موبائل پر تلاوت سے روکنا کیا قرآن سے روکنا نہیں، ندیم احمد انصاری
اسلام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر بڑی اہم چیز ہے، جس کے متعلق قرآن و حدیث میں بڑی تاکید و وضاحت آئی ہے، لیکن یہ کم لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح نیکی کا امر کرنے سے رُک جانا بُرا ہے، اسی طرح غیر منکر پر نکیر کرنا بھی برا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ ایک وبا سی پھیلی ہوئی کہ بلا تحقیق و تفحص بعض ایسی ایسی باتوں پر روکتے ٹوکتے ہیں کہ جسے روکا ٹوکا جا رہا ہے، وہ دل برداشتہ ہو کر رہ جاتا ہے اور بہت سے ٹوکنے کے مقامات پر چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے، جس سے برائی کو تقویت پہنچتی ہے۔ یہ دونوں ہی طرزِ عمل اسلام کی تعلیم و روح کے خلاف ہیں۔مضمونِ ہٰذا میں جس مسئلے کی طرف ہم اپنے قارئین کو توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ ہے ’موبائل میں قرآن مجید پڑھنا‘۔ چوں کہ رمضان المبارک کو قرآن مجید سے خاص نسبت ہے اور اس ماہِ مبارک میں تلاوتِ قرآن مجید کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، اس لیے اس جانب توجہ مبذول کرانے کی ضرورت محسوس ہوئی، جس میں بہت سے لوگ لاعلمی کی بنا پر غلو کا شکار ہیں۔
آج کل موبائل میں قرآن مجید کے متن اور اس کی تلاوت کو محفوظ کرنے کی سہولت میسر ہے، جس سے سفر و حضر میں کہیں بھی قرآن مجید کی تلاوت و سماعت کی سعادت حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن بہت سے لوگ اب تک اس پس و پیش میں نظر آتے ہیں کہ آیا موبائل کو اس نیک کام کے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ واضح رہے یہ ایک خالص فقہی مسئلہ ہے جس پر فقہ اکیڈمی انڈیا غور و خوض کے بعد اپنی تجویز پیش کر چکی ہےاور اتفاقِ رائے سے یہ مسئلہ طے پایا ہے کہ قرآن مجید کو اس نیک مقصد کے لیے استعمال کرنا بلا کراہت جائز و درست ہے اور قرآن مجید کا متن وغیرہ موبائل میں رکھنے اور اس سے استفادہ کرنے میں کسی طرح کی کوئی قباحت نہیں، محققین علما کا عمل بھی اسی پر ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگ موبائل پر قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کو ناقابلِ استدلال باتیں کہہ سن کر ایسا کرنے سے روکتے ہیں، جو کہ اصلاً قرآن سے روکنے کے مترادف ہے۔
اس موقع پر یہ بھی ملحوظ رہے کہ موبائل میں رکارڈشدہ قرآن مجید کی آڈیوفائل یا اس کا متن محفوظ کرنا تو بلا کراہت درست ہے،ہاں جس وقت موبائل کا یہ متن اسکرین پر ظاہر ہوگا یا جس وقت وہ آڈیو فائل کھلی ہوئی ہوگی، اس وقت اس کا حکم قرآن کا سا ہوگا، جس وقت یہ بند پروگرام کی صورت میں فون میمری یا کارڈ میمری میں ہوگا، اس وقت اسے ساتھ میں بیت الخلا وغیرہ جیسی جگہوں میں لے جاتے وقت قرآن کا حکم نہیں لگایا جاے گا لیکن اگر یہ متنِ قرآن موبائل کی اسکرین پر نظر آتا ہو تو اس صورت میں اسے بیت الخلا میں لے جانا جائز نہیں ہوگا۔رہا یہ سوال کہ اگر موبائل کی اسکرین پر قرآن موجود ہو تو کیا موبائل ہاتھ میں لینے یا اسکرین پر ہاتھ لگانے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے یا موبائل کے ڈھانچے کو ایسا غلاف تصور کیا جاے گا جسے بے وضو چھونے کی گنجائش ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں بادی النظر میں تو یہی خیال ہوتا ہے کہ اس کے لیے وضو ضروری قرار دیا جائےاور موبائل کے ڈھانچے کو ایسا غلاف تصور نہ کیا جائے جسے بے وضو چھونے کی گنجائش ہوتی ہے، اس کی نظیر یہ مسئلہ ہے کہ قرآن کے وہ غلاف جو عموماً قرآن مجید کے ساتھ جڑے ہوئے آتے ہیںاور جنھیں بہ آسانی قرآن مجید سے الگ بھی نہیں کیاجا سکتا، انھیں چھونے کے لیے بھی وضو لازم و ضروری قرار دیا جاتا ہے، لیکن تحقیق یہ ہے کہ موبائل پر اس طرح جو آیات نظر آتی ہیں وہ اصلاً ایسے نقوش ہیں، جنھیں چھُوا ہی نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہ ایک سافٹ ویئر کی مدد سے رونما ہوتے ہیں، جن کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نقوش موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ ’ریم‘ (Ram) پر بنتے ہیں اور شیشے کے اُس پار سے نظر آتے ہیں، لہٰذا اس صورت میں موبائل کے ڈھانچے کو ایسا غلاف تصور کیا جائے گا جسے بے وضو چھونے کی گنجائش ہوتی ہے یعنی غلافِ منفصل اور اس طرح کے غلاف کو فقہاے کرامؒ نے بلا وضو چھونے کی اجازت دی ہے۔جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’اگر قرآن مجید ایسے غلاف میں ہوجو اس سے جدا ہو، جیسے کوئی تھیلی یا ایسی جلد جو اس میں سِلی ہوئی نہ ہو تو اسے بلا وضو چھونا جائز ہے، اگر وہ غلاف قرآن مجید سے جڑا ہوا ہو تو اسے بلا وضو چھونا جائز نہیں،اسی پر فتویٰ ہے۔‘‘ (ہندیہ)
چناں چہ اس صورت میں موبائل کی اسکرین کی مثال اس قرآن مجید یا اس آیت کی سی ہوگی جسے کسی ورق پر تحریر کیا گیا ہو اور اسےشیشے کے کسی بکس میں بند کر دیا جائے، ظاہر ہے کہ اس صورت میں کوئی اس شیشے کو ہاتھ لگانے کے لیے وضو کو واجب قرار نہیں دیتا، اسی طرح موبائل کے شیشے پریعنی اسکرین پر بھی بلا وضو ہاتھ لگانا درست ہوگا۔فقہ اکیڈمی انڈیا کے سیمینار (2015ء) میں اس موضوع پر جن حضرات نے مقالات لکھے، ان میں راقم الحروف کے علاوہ متعدد اہلِ علم کی یہی رائے ہے، البتہ بلا وضو و باوضو پڑھنے میں ثواب میں فرق ضرور ہوگا۔واللہ اعلم