ڈاکٹر ندیم احمد انصاری
(صدر شعبۂ اردو، الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، ممبئی)
انصاف و دیانت سے تحقیق کا معرکہ سر کیا جائے تو جزم کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایسے کئی بزرگ ہیں جن کی خدمات کو اردو زبان و ادب میں اب تک کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کا شمار بھی انھیں بزرگوں میں ہوتا ہے۔خواجہ عزیز الحسن غوری مجذوبؔعلامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابادی، جگرؔ مرادآبادی،جوشؔ ملیح آبادی اور شوکت تھانوی وغیرہ کے ہم عصراور پختہ و قد آور شاعر تھے۔انھوں نے آل انڈیا مشاعروں میں بھی شرکت کی اور ان کا باقاعدہ دیوان بھی شائع ہوا، بلکہ مسلسل شائع ہو رہا ہے، لیکن اب تک ان کی حیات و خدمات پر کوئی مبسوط کام سامنے نہیں آسکا۔شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ خواجہ صاحب پر پی ایچ ڈی کی گئی ہے۔
خواجہ صاحب کی ولادت ۱۲؍جون ۱۸۸۴ء اور وفات ۱۷؍اگست ۱۹۴۴ء میں واقع ہوئی۔وطنِ اصلی بھرت پور، قصبہ نُدبئی اور وطنِ ثانی اُورئی، ضلع جالون ہے۔خواجہ صاحب کی تربیت خالص دینی اور مشرقی طرز پر ہوئی اور اعلیٰ تعلیم علی گڑھ کالج میں حاصل کی۔ سات برس ڈپٹی کلکٹری کے عہدے پر فائز رہے،پھر اپنا تبادلہ تنخواہ کی کمی کے ساتھ محکمۂ تعلیم میں کرالیا۔ پہلے مکاتبِ اسلامیہ کے ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے، پھرانگریزی اسکولوں کے انسپکٹر آف اسکولز(یوپی) مقررہوئے اور پنشن پاکر سبکدوش ہوئے۔
شوکت تھانوی نےخواجہ صاحب کا خاکہ اپنے مخصوص انداز میں اس طرح کھینچا ہے:
خان بہادر خواجہ عزیزالحسن غوری!
نہ خان بہادر نظر آتے ہیں نہ گریجویٹ۔ نہ انسپکٹر آف اسکولز کوئی کہہ سکتا ہے نہ شاعر۔ صورت دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسجد سے اذان دے کر تشریف لا رہے ہیں، بڑی سی داڑھی، چو گوشیہ ٹوپی، لمبا سا کرتہ، اونچا سا پائجامہ۔ تسبیح کرتے کی جیب میں اور ہات تسبیح کے اوپر۔
خواجہ صاحب ڈپٹی کلکٹر تھے۔ سود کی ڈگری دینے کے بجائے محکمۂ تعلیمات میںمنتقل ہو جانا پسند کیا اور اب تک اسی محکمے میں ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہ سے عشق کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں اور حضرت مولانا مدظلہ کی توجہ نے ڈپٹی کلکٹر کو آدمی ہی نہیں بلکہ مسلمان بنا دیا ہے۔
شعر خوب کہتے اور نہایت کیف کے ساتھ پڑھتے ہیں، شعر پڑھتے ہوئے اُن کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہیں۔ صرف زبان سے ہی نہیں، سارے جسم سے شعر پڑھتے ہیں، نہ داد لینے کا ہوش ہوتا ہے، نہ داد کی رسید دینے کا۔ خود ہی جس شعر کو جی چاہتا ہے پچاس دفعہ پڑھ جاتے ہیں اور جس شعر کو جی چاہتا ہے، ایک ہی مرتبہ پڑھ کر رہ جاتے ہیں۔
راستے میں کلام سنانا شروع کر دیں تو یہی کیفیت طاری ہو جائے۔ موٹر چلاتے چلاتے غزل جو سنانا شروع کی تو موٹر قلابازی کھا گیا۔ سب کو تھوڑی بہت چوٹ آئی اور خواجہ صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ لا حول ولا قوۃ حضرت مولانا! اسی دن کے لیے شعر خوانی سے منع فرماتے تھے۔
خواجہ صاحب بہت ہی عمدہ کہتے ہیں، مگر کسی غزل میں ڈھائی سو اشعار سے کم نہیں کہتے اور پھر انتخاب نہیں کر سکتے، کہتے چلے جاتے ہیں اور پھر کہہ چکنے کے بعد سناتے چلے جاتے ہیں۔ اشعار کے ان انباروںمیں اچھے برے سب ہی قسم کے شعر ہوتے ہیں، مگر اچھے زیادہ اور معمولی کم۔
خواجہ صاحب نے تفننِ طبع کے لیے اپنے انداز کی شاعری کی، لیکن شاعری میں ان کا کوئی استاذ نہ تھا، البتہ ذوق سلامت اور فطرت سنجیدہ تھی، جس نے کلام میں چار چاند لگا دیے۔ ہر شخص اپنے مذاق و مزاج کے مطابق ان کے کلام سے محظوظ ہو سکتا ہے۔ صوفیائے عارفین ان کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور شعرا و اصحابِ ذوق فنِ شعر کی باریکیوں کو سراہتے ہیں۔
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔصاحبِ دیوان شاعر ہیں، پہلے حسنؔ تخلص کرتے تھے، پھر مجذوبؔہو گئے۔ حمد، مناجات، نعت، مرثیہ، غزل ، نظم مختلف اصناف میںطبع آزمائی کی۔کلام میں لطافت، متانت، روانی، معنی آفرینی، فکر و تخیل سبھی کچھ موجود ہے، لیکن سب سے بڑی خوبی روحانیت و عرفان ہے۔ آج بھی مشائخِ سلوک کے یہاں عموماً اور سلسلۂ تھانوی میں خصوصاً مجذوبؔکا کلام انتہائی مقبول ہے۔
قدر مجذوبؔ کی خاصانِ خدا سے پوچھو
شہرۂ عام تو اِک قسم کی رسوائی ہے
علامہ سید سلیمان ندوی نے خواجہ صاحب کی شاعری کے متعلق لکھا ہے:
خواجہ صاحب فطری شاعر تھے، شاعری میں کسی سے تلمذ نہ تھا، وہ صرف تلمیذ الرحمن تھے۔ اول تو شاعری کا سنجیدہ فطری مذاق اور ذوقِ سلیم اور اس پر تصوف کی چاشنی اور اس میں بھی جگ بیتی نہیں بلکہ اپنی کہانی، سب مل ملا کر ان کی شاعری اپنے زمانے کی شاعری کا بے مثال نمونہ تھی۔ زیادہ تر غزل کہتے تھے، غزل کی زبان کے ساتھ خیالات کی لطافت عجیب چیز تھی۔
خواجہ صاحب کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو؎
گھٹا اُٹھی ہے تٗو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی
ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی
یہ مطلع جس غزل کا ہے، اس کا مقطع بھی ملاحظہ فرمائیں؎
الٰہی خیر ہو مجذوبؔ مے خانے میں آیا ہے
قدح کش، لا اُبالی، جامِ نازک نازنیں ساقی
خواجہ صاحب کے کلام میں شعریت کے متعلق پروفیسر احمد سعید لکھتے ہیں:
مجذوب کی شعریت کا تفکر اور تصور اس کی سطحیت اور عامیت سے فوق اور ممتاز ہے۔ عقل و حواس کی بیداری اور شعورواحساس کی حریتِ کامل کے ساتھ پہلے ذوق نے ایک ماحول اپنے لیے تجویز کیا، پھر اس کو اچھی طرح سوچ سمجھ کے مطلوبیت اور مرغوبیت کے درجے کو پہنچا دیا اور بالآخر اس (ماحول) کی وہ دھن ہو گئی اور وہ لگن لگی کہ اپنے لیے ممتاز اور مخصوص ماحول پیدا کر کے جم گیا۔
خواجہ صاحب باشرع سچّے پکّے صوفی تھے۔ سرکاری افسر ہونے کے باوجود اذکار و اشغال کے پابند تھے۔ ’خان صاحب‘ اور ’خان بہادر‘ کے القاب سے ملقّب تھے۔ انھوں نے شاعری کو کبھی مشغلہ نہیں بنایا، بعض موقعوں پر اپنے شیخ سے شاعری ترک کرنےکا مشورہ بھی کیا، لیکن نہ شاعری نے انھیں چھوڑا اور نہ انھوں نے شاعری کو۔ان کی شاعری تصنع سے پاک اور فطری تھی۔
محمد رضا انصاری ماہ نامہ ’نقوش‘میں لکھتے ہیں:
مجذوبؔ صاحب سخت قسم کے متشرع بھی تھے اور صوفی بھی۔ صوفی بھی صرف شاعرانہ حد تک نہیں، بلکہ واقعاً اپنے وقت کے ایک بڑے شیخِ طریقت مولانا اشرف علی تھانوی کے مریدِ خاص اور خلیفہ بھی۔ شیخ کے انتقال کے بعد خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ میں متوسلین کے حالات و کوائف کے نگراں اور مشیر بھی۔ تو وہ مذہبی بھی تھے، صوفی بھی، سرکاری افسر بھی تھے اور سرکاری فہرستوں میں ’خان صاحب‘ اور ’خان بہادر‘ بھی۔ پھر بھی انھیں مَیں سر تا پا شاعر کہنے کی جرأت کر رہا رہا ہوں۔ شاعری اگر صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں بلکہ اس کیفیت، اس شعور اور اس احساس کا نام ہے، جو ہر شاعر میں کم و بیش پایا جاتا اور اس سے شعر کہلاتا ہے تو مجذوبؔصاحب پر یہ کیفیت اور یہ جذبہ ہمہ وقت طاری رہتا تھا۔ اگر ان کے دوسرے فرائض اس کیفیت کے اظہار میں رکاوٹ بنتے تو ایک سخت قسم کی بے چینی ان کے ہر بُنِ مو سے ٹپکتی دکھائی دیتی تھی۔ اس بے چینی کو محسوس کرنے والا پوری طرح جان لیتا تھا کہ اس میں نہ بناوٹ ہے اور نہ دکھاوا۔
اپنی شاعری کے متعلق خواجہ صاحب کا ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے؎
یہ معانی یہ حقائق یہ روانی یہ اثر
شاعری تیری ہے اے مجذوبؔ یا الہام ہے
دوسری طرف یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں؎
پروانہ ہے بلبل کا سا انداز نہیں ہے
جاں باز ہے مجذوبؔ سخن ساز نہیں ہے
خواجہ صاحب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید اور خلیفہ تھے۔ مقامِ معرفت اپنے بافیض شیخ کے فیض سے حاصل کیا، ان کا کلام عارفانہ شان لیے ہوئے ہے۔ شیخ کا کہنا تھا کہ ’خواجہ صاحب تصوف کے دقائق و غوامض اپنے اشعار میں ادا کرتے ہیں‘۔ ایک مرتبہ مرشد نے مسترشدسےفرمایا’خواجہ صاحب جب کبھی مجھ کو (آپ کا) یہ شعر یاد آجاتا ہے تو کم از کم تین مرتبہ پڑھے بغیر سیری نہیں ہوتی؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
اسی شعر کے متعلق ایک بار خواجہ صاحب سے فرمایا کہ اگر میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا تو آپ کو اس شعر پر دیتا۔
مولانا عبد الباری ندوی کے بہ قول ’خواجہ صاحب اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کا تعلق بس وہی تھا جو امیر خسرو اور حضرت سلطان جی رحمہم اللہ کا تھا۔خواجہ صاحب شیخ کی شرابِ عشق میں سراپا مخمور تھے اور ان کا ہر موئے بدن شیخ کی ثنا و صفت کا ایک شعر تھا۔
دو شعر ملاحظہ ہوں؎
تیرے محبوب کی یا رب شباہت لے کے آیا ہوں
حقیقت اس کو تو کر دے میں صورت لے کے آیا ہوں
جو اشرف تھا زمانے میں جو اشرف ہے زمانے میں
میں ایسے تیرے اشرف کی عقیدت لے کے آیا ہوں
خواجہ صاحب کی شاعری میں تفکرو تصور، شعورو احساس بہ درجۂ کامل موجود ہے۔ان کے کلام میں تصوف کا رنگ بہت گہرا ہے اور سارے تصوف و تفکرات کی بنیاد ’کأنک تراہ‘ہے۔جو محبت ہو جاتی ہے، اس میں امکانِ فنا ہے، اس لیے کہ یہ حالتِ اضطرار ہے، لیکن جو محبت کی جاتی ہے، اس کی منزل بقا ہے، اس لیے کہ اس میں اختیار ہے۔ عرفی اور رسمی تصوف سطحیت و کیفیت کے سوا کچھ نہیں، اس میں احوال پر نظر ہوتی ہے اور اسی کو مقصود سمجھا جاتا ہے، جب کہ محققین صوفیا کے یہاں حالاً و حساً منازلِ محبت کی معرفت پیدا کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل مقصود رضائے الٰہی ہے، اپنی ذات کو اُس کی ذات میں فنا کر دینا ہی اصل محبت ہے۔
بقول مجذوبؔ؎
ناچیز ہیں پھر بھی ہیں بڑی چیز مگر ہم
دیتے ہیں کسی ہستیِ مطلق کی خبر ہم
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں؎
یہ ہوا ثابت بہ وقتِ امتحانِ دردِ دل
دردِ دل سمجھے تھے جس کو تھا گمانِ دردِ دل
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں؎
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
اس مختصر گفتگو سے خواجہ صاحب کا رنگِ سخن نظروں میں آگیا ہوگا۔خواجہ صاحب کے کلام میں ظاہری و معنوی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کے کلام سے ایک طرف عارفین صوفیا محظوظ ہوتے ہیں تو دوسری طرف سخنوران اور سخن شناسِ ادب فنّی نزاکتوں پر داد دیے بغیر نہیں رہتے۔ بقول ان کے؎
اِدھر ہیں رند مستی میں اُدھر ہیں وجد میں صوفی
مزہ ہر رنگ والے کو مِرے اشعار میں آئے






