محرم الحرام سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں

wp-image-1738359691jpg.jpg

محرم الحرام سے متعلق عوام میں مشہور چند غلط باتیں

ندیم احمد انصاری(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)

سب سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ‘ جو کہ ہمارے خالق و مالک ہیں، وہ کسی بھی معاملے میں ہمارا بُرا نہیں چاہتے بلکہ بھلا ہی چاہتے ہیں اور انسان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف اس کے اپنے اعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ قرآن و احادیث سے واضح ہے۔اس لیے اگر کوئی ایسی بات پیش آئے، جس سے تکلیف محسوس ہو تو ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع ہوں لیکن کسی مصیبت کے موقع پر کسی بھی شخص یا مکان و زمان کو کوسنا یا ان میں سے کسی چیز میں نحوست کا عقیدہ رکھنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔اسلام کے مطابق کوئی دن و مہینہ منحوس ہوتا ہے اور نہ کوئی جگہ و مقام، ہاں بعض مخلوقات کو بعض مخلوق پر کچھ فضیلت ضرور حاصل ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ افضل کے مقابلے میں مفضول میں کسی طرح کی کوئی نحوست ہے۔ آگے ہم حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مشہور کتاب اغلاط العوام‘ سے مہینوں سے متعلق چند مشہور غلط باتیں پیش کر رہے ہیں، حق تعالیٰ ہم سب کو حق قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
IJمشہور ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ نہ رکھے کیوں کہ یزید کی والدہ نے رکھا تھا، محض غلط ہے۔
IJبعضے عوام محرم میں قبروں پر تازہ مٹی ڈالنے کو ضروری سمجھتے ہیں، سو اس کی کچھ اصل نہیں۔
IJبعض لوگ اس بچے کو جو محرم میں پیدا ہو،منحوس سمجھتے ہیں، یہ محض غلط ہے۔
IJبعض اس ماہ میں نکاح وغیرہ کو بھی ناجائز جانتے ہیں، یہ محض غلط ہے۔
IJبعض لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس میں شہیدانِ کربلا تشریف لاتے ہیں اور اسی لیے تعزیوں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں، ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں، ان پر عرضیاں ٹکاتے ہیں، یہ سب شرک ہے۔کسی نے کہا تعزیہ توڑنا جائز نہیں ہے کیوں کہ اس میں حضرت حسینؓ کا نام لگا ہے، ایک صاحب نے خوب جواب دیا کہ گوسالہ سامری میں اللہ تعالیٰ کا نام تھا، چناں چہ ارشاد ہے: وقالوا ہٰذا الٰہکم و الٰہ موسیٰ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کو کیوں کر توڑا؟
IJبعض نادان یوں کہتے ہیں کہ صاحب اس تعزیے کو حضرت امام عالی مقامؓ کے ساتھ نسبت ہو گئی اور ان کا نام لگ گیا، اس لیے تعظیم کے قابل ہو گیا، یہ بھی محض غلط ہے، چوں کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر جب کہ نسبت واقعی ہو، مثلاً حضرت امام حسینؓ کا کوئی لباس ہو یا اور کوئی ان کا تبرک ہو، ہمارے نزدیک بھی وہ قابلِ تعظیم ہیں اور جو نسبت اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہو، وہ ہرگز اسبابِ تعظیم سے نہیں، ورنہ کل کو کوئی خود امام حسینؓ ہونے کا دعویٰ کرنے لگےتو چاہیے کہ اس کی اور زیادہ تعظیم کرنے لگو، حالاں کہ بالیقین اس کو گستاخ و بے ادب قرار دے کر اس کی سخت توہین کے در پے ہو جاؤگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نسبتِ کاذبہ سے وہ شئی معظم نہیں ہوتی بلکہ اس کذب کی وجہ سے زیادہ اہانت کے قابل ہوتی ہے، اس بنا پر انصاف کر لو کہ یہ تعزیہ تعظیم کے قابل ہے یا اہانت کے؟
IJبہت [سے] ان دنوں میں تعزیہ بناتے ہیں اور بعضے اس کو اس قدر ضروی خیال کرتے ہیں کہ اگرچہ گھر میں کھانے کو نہ رہے یا بالکل بھی گھر میں نہیںبلکہ قرض ہی لینا پڑے،خواہ کچھ بھی ہو مگر تعزیہ ضرور بنے، یاد رکھو تعزیہ کا بنانا ہی بڑا گناہ ہے [تو اس کے لیے قرض لینا کیسے صحیح  ہو گا؟]
IJبعض جہلا کا اعتقاد ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ تعزیے میں حضرت امام حسینؓ رونق افروز ہیں اور اسی وجہ سے اس کے آگے نذر و نیاز رکھتےہیں، جس کا ما أہل بہ لغیر اللہ میں داخل ہو کر کھانا حرام ہے۔
IJاس تعزیے کے آگے دست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں، اس طرف پشت نہیں کرتے، اس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، اس کے دیکھنے کو زیارت کہتے ہیں اور اس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں، جو صریح شرک ہیں۔ ان معاملات کے اعتبار سے تعزیہ اس آیت کے مضمون میں داخل ہے: أتعبدون ما تنحتون (کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو، جس کو خود تراشتے ہو)۔
IJبعضے جاہل محرم میں تعزیہ کا سامان کرتے ہیں، تعزیے کی برائی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ اس کے لیے ایسے ایسے برتاؤ کرتے ہیں کہ شرع میں بالکل شرک اور گناہ ہیں۔
IJبعضے آدمی اور بکھیڑے نہیں کرتے مگر شہادت نامہ پڑھا کرتے ہیں، تو یاد رکھو اگر اس میں غلط روایتیں ہیں، تب تو ظاہر ہے کہ منع ہے اور اگر صحیح روایتیں ہوں، جب بھی چوں کہ سب کی نیت یہی ہوتی ہے کہ سن کر روئیں گے اور شرع میں مصیبت کے اندر ارادہ کرکے رونا درست نہیں، اس واسطے اس طرح کا شہادت نامہ پڑھنا ہی درست نہیں۔
IJبعض لوگ تعزیہ تو نہیں بناتے لیکن مرثیہ یا شہادت نامہ ضرور پڑھتے ہیں اور پھر ان کو پڑھ کر روتے چلاتے ہیں، یاد رکھو شریعت میں مصیبت کے وقت قصد کرکے رونا درست نہیں،نیز مرثیوں اور شہادت نامے کی اکثر روایات بالکل موضوع (گھڑی ہوئی) اور غلط ہوتی ہیں، اس کے علاوہ خود التزام اس کا، ناجائز ہے (بلکہ) شہادت نامہ [خاص وقت کی تعیین کے ساتھ] محرم میں پڑھنا بدعت ہے۔
IJبعضے لوگ [ان دنوں میں]سوگ مناتے ہیں، یہ بھی غلط ہے۔ محرم کے دنوں میں ارادہ کرکے رنگ پڑیا چھوڑدینا اور سوگ اور ماتم کی وضع بنانا، اپنے بچوں کو خاص طور کے کپڑے پہنانا، یہ سب بدعت اور گناہ کی باتیں ہیں۔
IJپورے ماہ اور خاص طور پر محرم کے دس دنوں میں حضرت حسینؓ کے مرثیے کو گا گا کر پڑھا جاتا ہے اور اس کو پڑھنا او سننا ثواب سمجھا جاتا ہے، حدیث میں [ایسی باتوں سے] منع فرمایا ہے اور فرمایا کہ دوآوازیں دنیا اور آخرت میں ملعون ہیں؛ (۱) خوشی کے وقت گانا بجانا اور (۲) مصیبت کے وقت نوحہ کرنا۔
IJحضرت [حسینؓ] کی شہادت کا واقعہ بعض دشمنانِ دین اس انداز میں پیش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک عام آدمی نہ صرف دس محرم بلکہ پورے محرم کو رنج و غم کا مہینہ سمجھنے لگتا ہے، حالاں کہ شہادت کا وہ مرتبہ ہے، جس کے حصول کی نبیﷺ نے یوں تمنا فرمائی ’’میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ، پھر شہید، پھر زندہ، پھر شہید کیا جاؤں‘‘ تو حضرت حسینؓ کے حق میں یہ مہینہ بڑ امبارک ہوا۔
IJبعض مکاتب میں دسویں محرم کو چھٹی کر دی جاتی ہے، سو یہ محض غلط ہے، اس میں بہت سی خرابیاں ہیں؛(۱) اس میں اہلِ تشیع کے ساتھ تشبہ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کی تائید و تقویت ہے (۲) اس دن شیعہ اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کے بر عکس اہلسنت والجماعت تمام دینی و دنیوی کاموں کی چھٹی کرکے اپنی بے کاری اور بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو کہ بے ہودہ اور باطل حالت ہے (۳) تیسری قباحت یہ کہ چھٹی کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوسوں اور ماتم کی مجلسوں میں چلے جاتے ہیں، جس میں متعدد گناہ ہیں۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here