Tum me sabse behtar shakhs wo hai, jo apni biwi se achcha salook karta ho, Nadeem Ahmed Ansari, Al Falah Islamic Foundation, India

tum-me-sabse-behtar-wo-shak

تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے،جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہو!

ندیم احمد انصاری

ایک نہایت اہم مضمون،جس میں اکثر لوگوں سے کوتاہیاں ہوتی ہیں،خواہ عالم ہو یا جاہل،تاجر ہو یا کاشکار،متمدن ہو یا بدوی…بیویوں کے حقوق کی پامالی ہے۔اسلام میں عورت کا تصور خاندان کو تشکیل دینے والی شخصیت کی حیثیت سے ہے۔بیوی ہی ہوتی ہے جو،مکان کو گھر بناتی ہے۔انگریزی میں اسے’ہاؤس وائف (House wife)‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ،لیکن صحیح طور پر اسے ’ہوم میکر(Home maker)‘کہنا چاہیے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے نکاح کے جو مہتم بالشان مقاصد بیان کیے ہیں ،منجملہ ان کے جنسی اضطراب کی جگہ زوجین کے مابین پیار ومحبت ،مودت و الفت ،دونوں خاندانوں کے درمیان ہمدردی اورخوش گوار تعلقات کی فضا کا قیام نیز بہ حیثیت ِوالدین اولاد کے ساتھ مشفقانہ وجذباتی وابستگی وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام امور اس ایک رشتۂ نکاح کے ذریعے ہی وجود میں آتے ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں ،تاکہ تم ان کی طرف مائل ہو کر سکون حاصل کرو اور تم میں الفت ومودت پیدا کر دی،جو لوگ غور کرتے ہیں ،ان کے لیے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔‘(الروم:۲۱)

نکاح ایک نہایت پختہ عہد ہے،جس کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ نے زوجین کے درمیان ارتباط پیدا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نکاح کے بعد فریقین میںسے ہر فرد کو ’زوج‘کہا جاتا ہے،چوں کہ ہر ایک دوسرے کا جوڑ ہوتا ہے۔باری تعالیٰ نے اسی امر کی پُر حکمت تصویر کشی اس طرح کی ہے:’وہ تمہارے لیے لباس ہیں،اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘( البقرۃ:۱۸۷)اس میں لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ زوجین کو باہم الفت ومحبت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے لیے ستر پوشی کا ذریعہ بن کر رہنا چاہیے۔لباس کے مقاصد میں ایک یہ ہے کہ اس کے ذریعے پردہ حاصل ہوتا ہے ،اسی طرح میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کی عیب پوشی کا معاملہ کرنا چاہیے۔لباس کا ایک مقصد زینت حاصل کرنا بھی ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے باعثِ زینت ہونا چاہیے ،چوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوتے ہیں۔میاں بیوی کے تعلق کے یہ دوفائدے نہایت اہم ہیں ،اگر بیوی نہ ہو تو شوہر اپنے جنسی تقاضوں کی تکمیل کے لیے نہ جانے کہاں کہاں منہ مارتا پھرے ۔اس آیت سے ایک بات اور سمجھی جا سکتی ہے کہ جس طرح لباس انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، اسی طرح انسانی زندگی میں میاں بیوی ایک دوسرے کے قریب ترین ہوتے ہیں۔شوہر وبیوی ،دونوں کے حقوق مساوی ہیں،بجز ان چند باتوں کے جومردوں کے ساتھ ان کی فطرت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:’عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے،جیسے دستور کے موافق مردوں کا حق عورتوں پر ہے،البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت ہے۔‘(البقرۃ:۲۲۸)خیال رہے !اس فضیت کا مطلب ہرگزیہ نہیں کہ عورت ،مرد کی غلام ہے ،شوہر جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے،بلکہ عورت کے بالمقابل مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے،کہ وہ عورت کے حقوق کا لحاظ رکھے۔ارشادِ ربانی ہے:’مومنو!(اپنی )بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں،(تو) عجب نہیں کہ تم ایک چیزکوناپسند کرو،اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو۔‘(النساء:۱۹)یہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح ہدایت فرما دی کہ بیوی کے حقوق ،کشادہ دلی سے ادا کرتے رہنا،اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ احسان اور ایثار کی روِش اختیار کیے رہنا۔مقامِ غور ہے کہ اگر کسی پولس افسر کی بیٹی سے جب کوئی آدمی نکاح کرے اور وہ افسر اپنے داماد کو کہے کہ میری بیٹی کو ستانا مت،ورنہ میں تمہاری پکڑ کروں گا،تو وہ داماد کس حد تک سنبھل کر اپنی بیوی سے معاملہ کرے گا،لیکن یہاں تمام کائنات کا مالک کہہ رہا ہے،کہ میری اس مخلوق کے ساتھ خصوصی احسان مندی کا معاملہ کرنا…کس درجہ شرم کی بات ہے کہ ا س کے باوجود شوہر اپنی بیوی کے حقوق کی پروا نہیں کرتا!شوہر کو جب اللہ نے کچھ فضیلت عنایت فرمائی ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنا دل مزیدکشادہ رکھنا چاہیے اور چھوٹی موٹی غلطیوںسے درگزر کرتے رہنا چاہیے۔اس طرح بیوی اور بچوں میں اعتماد اور محبت کااضافہ ہوتا ہے۔حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’عورتیں،شریف شوہروں پر غالب آجاتی ہیں اور کمینے شوہربیویوں پر غالب آجاتے ہیں،میں پسند کرتا ہوں کے شریف وکریم رہوں(چاہے)مغلوب رہوں،اور میں اسے پسند نہیں کرتا کہ کمینہ اور بد اخلاق ہوکر ان پر غالب آجاؤں۔‘(روح المعانی) حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :’جو اپنی بیویوں کو ستائے،ان سے اچھے اخلاق سے پیش نہ آئے اور اللہ تعالیٰ کی سفارش کو ردّکر دے،وہ بے غیرت مرد ہے،کیوں کہ وہ (عورت)کمزور ہے،تمہارے قبضہ میں ہے،اس کے باپ اور بھائی دور ہیں۔‘رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے،جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہو،اور میں تم سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھاسلوک کرتا ہوں۔‘(ترمذی)نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے ،جو اخلاق میں بہتر ہو،اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں،جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہوں۔‘(ترمذی)رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بیویوں کے حقوق کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’خبردار ! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں ،اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدہیںاور تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو،البتہ اگر وہ کھلم کھلا کسی گناہ کی مرتکب ہوں،تو انہیں اپنے بستر سے الگ کر دو ،اور(ضرورت پڑنے پر)ان کی معمولی پٹائی کرو،پھر اگر وہ تمہاری (صحیح)بات ماننے لگیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش مت کرو الخ۔(ترمذی)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ’ اگر عورت اپنے شوہر کے کہے بغیراس کے مال میں سے کچھ اللہ کے نام پر خرچ کر دے تو یہ خرچ کرنا اس کے لیے جائزہے اور اس کا نصف ثواب اس کے شوہر کو بھی ملے گا۔‘( مسند احمد) ان احادیث سے شوہر کے مال میں عورت کا حق و اختیار دونوں ثابت ہوتے ہیں۔ ترغیباًرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’جب کوئی آدمی اپنے اہل و عیال پراللہ کا حکم پورا کرنے کی نیت سے خرچ کرتا ہے،تو اس کواس پر صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔‘(بخاری ،مسلم) آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’جو چیز قیامت میں بندے کے اعمال تولنے کے وقت ترازو میں سب سے پہلے رکھی جائیگی؛وہ اسکا اپنے اہل و عیال پر کیا ہوا خرچ ہے۔‘(الترغیب)رسول اللہﷺ نے عدل و انصاف قائم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’شوہر کے ذمے عورت کے یہ حقوق ہیںکہ جو خود کھائے وہی اپنی بیوی کو کھلائے،اپنے لیے کپڑے بنائے تو اس کے لیے بھی بنائے۔اس کے چہرے پر نہ مارے اور اسے گالیاں نہ دے۔‘(مسند احمد )رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’کوئی ایمان والا مرد کسی ایمان والی عورت کو دشمن نہ رکھے،اس لیے کہ اگر اس میں کوئی عادت ناپسندیدہ ہے تو کوئی عادت پسندیدہ بھی ضرور ہوگی۔ ‘(مسلم)ایک مرتبہ ایک صحابی اپنے غلام کی پٹائی کر رہے تھے،حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:’تجھے جتنی طاقت اس غلام پر ہے،اس سے زیادہ طاقت اللہ تعالیٰ کو تجھ پر ہے۔صحابی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے مڑ کر دیکھا،تو آپﷺ تھے۔میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ !میںاس غلام کواللہ تعالیٰ کے لیے آزادکرتا ہوں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر تم اس غلام کو آزاد نہیں کرتے،تو تمہیں جہنم کی آگ لپیٹ لیتی۔‘(مسلم)نیزحضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:’اللہ سے دو کمزوروں کے بارے میںڈرتے رہو۔(۱)غلام اور(۲)عورت۔‘(الجامع الصغیر للطبرانی)

ان سب کے باوجودبہت سے شوہر اپنی بیویوں پر یہ کہہ کر دھونس جماتے ہیں کے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :’اگر میںاللہ کے سوا کسی کو سجدہ کا حکم دیتا تو بیوی کو یہ حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘(ترمذی)سب سے پہلی بات تو یہ کہ ’اگرحکم دیتاتو‘یعنی اللہ کے رسولﷺ نے حکم دیا نہیں،اور یہ حکم خاص اللہ کی ذات کے لیے محفوظ ہے کہ اسی ذات وحدہ لا شریک لہ کو سجدہ کیا جائے۔دوسری بات اس سے یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی چیز میں شوہر کا حکم ماننے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ کسی چیز کا ارتکاب لازم آئے، تو اسے ہرگز نہیں کیاجائیگا۔اسی لیے حضرت نبی کریم ﷺ نے عورت کو یہ حکم نہیں دیا۔لیکن معاشرے میں کم از کم ہماراتو مشاہدہ ہے کہ کسی مرد کو نکاح اور ازدواجی زندگی سے متعلق کوئی بات اور مسئلہ معلوم ہو یا نہ ہومذکورہ بالا حدیث ہر ایک کی زبان پر رہتی ہے،اور اس ایک حدیث کے علاوہ اس سلسلہ کی دیگر جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں،ان کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ کے ہمارا گھر ہر وقت لڑائی جھگڑوں اور ناچاکیوں سے اٹا رہتا ہے۔بعض لوگ ذرا ذرا سی بات پر بیویوں پر ہاتھ اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں،جب کہ حضرت نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو نوکروں کی طرح نہ مارے۔افسوس ہے اس شخص پر جوایک وقت میں تو اپنی بیوی کو اس طرح مارے اور دوسرے وقت میں اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔‘(بخاری،مسلم)خیال رکھنا چاہئے کہ آخر وہ بھی انسان ہی ہے اور انسانی مزاج آپس میں کچھ نہ کچھ تو مختلف ہوتے ہی ہیں،پھر کیسے ممکن ہے کہ اس کی ہر بات ہمارے مزاج کے موافق ہو؟حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ:’اللہ کے رسولﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کبھی کسی کو نہیں مارا،سوائے اللہ کے راستے میں جہاد کے وقت۔آپ نے کبھی کسی غلام کو مارا نہ کسی بیوی کو۔‘(مسلم)رسول اللہﷺ نے تو ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہنے کی تعلیم دی ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’کھانے کا وہ لقمہ،جوکوئی شوہرمحبت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں رکھے،وہ بھی صدقہ(کاثواب رکھتا)ہے۔‘(بخاری، سنن دارمی ،ترمذی)بعض اپنی بیویوں کو گالیاں دیتے ہیں،اس سے بھی رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایاہے کہ’کسی بھی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کر ڈالنا کفر ہے۔‘ (بخاری،مسلم)

برادرانِ اسلام ! عورت وبیوی کا مسئلہ انتہائی نازک ترین اور اہم ترین ہے ،اس پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضروت ہے ۔ہماری بے التفاتی اور کوتاہیوں کی وجہ سے آج دشمنانِ اسلام بڑی چالاکی سے اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور اسلامی نظریات کے سلسلے میں لوگوں کے دل ودماغ میں شکوک وشبہات پیدا رکنے کی کوشش کرتے ہیں۔آج احتیاط وحقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام اور تعلیماتِ اسلام دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضروت ہے ۔اصل بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ عورت بھی مرد ہی کی طرح اللہ کی بنائی ہوئی ایک مخلوق ہے نہ کہ محض مرد کی خدمت کرنے والی کوئی مشین۔اگر اس کے ان حقوق کو اعتدال کے ساتھ ادا کیا جائے تویہ ازدواجی زندگی بہت ہی خوشی اور مسرت کے ساتھ گزاری جاسکتی ہے، ورنہ تو ڈر ہے کہ بیوی کی حق تلفی کرنے والاشوہر دنیا میں قانون اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور رسوا ہو۔وما توفیقی الا باللہ

[email protected]

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here