تعددِ ازواج کی اجازت فطرتِ انسانی کے عین مطابق !
سر سید احمد خان
(پیش کش الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ ہی اسلامی قوانین پر نکہ چینی کی ہے، لیکن انھیںاس میں کبھی پوری طرح کامیابی نہیں مل سکی اور نہ قیامت تک ملے گی۔ وطنِ عزیز ہندوستان میں اس وقت اسلامی قوانینِ نکاح و طلاق پر خصوصیت سے بحث و مباحثے کا کا بازار گرم ہے، جس پر ہر کس و ناکس اپنی سی رائے رکھتا ہے۔ اسی میں ایک ضمنی بحث تعددِ ازواج کی ہے، جس پر ابتدا ہی سے مخالفین و موافقین کی جانب سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، اس وقت ہم اس سلسلے کی ایک وقیع تحریر پیش کر رہے ہیں، جس میں سر سید احمد خان نے موضوع کا مثبت انداز میں عمدہ محاکمہ کیا ہے، اسی کے پیشِ نظر باوجود ان سے متعدد اختلافات کے یہ تحریر ہدیۂ قارئین کی جا رہی ہے، امید کہ سود مند ثابت ہوگی، ان شاء اللہ۔ ندیم احمد انصاری
نکاح در حقیقت دو شخصوں میں ایک معاہدہ ہے مثل دیگر معاہدوں کے، مگر یہ ایک ایسا معاہدہ ہے کہ اُس کے مثل کوئی دوسرا معاہدہ نہیں ہے اور ایک ایسا معاہدہ ہے جو فطرتِ انسانی کا مقتضی ہے اور اس سے بالتخصیص ایسے احکام بہ مقتضاے فطرتِ انسانی متعلق ہیں جو دوسرے کسی معاہدے سے متعلق نہیں ہیں اور وہ احکام ایک نوع کے مذہبی احکام ہو گئے ہیں،اس لیے نکاح عام معاہدوں سے خاص ہوکر ایک مذہبی معاہدے میں داخل ہو گیا ہے اور بہ لحاظ اس کی خصوصیات کے ٹھیک ٹھیک ایسا ہی ہونا لازم تھا۔
عورت بہ نسبت مرد کے اس معاہدے کے نتائج کے لیے محل ہے، اس لیے وہ مجاز نہیں ہو سکتی کہ ایک سے معاہدہ کرنے کے بعد اور اُس معاہدے کے فسخ ہونے کے قبل دوسرے سے معاہدہ کرے، اسی وجہ سے اسلام نے بہ مقتضاے فطرتِ انسانی عورت کو ایک وقت میں تعددِ ازواج کی اجازت نہیں دی، مگر مرد کی حالت اس کے برخلاف ہے اور علاوہ اس کے مرد کے ساتھ اور اقسام کے ایسے تمدنی امور متعلق ہیں جو عموماً عورت سے متعلق نہیںہیں، اس لیے وہ عدم جواز مرد سے بعینہ متعلق نہیں ہو سکتا تھا۔ پس مرد کو کسی ایسی شرط کے ساتھ بجز خاص حالت کے اُس کو بھی تعددِ ازواج سے روکے، مجاز رکھنا بہ مقتضاے فطرت نہایت مناسب تھا، ان تمام دقایق کی رعایت مذہبِ اسلام نے اس عمدگی سے کی ہے جس سے یقین ہوتاہے کہ بلاشبہ وہ بانی فطرت کی طرف سے ہے، مگر افسوس ہے کہ بعض مسلمانوں نے اُس کو نہایت بری طرح پر استعمال کیا ہے۔
فطرتِ اصلی جب کہ اس میں کوئی اور عوارض داخل نہ ہوں تو اُس کا مقتضی یہ ہے کہ مرد کے لیے ایک ہی عورت ہونی چاہیے، مگر مرد کو جسے امورِ تمدن سے بہ نسبت عورت کے زیادہ تر تعلق ہے ایسے امور پیش آتے ہیں جن سے بعض اوقات اُس کو اُس اصلی قانون سے عدول کرنا پڑتا ہے اور حقیقت میں وہ عدول نہیں ہوتا بلکہ دوسرا قاعدہ قانونِ فطرت کا اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ قاعدہ قرار پاتا کہ جب تک ایک عورت سے قطعِ تعلق نہ ہو جائے تو دوسری عورت ممنوع رہے تو اس میں ان عورات پر اکثر حالت میں نہایت بے رحمی کا برتاؤ جائز رکھا جاتا اور اگر اُس قطعِ تعلق کو اُس کی موت پر یا کسی خاص فعل کے سرزد ہونے پر منحصر رکھا جاتا تو مرد کو بعض صورتوں میں منہیات پر رغبت دلانی ہوتی اور بعض صورتوں میں اس کی ضرورتِ تمدن کو روکنا ہوتا، پس مرد کو حالاتِ خاص میں تعددِ ازواج کا مجاز رکھنا فطرتِ انسانی کے مطابق عمدہ فوائد پر مبنی تھا۔
اگر ایک عورت ایسے امراض میں مبتلا ہو جاوے کہ اُس کی حالت قابلِ رحم ہو مگر معاشرت کے قابل نہ رہے، کوئی عورت عقیمہ ہو، جس کے سبب مرد کی خواہشِ اولاد پوری نہ ہو سکتی ہو (اور جو ایک ایسا امر ہے کہ انبیا بھی اُس کی تمنا سے خالی نہ تھے) تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ ایک بے رحمانہ طریقہ اُس سے قطع تعلق کا اختیار کیے بغیر دوسری عورت جائز نہ ہو، یا اُس کی موت کے انتظام میں مرد کو اُن امیدوں کے حاصل کرنے میں جو بہ لحاظ تمدن اُس کے لیے ضروری ہیں روکا جاوے۔یہ ایسے امور ہیں کہ بہ مقتضاے فطرتِ انسانی رک نہیں سکتے اور جب روکے جاتے ہیں تو اُس سے زیادہ خرابیوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ہاں تعددِ ازواج کے جائز رکھنے کے ساتھ اس بات کی روک ضرور تھی کہ سواے حالتِ ضرورت کے کہ وہ بھی بہ مقتضاے فطرتِ انسانی ہو، اس جواز کو خواہشِ نفسانی کے پورا کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے (جیسا کہ بعض مسلمانوں نے بنایا ہے) پس اسلام نے نہایت خوبی اور بے انتہا عمدگی سے اُس روک کو قائم کیا ہے، جہاں فرمایا’فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدۃ‘ یعنی اگر تم کو ڈر ہو کہ عدل نہ کر سکوگے تو پھر ایک ہی جورو چاہیے۔ لفظ ’إن خفتم‘ زیادہ تر غور کے لائق ہے کیوں کہ کوئی انسان ایسا نہیں ہے کہ جس کو کسی وقت اور حالت میں بھی خوفِ عدمِ عدل نہ ہو۔ پس قرآن کی رو سے تعددِ ازواج کی اجازت اسی حالت میں پائی جاتی ہے، جب کہ محل حل بہ مقتضاے فطرتِ انسانی باقی نہ رہے کیوں کہ صحیح طور سے اُسی وقت عدمِ خوفِ عدل صادق آسکتا ہے۔ ایسی حالت میں پھر اسلام نے تعددِ ازواج کو بلکہ نفسِ نکاح کو بھی لازم نہیں کیا، کیوں کہ اس مقام پر ’فانکحوا‘ صیغہ امر کا (جیسا کہ اور مفسرین بھی تسلیم کرتے ہیں) وجوب کے لیے نہیں بلکہ جواز کے لیے ہے۔
زیرِ مطالعہ سورۂ نساء کی اس آیت میں جس لفظ پر بحث ہو سکتی ہے، وہ لفظ ’عدل‘ ہے۔ علماے اسلام نے عدل کو صرف رہنے میں باری باندھنے اورنان و نفقہ دینے میں مخصوص کیا ہے اور میلِ قلبی یعنی محبت و موانست میں اور اُس امر میں جو خاص زوجیت سے متعلق ہیں عدل کو متعلق نہیں کیا، انھوں نے ایک حدیث سے اس کا استنباط کیا ہے، جس کے یہ لفط ہیں’ أن النبیﷺ کان یقسم بین نسائہ فیعدل و یقول اللہم ہذا قسمی فیما ملک فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک‘ یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم باری باندھتے تھے اپنی بیویوں میں اور عدل کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا میری یہ تقسیم ہے، جس میں میں مالک ہوں پھر تو مجھ کو ملامت مت کر اس میں جس میں تو مالک ہے اور میںمالک نہیں ہوں۔ ۔۔غرض کہ قرآن مجید سے جو حکم پایا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک جورو ہونی چاہیے، تعددِ ازواج کی اجازت اُسی وقت ہے کہ جب بہ مقتضاے فطرتِ انسانی و ضروریاتِ تمدنی کے عقل و اخلاق و تمدن اُس کی اجازت دے اور خوفِ عدمِ عدل باقی نہ رہے۔
(ماخوذ از تفسیر القرآن: 459-475بترمیم)