انتخابات میں ووٹ کی اسلامی حیثیت-1، مفتی محمد تقی عثمانی

 (1)انتخابات میں ووٹ کی اسلامی حیثیت
افادات: مفتی محمد تقی عثمانی
تہذیب: مولانا ندیم احمد انصاری
موجودہ دور کی گندی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بد نام کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ مکر و فریب، جھوٹ، رشوت اور دغابازی کا تصور لازمِ ذات ہو کر رہ گیا ہے، اس لیے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے، اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکش اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے معاشرے کے اندر چند در چند غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں‘ یہاں ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔
اپنے ووٹ کو استعمال کرنا شرعاً ضروری
پہلی غلط فہمی تو سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے‘ اس کا منشا اتنا برا نہیں، لیکن نتائج بہت برے ہیں۔ وہ غلط فہمی یہ ہے کہ آج کی سیاست مکر و فریب کا دوسرا نام بن چکی ہے، اس لیے شریف آدمیوں کو نہ سیاست میں کوئی حصہ لینا چاہیے، نہ الیکش میں کھڑا ہونا چاہیے اور نہ ووٹ ڈالنے کے خرخشے میں پڑا چاہیے۔یہ غلط فہمی خواہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ پیدا ہوئی ہو، لیکن بہ ہر حال غلط اور مُلک و مِلّت کے لیے سخت مضر ہے۔ ماضی میں ہماری سیاست بلا شبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف سُتھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے، اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا، اور پھر ایک نہ ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں تک پہنچ کر رہے گی۔ لہٰذا عقل مندی اور شرافت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سیاست کی اس گندگی کو دور دور سے بُرا کہا جاتا رہے، بلکہ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی جائے، جو مسلسل اسے گندا کر رہے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الناس اذا راؤ الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أو شک أن یعمھم اللّٰہ بعقاب۔(جمع الفوائد:2/51بحوالہ ابوداؤد و ترمذی)
اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں۔
اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے اور انتخابات میں سرگرم حصّہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے، تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بہ جائے ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔
ایک ایک ووٹ کی قدر و قیمت
بہت سے دین دار لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنا ووٹ استعمال نہیں کریں گے، تو اس سے کیا نقصان ہوگا؟ لیکن سنیے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کیا ارشاد فرماتے ہیں؟
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ’مسند احمد‘ میں روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من اُذن عندہٗ مؤمن فلم ینصرہ وھو یقدر علی أن ینصرہ أذن اللّٰہ علی رؤوس الخلائق۔(ایضاً:2/51)
جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جا رہا ہو اور وہ اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود مدد نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے میدان میں) بر سرِ عام رسوا کرے گا۔
ووٹ نہ دینا‘ حرام
شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے اور جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام اور ناجائز ہے، اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا حرام ہے۔قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:
ولا تکتموا الشہادۃ ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ۔(البقرۃ:283)
اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو شخص گواہی کو چھپائے، اس کا دل گناہ گار ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من کتم شہادۃ اذا دُعی الیھا کان کمن شھد بالزور۔(جمع الفوائد بحوالہ طبرانی:1/62)
جس کو شہادت کے لیے بلایا جائے، پھر وہ اسے چھپائے، تو وہ ایساہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا۔
بلکہ گواہی دینے کے لیے تو اسلام نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان یہ فریضہ ادا کر دے، اور اس میں کسی کی دعوت یا ترغیب کا انتظار بھی نہ کرے۔
حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بخیر الشھداء الذی یأتی بشھادتہ قبل أن یسألھا۔(ایضاً:1/261، بحوالہ مالک و مسلم وغیرہ)
کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ [بہترین گواہ]وہ شخص ہے، جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کر دے۔
ووٹ بھی بلاشبہ ایک شہادت ہے، قرآن و سنت کے یہ تمام احکام اس پر بھی بھی جاری ہوتے ہیں، لہٰذا ووٹ کو محفوظ رکھنا‘دین داری کا تقاضا نہیں، اس کا زیادہ سے زیادہ صحیح استعمال کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
لمحۂ فکریہ
یوں بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر شریف، دین دار اور معتدل مزاج کے لوگ انتخابات کے تمام معاملات سے بالکل یک سٗو ہو کر بیٹھ جائیں، تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ یہ پورا میدان شریروں، فتنہ پردازوں اور بے دین افراد کے ہاتھوں میں سونپ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کبھی بھی یہ توقّع نہیں کی جا سکتی کہ حکومت نیک اور اہلیت رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں آئے۔ اگر دین دار لوگ سیاست سے اتنے بے تعلق ہو کر رہ جائیں تو پھر اُنھیں مُلک کی دینی اور اخلاقی تباہی کا شِکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا، کیوں کہ اس کے ذمّے دار وہ خود ہوں گے اور ان کے حکّام کا سارا عذاب و ثواب اُن ہی کی گردن پر ہوگا، اور خود ان کی آنے والی نسلیں اس شر و فساد سے کسی طرح محفوظ نہیں رہ سکیں گی، جس پر بند باندھنے کی اُنھوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔
انتخابات خالص دنیوی معاملہ نہیں
انتخابات کے سلسلے میں ایک دوسری غلط فہمی پہلی سے زیادہ سنگین ہے‘ چوں کہ دین کو لوگوں نے صرف نماز، روزے کی حد تک محدود سمجھ لیا ہے، اس لیے سیاست و معیشت کے کاروبار کو وہ دین سے بالکل الگ تصوّر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے معاملات دین کی گرفت سے بالکل آزاد ہیں، چناں چہ بہت سے لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اپنی نجی زندگی میں نماز، روزے اور وظائف و اوراد تک کے پابند ہوتے ہیں، لیکن نہ اُنھیں خرید و فروخت کے معاملات میں حلال و حرام کی فکر ہوتی ہے، نہ وہ نکاح و طلاق اور برادریوں کے تعلّقات میں دین کے احکام کی کوئی پروا کرتے ہیں۔ایسے لوگ انتخابات کو بھی ایک خالص دنیوی معاملہ سمجھ کر اس میں مختلف قسم کی بد عنوانیوں کو گوارا کر لیتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہوا ہے، چناں چہ بہت سے لوگ اپنا ووٹ اپنی دیانت دارانہ رائے کے بہ جائے محض ذاتی تعلّقات کی بنیاد پر کسی نااہل کو دے دیتے ہیں، حالاں کہ وہ دل میں خوب جانتے ہیں کہ جس شخص کو ووٹ دیا جا رہا ہے‘ وہ اس کا اہل نہیں یا اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا شخص اس کا زیادہ حق دار ہے، لیکن صرف دوستی کے تعلق، برادری کے رشتے، یا ظاہری لحاظ و مروّت سے متاثر ہو کر وہ اپنے ووٹ کو غلط استعمال کر لیتے ہیںاور[اُنھیں] کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ شرعی و دینی لحاظ سے اُنھوں نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
ووٹ ایک شہادت
جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے ہے کہ ووٹ ایک شہادت ہے اور شہادت کے بارے میں قرآنِ کریم کا ارشاد یہ ہے:
واذا قلتم فاعدلوا ولو کان ذا قربیٰ۔(الانعام:152)
اور جب کوئی بات کہو تو انصاف کرو، خواہ وہ شخص (جس کے خلاف بات کہی جا رہی ہے) تمھارا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔
ووٹ کے غلط استعمال کی مذمّت
لہٰذا جب کسی شخص کے بارے میں ضمیر اور دیانت کا فیصلہ ہو کہ جس شخص کو ووٹ دے رہے ہو‘ وہ ووٹ کا مستحق نہیں ہے، یا کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلے میں زیادہ اہلیت رکھتا ہے، تو اس وقت محض ذاتی تعلّقات کی بِنا پر اسے ووٹ دے دینا ’جھوٹی گواہی‘ کے ذیل میں آتا ہے، اور قرآنِ کریم میں جھوٹی گواہی کی مذمّت اتنی شدّت کے ساتھ کی گئی ہے کہ اُسے بُت پرستی کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے۔ارشاد ہے:
فاجتنوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور۔(الحج:30)
پس تم پرہیز کرو بتوں کی نجاست سے اور پرہیز کروجھوٹی بات کہنے سے۔
اور حدیث شریف میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدّد مواقع پر جھوٹی گواہی کو ’اکبر الکبائر‘ میں شمار کر کے اس پر سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اکبر الکبائر (بڑے بڑے گناہ) نہ بتاؤں؟ [پھر آپ نے ارشاد فرمایاکہ] اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا[بڑ ے بڑے گناہوں میں سے ہے]، ااور خوب اچھی طرح سنو! جھوٹی گواہی! جھوٹی بات! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے بیٹھے تھے، جب جھوٹی گواہی کا ذکر آیا تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور ’جھوٹی گواہی‘ کا لفظ بار بار ارشاد فرماتے رہے، یہاں تک کہ ہم دل میں کہنے لگے کہ کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔ (بخاری و مسلم، جمع الفوائد:2/162)
خیانت پر مواخذہ
یہ وعیدیں تو صرف ووٹ کے اس غلط استعمال پر صادق آتی ہیں جو محض ذاتی تعلّقات کی بنا پر دیا گیا ہو، اور روپے پیسے لے کر کسی نا اہل کو ووٹ دینے میں جھوٹی گواہی کے علاوہ رشوت کا عظیم گناہ بھی ہے، لہٰذا ووٹ ڈالنے کے مسئلے کو ہرگز یوں نہ سمجھا جائے کہ یہ ایک خالص دنیوی مسئلہ ہے، اور دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یقین رکھیے کہ آخرت میں ایک ایک شخص کو اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے دوسرے اعمال کے ساتھ ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے کہ اس نے اپنی اس ’شہادت‘ کا استعمال کس حد تک دیانت داری کے ساتھ کیا ہے۔
نااہل کو ووٹ دینا شدید تر گناہ
بعض حضرات یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر نااہل کو ووٹ دینا گناہ ہے تو ہم کون سے پاک باز ہیں؟ہم صبح سے لے کر شام تک بے شمار گناہوں میں ملوّث رہتے ہیں۔ اگر اپنے گناہوں کی طویل فہرست میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ یہ نفس و شیطان کا سب سے بڑا دھوکہ ہے، اول تو انسان اگر ہر گناہ کے ارتکاب کے وقت یہی سوچا کرے تو وہ کبھی کسی گناہ سے نہیں بچ سکتا، اگر کوئی شخص تھوڑی سی گندگی میں ملوث ہو جائے، تو اس کو اس سے پاک ہونے کی فکر کرنی چاہیے، نہ کہ وہ غلاظت کے کسی تالاب میں چھلانگ لگا دے۔
دوسری بات یہ ہے کہ گناہ گناہ کی نوعیتوں میں بھی بڑا فرق ہے، جن گناہوں کے نتائجِ بد پوری قوم کو بھگتنے پڑیں، ان کا معاملہ پرائیویٹ گناہوں کے مقابلے میں بہت سخت ہے۔ انفرادی نوعیت کے جرائم، خواہ اپنی ذات میں کتنے ہی گھناونے اور شدید ہوں، لیکن ان کے اثرات دو چار افراد سے آگے نہیں بڑھتے، اس لیے ان کی تلافی بھی عموماً اختیار میں ہوتی ہے، ان سے توبہ و استغفار کر لینا بھی آسان ہے اور ان کے معاف ہوجانے کی امید بھی ہر وقت کی جا سکتی ہے، اور اس کے بر خلاف جس گناہ کا برا نتیجہ مُلک اور پوری قوم نے [کو] بھگتنا ہو، اس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں، یہ تیر کمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آسکتا، اس لیے اگر کسی وقت انسان‘ اس بد عملی آیندہ کے لیے توبہ کر لے تو کم از کم ماضی کے جرم سے عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے، اور اس کے عذاب سے رہائی کی امید بہت کم ہے۔
اس حیثیت سے یہ گناہ چوری، ڈاکہ، زناکاری اور دوسرے تمام گناہوں سے شدید تر ہے، اور اسے دوسرے جرائم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ ہم صبح و شام بیسیوں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں، مگر [وہ]سب گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت توبہ کی توفیق بخشے تو معاف بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی تلافی بھی کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنی گردن ایک ایسے گناہ میں بھی پھنسا لیں جس کی تلافی ناممکن اور جس کی معافی بہت مشکل ہے۔
ایک ایک ووٹ کی اہمیت
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ لاکھوں ووٹوں کے مقابلے میں ایک شخص کے ووٹ کی کیا حیثیت ہے؟ اگر وہ غلط استعمال بھی ہو جائے تو ملک و قوم کے مستقبل پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے؟لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ اول تو اگر ہر شخص ووٹ ڈالتے وقت یہی سوچنے لگے تو ظاہر ہے کہ پوری آبادی میں کوئی ایک ووٹ بھی صحیح استعمال نہیں ہو سکے گا، پھر دوسری بات یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کا جو نظام ہمارے یہاں رائج ہے‘ اس میں صرف ایک ان پڑھ، جاہل شخص کا ووٹ بھی ملک و ملت کے لیے فیصلہ کُن ہو سکتا ہے، اگر ایک بے دین، بد عقیدہ اور بد کردار امیدوار کے بیلٹ بکس میں صرف ایک ووٹ دوسروں سے زیادہ چلا جائے، تو وہ کامیاب ہو کر پوری قوم پر مسلّط ہو جائے گا۔ اس طرح بعض اوقات صرف ایک جاہل اور ان پڑھ انسان کی معمولی غفلت، بھول چوک یا بد دیانتی بھی پورے ملک کو تباہ کر سکتی ہے، اس لیے مروجہ نظام میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہے اوریہ ہر فرد کا شرعی، اخلاقی، قومی اور ملّی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو اتنی ہی توجہ اور اہمیت کے ساتھ استعمال کرے، جس کا وہ فی الواقع مستحق ہے۔

(جاری)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here