کیا اردو واقعی ‘ہم’ سب کی زبان ہے، ندیم احمد انصاری (اسلامی اسکالر و صحافی)
ایک زمانہ تھا کہ اقبالؔ کے استاذ داغ دہلوی نے فخریہ کہا تھا
اردو ہے جس کا نام، ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مذکورہ شعر میں جہاں شاعر نے تعلّی کر خود کو یکتاے زمانہ باور کرانے کی کوشش کی ہے، وہیں اس حقیقت کو بھی واضح کیا ہے کہ زمانۂ داغ جس زبان کی ملک میں سب سے زیادہ شہرت تھی اور جس زبان کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا وہ ’اردو‘ تھی۔ یہ بات درست بھی ہے، اس لیے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ فارسی کا اثر کم سے کم تر ہوتا جا رہا تھا اور زبانِ اردو کو فروغ حاصل ہو رہا تھا، لیکن جیسا کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا‘ زمانے نے کروٹ لی اور دھیرے دھیرے اس زبان کو اہلِ زبان کہے جانے والوں نے ہی طاقِ نسیان کی زینت بنانے میں پیش قدمی کی۔ دنیا طلبی اس قدر بڑھی کہ تہذیب و ثقافت یاد رہی نہ مذہب و اخلاق سے رشتہ استوار رہا، حال یہ ہے کہ جسے دیکھیے للچائی ہوئی نگاہوں سے غیروں کی طرف دیکھ رہا ہے!
زمانۂ طالبِ علمی میں ہم نے اپنے کالج کی میگزین میں ایک مضمون ’اردو زبان اور قومی یک جہتی‘ میں لکھا تھاکہ اردو ’ہم‘ سب کی زبان ہے اور اس لفظ ’ہم‘ میں ’ہ‘ سے مراد ’ہندو‘ اور ’م‘ سے مراد ’مسلمان‘ ہیں۔ اس کے بولنے اور سمجھنے والے ہندستان میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کم کیا جاتا ہے،لیکن اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے، ایک طرف جہاں بعض مسلمان اردو والے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں، بلکہ برصغیر کی زبان ہے، وہیں دوسری طرف مسلمانوں اور اردو کے دشمن اپنے قول و عمل سے ہر وقت یہ ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ ماضی میں حال جو کچھ رہا ہو لیکن فی زمانہ اردو صرف مسلمانوں کی بلکہ ایک مخصوص طبقے کی زبان ہے۔ اس میں بہت حیران ہونے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ خود اردو کی روٹی کھانے والوں کے گھروں سے بھی اردو کو اس قدر بے عزت کرکے نکالا گیا ہے جس کے بعد کو بھی خوددار خود کشی کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اے سی کمروں میں بیٹھ کر اردو کے فروغ و بقا کے لیے زبانی جمع خرچ پیش کرنے والے اس کی حفاظت کے لیے مالی جمع خرچ یا یا کسی قسم کا تعاون پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اردو کے فروغ و بقا کی تو بات دور کی ہے، حال یہ ہے کہ جو لوگ اردو کی پروفیسری کرایک لاکھ روپئے ماہانہ پاتے ہیں ، وہ اس پیاری زبان کی دھجیاں شعبۂ اردو میں بیٹھ کر اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اردو بولنے اور لکھنے پڑھنے کی قبیح منظر کی منظر کشی کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔املا و تلفظ کے مسائل تو گویا ان کے رتبے نے پانی کر دیے، پھر کسی یونیورسٹی میں اسٹنٹ پروفیسری نے انھیں اس مقام پر فائز کر دیا ہے کہ جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ دنیا میں ان سے بڑا کوئی اردو کا خدمت گزار ہے اور نہ اردو داں۔ گویا وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اردو ان کی زر خیز غلام ہے، جس پر فقط ان کی اجارہ داری ہے۔ بعضوں کو ایسے خاندان میں پیدا ہو جانے پر بھی ناز ہے، جس گھرانے میں اردو کی حیثیت ایک لونڈی سے زیادہ نہیں، خواہ انھیں اردو زبان و ادب کی الف، ب،ت نہ آتی ہو۔ ہاں یہ خوش گوار حقیقت ہے
ہواؤں میں سلیقے سے جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں، جو اردو بول سکتے ہیں
خیر ان اہم مسائل پر کبھی اور تفصیل سے گفتگو کریں گے، اس وقت عرض کرنا یہ مقصود ہے کہ اردو کی جو ہتک گذشتہ دنوں بھگوائیوں نے دہلی میں کی ہے وہ ان کی انتہا پسندی کی بیّن دلیل ہے اور صرف و صرف اس بنیاد پر ہے کہ وہ بہ زعمِ خود اسے مسلمانوں کی مخصوص زبان سمجھتے ہیں۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ اردو زبان میں لکھنے پڑھنے والے غیر مسلم و ہندو افراد آج بھی معتدبہ تعداد میں پائے جاتے ہیں، جو ذاتی دل چسپی اور شوق کی بنیاد پر اردو سیکھتے، بولتے اور لکھتے پڑھتے ہیں۔ چند ماہ قبل خود ہمارے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ ہمارا ایک مضمون اردو اخبارات میں ’یہ کیسی تصویر بنا دی، تم نے ہندستان کی‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا جس میں ہم نے حالاتِ حاضرہ پر غبارِ خاطر پیش کیا تھا۔ مضمون کے آخر میں مدیر کی کرم فرمائی سے ہمارا ای میل آئی ڈی بھی باقی رکھا گیا تھا۔ شام کے وقت ہم نے جب اپنا ای میل چیک کیا تو ایک مبارک بادی کا میسج باصرہ نواز ہوا۔ جس میں بہت محبت و دعاؤں کے ساتھ ہمارے مضمون کی خوبیوں پر دل کھول کر مبارک باد پیش کی گئی تھی۔ ہم نے پیغام بھیجنے والے کے تعارف کا اشتیاق ہوا اور جب انھیں میل کرکے جان کاری حاصل کرنے کی کوشش کی ہماری خوش گوار حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ ایک سیکولر ہندوبھائی نے ہمیں وہ پیغام ارسال کیا تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے شوق کے ہاتھوں اردو سیکھی اور وہ محبت کے ساتھ اردو اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اس پوری تمہید کے بعد بڑے افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ گذشتہ دنوں دہلی میں ایک دیوار پر اردو رسم الخط میں پینٹنگ کرنے والے دو فنکاروں کو آر ایس ایس کارکنان نے دھمکایا اور دیوار پر لکھے گئے اردو اشعار انھیں سے مٹوا کر، اسی جگہ ہندی میں ’سوچھ بھارت ابھیان اور نریندر مودی‘ جیسے الفاظ لکھنے پر مجبور کیا ہے۔’دی وائر‘ کے مطابق اخلاق احمد اور سیون سیمن ’شاہدرہ‘ علاقے (دہلی)، جل بورڈ کی ایک دیوار پراردو میں اشعار لکھ رہے تھے ، دریں اثنا آر ایس ایس سے وابستہ چند افراد آئے اور انھیں ایسا کرنے سے زبردستی روک دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اردو اسکرپٹ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایسا کیا کیا ہے جو انھوں نے برداشت کیا ہے! در اصل گذشتہ ہفتے 19 مئی 2016ء کو دہلی حکومت کی اجازت سے سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر ایک غیر ملکی اور ایک ہندوستانی فنکار نے اردو اشعار کو پینٹنگ کی شکل میں پیش کرنے کی ابتدا کی تھی۔یہ بھی واضح رہے کہ اردو‘ دہلی کی چار سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اور حکومتِ دہلی نے ’مائی دلی اسٹوری‘ کے تحت 2014 ء میں ایک مہم شروع کی تھی جس میں لوگوں سے دہلی کے بارے میں ان کے تاثرات ٹوئٹر پر حاصل کیے گئے تھے۔ان میں سے 40 ٹویٹس کو منتخب کیا گیا تھا اور دوسرے مرحلے میں انھیں دہلی کی چار سرکاری زبانوں میں سرکاری عمارتوں پر پینٹ کیا جا رہا تھا۔اس مہم سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ دہلی کی تاریخ و ثقافت، فنونِ لطیفہ، ماحولیات اور کھانوں کو بچانے کی کوشش ہے، لیکن ان بھگوائیوں کو ملک کی تاریخ و ثقافت، فنونِ لطیفہ وغیرہ سے کوئی دل چسپی ہو تب نا!
انھوں نے جو کچھ کیا وہ ایک نا شائستہ حرکت تھی اور بھلے ہی چھوٹی چنگاری ہولیکن چھوٹی چنگاری کبھی بڑا انگارا بھی بن سکتی ہے، اس لیے اس واقعے پر اہلِ اردو کی طرف سے سخت ریمارک لیا جانا چاہیے تھا۔ ہم خود ہندی میڈیم اسکول میں پڑھے ہیں، جہاں ہم نے مراٹھی و سنسکرت وغیرہ بھی پڑھی ہے،انگریزی ضرورت کے تحت ضرورت کی حد تک سیکھی، عربی و اردو تک خاص ذوق و شوق نے رسائی کی، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی زبان کو کسی خاص قوم سے منسوب کر دینا اور اس بنا پر اس زبان سے کنارہ کشی اختیار کر لینا خود اپنا نقصان کرنا ہے۔ اپنی مادری زبان سے محبت ہونی چاہیے لیکن تمام زبانیں خدا کی بنائی ہوئی ہیں، بلاوجہ ان میں کسی سے بغض رکھناانسانی علوم کی وسعتوں کو محدود کر دیتا، جس کے لیے کوئی باشعور انسان اور سچا طالبِ علم ہرگز تیار نہیں ہو سکتا۔اردو زبان پر تو پہلے ہی سرکاری و غیر سرکاری طور پر مختلف النوع ستم ڈھائے جاتے رہتے ہیں، خدارا اب اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش مت کیجیے۔ یہ محض ایک زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی امین و پاس دار ہے۔