حاجی علی درگاہ میں عورتوں کی حاضری کولےکر بحث
ندیم احمد انصاری(اسلامی اسکالر و صحافی)
اس سے قبل بھی حاجی علی درگاہ میں خواتین کی حاضری کا مسئلہ اخبار کی سرخیوں میں جگہ پا چکا ہے، اُس وقت ہم نے کچھ لکھا نہ کہنا، پر اب ایک بار پھر چوں کہ بحث نے زور پکڑا ہے اس لیے ضروری خیال کیا کہ چند صاف صاف باتیں اپنے قارئین سے کر ہی لی جائیں۔ پہلے یہ واضح کر دیں کہ ’حاجی علی‘ ممبئی کے ورلی علاقے میں واقع ایک ’درگاہ‘ہے، جسے شاہ راہ سے لگ بھگ400 میٹر دُور، ایک چھوٹے سے ٹاپُو پر،سیّد پیر حاجی علی شاہ بُخاری کی یاد میں سن1431ء میں بنایا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس درگاہ میں ہندو مسلم سب ’عقیدت‘ کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں، جب کہ اگر آپ کہنے کی اجازت دیں تو ہمارا ماننا ہے کہ ہندو و مسلم سب کے لیے یہ ایک معروف تفریح گاہ ہے، جہاں بلا تفریق و مذہب بے پردہ عورتیں، لڑکپن سے اٹھلاتے لڑکے اور شور و غوغہ کرتے بچّے ہر وقت نظر آتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج ایک ولی کی قبر کو تفریح گاہ بنا لیا گیا ہے، جس پر وہاں کا ماحول شاہد ہے۔ اطلاع کے مطابق ’حاجی علی‘ اُزبیکِستان کے بُخارا سے ہندوستان آئے تھے۔
درگاہ حضرت حاجی علی کے مرکزی احاطے میں خواتین کو داخلے کی اجازت کا مطالبہ رہ رہ کر کیا جا رہا ہے جس کے لیے اب عوامی تحریک شروع ہو گئی ہے۔گذشتہ دنوں تقریباً 20 سے زائد این جی اوز، تنظیموں اور حقوقِ انسانی کے کارکنوں نے ’حاجی علی سب کے لیے‘ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اطلاعات کے مطابق تروپتی دیسائی نے 28اپریل کو درگاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا انتباہ ممبئی کے مراٹھی پترکارسنگھ میں منعقد پریس کانفرنس میں کیا۔ گویا کہ تمام مسائل کو چھوڑ کر یہی ایک مسئلہ ان کی نگاہ میں ا یسا ہے جس میں انھیں اپنا رول ادا کرنے کی سوجھی کہ حقوقِ انسانی و حقوقِ نسواں سب سے زیادہ یہیں پامال کیے جا رہے ہیں، نہ ان کے سامنے دلتوں کو زندہ جلا دیا جانا اتنا اہم ہے اور نہ کسی مسلمان کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دینا۔بہ طور تجاہلِ عارفانہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ خدا جانے کیوں اس طرح کے مسائل کو اس قدر حسّاس بنا دیا جاتا ہے!
جو لوگ 15 ویں صدی کی اس قدیم درگاہ کے مرکزی احاطے میں خواتین کے داخلے پر امتناع کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، ممکن ہے ان میں ایسے موقع پرست بھی ہوں جو سوچتے ہوں کہ کچھ نہ ہوا تو کم از کم مسلمانوں میں تفریق تو کسی نہ کسی درجے میں کرائی ہی جا سکے گی کہ بعض ان کے مخالف ہوئے تو بعض طرف دار بھی ضرور نکل آئیں گے۔
ایک پریس کانفرنس میں مہم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جہاں ایک گروپ نے اسے خلافِ شریعت قرار دیا، نیز کنوینر جاوید آنند نے کہا کہ فورم کا یہ احساس ہے کہ درگاہ میں خواتین کا داخلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ اس کا تعلق قدیم روایات سے ہے۔ لہٰذا فورمدرگاہ کے ٹرسٹیان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ خواتین کے داخلے پر عائد پابندی کو فوری برخواست کریں۔
عجیب بات ہے کہ کیا کسی بات کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس کا سرا ’قدیم روایات‘ سے جوڑ دیا جائے!نیز کیا واقعی یہ دعویٰ کرنے سے پہلے کسی اسلامی اسکالر سے گفتگو کی گئی ہے؟کیا کہنے والے نے خود مستند و معتبر اسلامی کتب میںاس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ اگر نہیں تو مسلمانوں کے مذہبی مسائل کو یوں سرِ عام کیوں اچھالا جا رہا ہے؟ہمیں قوی امید ہے کہ ٹھنڈے دماغ سے اگر کوئی بھی سمجھ دار اس معاملے میں غور و فکر کرے یا کسی بھی ایسے شخص کے سے استفادہ کریں جس کے اندر خوفِ خدا و آخرت میں جواب دہی کا احساس ہو اور وہ صحیح معنوں میں دینی علوم سے مسّ بھی رکھتا ہو تویہ مسئلہ چند لمحوں میں حل ہو جائے گا، ورنہ آپ اسی طرح کے مسائل میں الجھے رہییاور دیکھیے گا’ کرنے والے اپنا کام کر گزریں گے‘۔یہ بھی واضح رہے کہ ممبئی ہائی کورٹ بھی اس معاملے میں ایک درخواست کی سماعت کررہی ہے جس میں خواتین کے درگاہ کے احاطے میں داخلے پر امتناع کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
ہمیںیہ شکوہ ایک زمانے سے ہے کہ موجودہ سیاست میں عوام کو مذہبی وجذباتی مسائل میںاُلجھا کر اپنا الّو سیدھا کرنے کی روایت رواج پا گئی ہے، جس میں عوام مہرہ بنتے ہیں، اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اس میں جتنے قصور وار وہ سیاست داں ہیں، اتنے ہی وہ عوام بھی ذمّے دار ہیں جو ایک کے بعد ایک ایسے مسائل میں الجھ کر اصل مسائل سے غفلت برقرار رکھتے ہیں۔مسئلہ ’بابری‘ کا ہو یا ’دادری‘ کا،’بیف‘ کا ہو یا ’بھارت ماتا کی جے‘کا، آخر کب تک اسلامی تشخص اور انسانی احترام نیز جمہوریت کی دھجیاں اڑانے سے صَرفِ نظر کرکے جزوی مسائل کو موضوعِ بحث بنایا جاتا رہے گا؟ سوچو آخر کب سوچوگے!
[/pukhto]