Hajj farz hone par uski adayegi mein jaldi karien, Nadeem Ahmed Ansari (Islamic Scholar & Journalist)

حج کے فرض ہونے پر اس کی ادایگی میں جلدی کریں

ندیم احمد انصاری

(اسلامی اسکالر و صحافی)

اسلام کے جو پانچ ارکان ہیں، ان میں ایک اہم ترین رکن ’’حج‘‘ ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں، مخصوص فعل سے، مخصوص مکان کی زیارت کرنے کو حج کہتے ہیں۔ (تاتارخانیہ)

صحیح قول کے مطابق ۹ھ ؁ میں حج فرض ہوا، یہ وہی سال ہے جس میں مختلف وفود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اسی سال سورۂ آلِ عمران نازل ہوئی، جس میں حج کی فرضیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا گیا: (ترجمہ)لوگوں پر اللہ کا حق، یعنی فرض ہے کہ جو اس گھر (کعبہ؍بیت اللہ) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے۔(سورہ آل عمران:۹۷)

حج کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ حج زندگی میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان پر فرض کیا گیا ہے، جس میں حج کے شرائط پائے جاتے ہوں۔ (تاتارخانیہ)

 یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حج استطاعت پائے جانے کی صورت میں فوری طور پر واجب ہوتا ہے، کیوں کہ امر کا تقاضا یہ ہے کہ اسے فوراً ادا کیا جائے۔ (فتاویٰ اسلامیہ)اور پھر امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ روایت بھی ذکر کی ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج یعنی فرض کو جلد ادا کرو کیوں کہ تم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے آئندہ کل کیا حالات درپیش ہوں گے۔ (مسند احمد) اور ایک روایت میں اس طرح فرمایا گیا؛جو شخص حج کا ارادہ کرے، اسے اس کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے کیوں کہ اسے کوئی مرض لاحق ہوسکتا ہے، سواری گم ہوسکتی ہے اور کوئی ضرورت وحاجت درپیش ہوسکتی ہے۔ (ابن ماجہ) نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص باوجود استطاعت کے حج نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے، چاہے وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔(ترمذی)

حج کے فضائل

حج کے فضائل بھی احادیث میں بڑی کثرت سے وارد ہوئے ہیں، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص رضاء الہٰی کے لیے حج کرتا ہے، اس طرح کہ اس میں کسی قسم کی فحش اور برائی کی بات نہ کرے اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلا نہ ہو تو وہ حج کے بعد اپنے گھر، گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر واپس لوٹے گا، جس طرح پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک، دنیا میں آیا تھا۔ (بخاری)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان اور جہاد کے بعد سب سے افضل عمل وہ حج ہے جو ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہو۔(بخاری) ایک حاجی کو اپنے خاندان کے۴۰۰ لوگوں کے لیے شفاعت کا اختیار دیا جائے گا۔ (ترغیب) حج میں مال خرچ کرنا جہاد میں مال خرچ کرنے سے بھی ۷۰۰ گنا افضل ہے ۔ (ترغیب) نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے قافلے ہیں، اگر وہ دعا کرتے ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی دعا قبول فرمالیتے ہیں۔ (ابن ماجہ) حج اور عمرہ تسلسل سے کرنا فقر وفاقہ اور گناہوں کو ایسے دور کردیتا ہے، جیسے آگ کی بھٹی لوہے، سونے اور چاندی سے میل کو۔ (مسند احمد)

حج کس پر فرض ہے

حج ہر اس شخص پر فرض ہوجاتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا مال عطا فرمایا ہو جس سے وہ اپنے وطن سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے اور وہاں کے اخراجات پر قادر ہو، اور واپس آنے تک اپنے اہل و عیال اور بیوی بچوں وغیرہ کے مصارف بھی بآسانی برداشت کرسکتا ہو اور راستے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو، مثلاً: حکومت کی طرف سے سفر کی منظوری ویزا اور سواری اور ٹکٹ کی فراہمی اور دشمن وغیرہ کے خطرات سے مامون ہو وغیرہ۔ ان تمام سہولیات کے ساتھ عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہوتا ہے۔ (شامی)

بعض غلط فہمیاں

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ عموماً لوگ جب حج کے خرچ کا حساب کرتے ہیں تو اس میں زیارتِ مدینہ منورہ کے خرچ کا بھی حساب لگاتے ہیں، اگر مدینہ منورہ تک جانے کا بھی خرچ ہوتا ہے تو ہی حج کو فرض سمجھتے ہیں ورنہ نہیں۔۔۔ تو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر صرف حج کے لیے جانے اور وہاں سے واپسی تک کا خرچ ہو تو بھی حج فرض ہوجاتا ہے گو مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے خرچ نہ ہو البتہ اگر اس کی زیارت کا سامان یا ہمت ہو تو اس کا ثواب بھی بے حد وحساب ہے لیکن حج کا فرض ہونا اس پر موقوف نہیں، اگر ایسا شخص حج نہ کرے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔

بعض لوگوں کو سفرِ حج کی گنجائش ہوتی ہے لیکن وہ تعمیرِ مکان یا شادی وغیرہ میں خرچ کرنے کو مقدم سمجھ کر حج سے خود کو سبک دوش خیال کرتے ہیں، جب کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں عموماً لوگ حج کو جانے لگتے ہیں، اس سے قبل اگر کسی نے دیگر کسی کام میں رقم وغیرہ خرچ کردی اور اب اتنا مال باقی نہ رہا کہ حج کرسکے، تب تو حج فرض نہ ہوگا اور اگر سفرِ حج کا زمانہ آگیا تو حج فرض ہوجائے گا اور تعمیرِ مکان یا شادی وغیرہ امور میں خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا، گو اس تعمیر وغیرہ کی حاجت ہی ہو، اگر حج کے لیے نہ جاکر کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرے گا تو گنہگار ہوگا، اور حج فرض رہے گا۔ (الفضائل والاحکام)

یہ بھی خیال رہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب نقد روپیہ مصارفِ حج کے لیے کافی موجود ہو، تب حج فرض ہوتا ہے، حالاں کہ جس کے پاس حاجت سے زائد اتنی زمین ہو جس کی قیمت مصارفِ حج کے واسطے کافی ہو، اس پر بھی حج فرض ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں؛ جیسے رہائشی مکان کے علاوہ کوئی زائد مکان ہو، تو اس کو بیچ کر حج کرنا فرض ہے، جب کہ اس کی قیمت کے ذریعے حج ہوسکے لیکن اگر کسی کے پاس صرف ایک مکان ہو اور وہ اتنا بڑا ہو کہ ایک حصہ رہائش کے لیے کافی ہو اور باقی کی قیمت حج کے واسطے کافی ہوسکتی ہو تو اس کا حصہ فروخت کرنا ضروری نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس بہت قیمتی مکان ہے کہ اس کی قیمت میں بھی حج ہوسکتا ہے اور معمولی مکان بھی مل سکتا ہے، تب بھی اس کے ذمہ حج فرض نہیں،گو افضل یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں حج کرلے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس قیمتی کپڑے موجود ہوں جو استعمال میں نہیں لائے جاتے، تو لازم ہے کہ ان کو فروخت کرکے حج کیا جائے۔ زائد برتنوں کا بھی یہی حکم ہے اور زیور تو شرعاً بالکل نقد کے حکم میں ہے نیز اگر کسی نااہل کے پاس کتابیں موجود ہوں تو حج کے واسطے انھیں فروخت کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر کسی دکان دار کے پاس اتنا مالِ تجارت ہو کہ اگر کچھ مال فروخت کرکے حج ہوسکتا ہو اور باقی ماندہ مال سے بقدرِ ضرورت تجارت ہوسکتی ہو تو بھی حج فرض ہے۔ علیٰ ہٰذا جس پیشہ ور کے پاس ضروری اوزار وغیرہ کے علاوہ زائد سامان اتنا ہو کہ اس کی قیمت سے حج ہوسکے تب بھی حج فرض ہے اور جس زمین دار کے پاس اتنی زمین ہو کہ اگر مصارفِ حج کی مقدار فروخت کردے تو باقی زمین کی آمدنی سے گزر ہوسکتا ہو تو اس پر زمین فروخت کرکے حج کرنا لازم ہے نیز کاشت کار کے پاس اگر ہل اور بیل وغیرہ کے علاوہ اتنا سامان ہو کہ اس کی قیمت مصارفِ حج کے لیے کافی ہوسکتی ہو تو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ زائد سامان فروخت کرکے حج کرے، اسی طرح تمام تجارت وپیشے وغیرہ کو قیاس کرلیں۔ (ماخوذ از الفضائل والاحکام)

عورت اورحج

عورتوں کے متعلق ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ عورتوں کے لیے جہاد نہیں ہے بلکہ ان کے لیے افضل ترین جہاد حجِ مبرور ہے۔(بخاری) لیکن عورت پر حج فرض ہونے کے لیے ذاتی صرفے کے علاوہ ساتھ میں جانے والے محرم کا سفرِ خرچ بھی میسر ہونا لازم ہے، ورنہ عورت پر حج فرض نہیں ہوگالیکن یہ حکم اس وقت ہوگا جب کہ اس عورت کا یہ سفر، شرعی سفر یعنی ۳؍ دن یا اس سے زیادہ مسافت کا ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ کوئی دن ورات کا سفر بھی بغیر محرم کے کرے۔ (بخاری)

عورت کے ساتھ اس کا شوہر سفرِ حج پر جائے گا یا اس عورت کا کوئی محرم، لہٰذا! اگر محرم یا شوہر عورت کے ساتھ سفر کے لیے میسر نہ ہو تو عورت پر حج فرض نہیں ہوگا۔جیسا کہ حدیث سے مستفاد ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے، الا یہ کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔ یہ سن کر ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوے کے لیے لکھا جاچکا ہے، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (بخاری) البتہ اگر یہ مسافت، شرعی مسافت سے کم ہوتو اس عورت کو بغیر محرم کے یا بغیر شوہر کے بھی حج کے لیے جانا فرض ہے، البتہ! اگر کسی فساد وغیرہ کا اندیشہ ہو تو پھر اس شرعی مسافت سے کم میں بھی عورت کو بغیر شوہر یا محرم کے سفر کرنا مکروہ ہے اور ملا علی قاریؒ نے اپنے زمانے میں فرمایاکہ اس زمانہ کے لوگوں کے فساد کی وجہ سے اسی قول پر فتویٰ دیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ اب تو حال ہی دیگر گوں ہے۔ (تاتارخانیہ)

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے اور اپنے احکام واوامر پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here