درجن بھر کتابوں،تقریباً سو رسائل اور مختلف موضوعات پر پانچ سو مضامین کے مصنف: ندیم احمد انصاری
فیضان شیخ
ندیم احمد انصاری صاحب بتاتے ہیں کہ میری ولادت ایسے گھرانے میں ہوئی جس کی کوئی اہم تاریخ نہیں، لیکن خدا کے فضل سے حساس اور نہایت شفیق والدین نے ہمیشہ حوصلہ دیا۔ ہندی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی، پہلی دوسری کلاس سے ہی ہمیشہ فرسٹ آتے تھے ، چوتھی تک آبائی وطن بجنور میں تعلیم حاصل کی، ممبئی میں ابتدائی تین سال یعنی پانچویں، چھٹی ساتویں میونسپل اسکول میں رہے اور آٹھویں نویں درجے میں تھے کہ گھر کے معاشی حالات ناسازگار ہوگئے ، پھر بھی آپ نے ہمت باندھے رکھی اور شیٹھ آنندی لال پودار( سانتاکروز) سے ایس ایس سی میں دسواں ہی سہی اسکول کے ٹاپ ٹین میں مقام حاصل کیا۔ اس کے بعد مٹھی بائی کالج(وِلے پارلے ) میں الیکٹرانکس،ووکیشنل کورس سے بارھویں پاس کرنے کے بعد فادر ایگنل ٹیکنکل کالج(باندرہ) سے کمپوٹر ہارڈ ویئر انجینئرنگ فرسٹ کلاس سے پاس کیا۔
والدہ نے شروع سے دینی تربیت کی تھی، کئی پارے حفظ کر لیے ، دینی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے اور کالج کی تعلیم کے دوران ہی نماز و روزے کے احکام و مسائل پر زورِ مطالعہ سے مستقل تصنیف منصۂ شہود پر آگئی، جس پر اکابر علما نے قدر کا اظہار کیا اور مفتیِ اعظم گجرات مفتی احمد خانپوری کی خصوصی توجہات حاصل ہوئیں اور انھوں نے اپنے پاس رکھ کر اپنے بڑے صاحب زادے سے عربی شروع کروا دی۔ آتشِ شوق بڑھتی رہی اور فقہ، حدیث اور تفسیر کی اہم کتابیں پڑھ ڈالیں اور 2008ء میں مفتی عزیز الرحمن فتحپوری(مفتیِ اعظم مہاراشٹر)،مولانا محمد اسلام قاسمی (استاذِ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند) اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی(جنرل سکریٹری فقہ اکیڈمی، انڈیا) وغیرہ کی سرپرستی میں ’الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جہاں سے مختلف دینی موضوعات پر علمی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں۔ اب تک نمازِ محمود، صومِ محمود، شبِ محمود، نمازِ تراویح، تعلیمِ اسلام اور مومن اور اسلامی سال کے نام سے متعدد چیزیں طبع ہو چکی ہیں جب کہ قرآنیات، رسائلِ ابن یامین، رسائلِ محمودیہ ، ذوقِ ادب، حیاتِ میرٹھی جیسی درجنوں کتابیں زیرِ طبع ہیں اور تقریباً سو دینی و علمی رسالے اور مذہبی، ملی، ادبی و سماجی موضوعات پر تقریباً پانچ سو مضامین تصنیف کر چکے ہیں جو کہ ہند و بیرونِ ہند مؤقر اخبارات و جرائد؛ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ندائے دارالعلوم دیوبند وقف، روزنامہ انقلاب، سہارا، اردوٹائمز، متاعِ آخرت، ممبئی اردو نیوز وغیرہ وغیرہ میں سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔
آپ کے ایک بڑے بھائی جسمانی طور پر معذور ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے مستقل علیل چل رہے ہیں، ایسے میں آپ نے اپنے بوڑھے والدین کی ذمہ داری بھی اٹھا رکھی ہے ،آپ شبینہ مکتب بھی چلاتے ہیں جس میں تعلیمِ بالغان کا مکمل نظام ہے ۔اس کے علاوہ پرائیویٹ کلاسیس میں گارھویں بارھویں کی جماعت کو ہندی و اردو کا مضمون بھی پڑھاتے ہیں اور خود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ نے رضوی کالج(باندرہ) سے سماجیات اور اردو میں بی کرنے کے بعد ممبئی یونیورسٹی(کالینا)سے ایم اے میں ٹاپ کیا ہے اور وہاں شعبۂ اردو کے زیرِ اہتمام جاری ڈی ٹی پی کورس بھی کیا اور ڈسٹکنشن کے ساتھ صحافت میں ڈپلومہ کورس کی بھی تکمیل کی۔ایم فل کے لیے ایسے موضوع کا انتخاب کیا جس پر 75 سالوں سے کسی نے توجہ نہیں کی اور خیر و خوبی کے ساتھ حال ہی میں اس مقالے کی تکمیل کر لی، آگے پی ایچ ڈی کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس طرح آپ کی زندگی میں دوسروں کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں جسے علم کا چسکا لگ گیا ہو اس کی راہیں کبھی مسدود نہیں ہو تیں۔