدابن حنبل] بعض لوگ دنیا میں بہت سی ظاہری نکیاں کرتے ہیں، لیکن ایمان کے بغیر آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔

فاسق وفاجر کی مہمان نوازی

کوئی شخص خواہ فاسق و فاجر ہو، جب مہمان بن کر آئے تو اس کی بھی مہمان نوازی کی جائےگی، فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ فرماتے ہیںکہ ایسے مہمان میں جب دو حیثیتیں ہوں؛ ایک مہمان ہونے کی، دوسرے فاسق ہونے کی، تو پہلی حیثیت سے حقِ مہمانی ادا کیا جائے اور اکرام کیا جائے، دوسری حیثیت کو اس اکرام میں ملحوظ نہ رکھا جائے۔ [فتاوی محمودیہ جدید]

غیرمسلم کی مہمان نوازی

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کی مہمان نوازی کی، اس حال میں کہ وہ مہمان کافر تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کافر مہمان کے لیے ایک بکری کے دوہنے کا حکم فرمایا، دودھ دوہا گیا تو وہ کافر مہمان اس بکری کا پورا دودھ پی گیا، پھر دوسری بکری کا دودھ دوہا گیا تو وہ اسے بھی پی گیا، پھر تیسری بکری کا دودھ دوہا گیا تو وہ اسے بھی پی گیا، یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا، پھر اگلے دن جب صبح ہوئی تو وہ مسلمان ہوگیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس نو مسلم کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم فرمایا تو وہ اسے پی گیا، آپ ﷺ نے دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم فرمایا تو وہ اسے پورا نہ پی سکا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔ [مسلم]اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیرمسلم کی مہمان نوازی بھی جائز ہے۔

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here