(خاکہ)
برادرِ اکبر
ندیم احمدانصاری
گھر کے پانچ بچّوں میں میرا نمبر پانچواں ہے اور برادرِ اکبر محمد خالد انصاری تیسرے نمبر پر تھے ، لیکن کبھی کوئی مزاحاً بھی اُنھیں بِچولیہ کہہ دیتا تو اُنھیں برداشت نہ ہوتا۔ جس کسی نے میرے بھائی کو صحت کے زمانے میں دیکھا ہوگا، وہ بہ خوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانے میں بھی سیدھا سادا آدمی ہوتا ہے ، اور کیسا ہوتا ہے ۔ بسترِ علالت پر چھ آٹھ سال مستقل رہنے کے بعد تو انھیں اپنی زیست کا بھی خیال نہ رہا تھا، ورنہ شاید میری نظروں نے ان سے سادا انسان واقعی نہیں دیکھا۔ ۲۰۱۷ء کے پہلے اتوار کو اُنھوں نے اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کیا، اور اس زمانے میں بھی وہ اسمارٹ فون، واٹس ایپ، فیس بک تو کجا دسویں بارھویں تک تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یہ تک نہ جانتے تھے کہ موبائل فون میں نمبر کس طرح محفوظ کیا جاتا ہے یا موبائل فون کو فی زمانہ دیگر کن کاموں میں عام طور سے استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس لیے کہ لہو و لعب میں وقت گزارنا اُنھیں پسند نہیں تھا۔
اُنھیں دنیاداروں سے کوئی بیر تھا نہ رغبت، گھر میں ہوتے تو اکثر امّی سے باتیں کرتے رہتے ، یا میرے کتابوں کے ڈھیر میں سے کچھ اٹھا کر پڑھ لیتے ،مسجد جاتے تو وہاں بھی تلاوت و نماز میں وقت گزارتے ۔ متبرک دن اور راتوں میں ان کا ذوقِ عبادت مزید بڑھ جایا کرتا تھا،جو ہم جیسوں کے لیے رشک کا باعث ہوتا ۔ہاںکہیں آتے جاتے کوئی شناسا مل جاتا تو علیک سلیک کے بعد ہی اسے چھوڑتے اور خیر خیریت پوچھے اور بتائے بغیر کسی کو گزر جانے دینا ان کی خو میں نہیں تھا۔اس سب کے باوجود میں نے انھیں کسی کی غیبت کرتے ہوئے نہیں سنا، جب کہ ان کے ساتھ لوگوں نے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ بعض جاہل تو ان کی سادہ مزاجی کے سبب اگلی صفوں سے پیچھے بھی بھیج دیا کرتے کہ ان کے ہاتھوں کی کمزوری کے باعث ان کے اُجلے کپڑے جلد مَیلے ، اور سر پر رکھی ٹوپی بھی گھوم جایا کرتی تھی،جسے دنیا کے عقل مند ان کی کم عقلی یا کم دماغی پر محمول کرتے ، اور محمود و ایاز کے ساتھ فی زمانہ جو ہوتا ہے ، وہی صورت یہاں بھی رو نما ہوجاتی،جب کہ خدا نے انھیں عقل و خرد سے وافر حصّہ عطا کیا تھا اور قرآن مجید کی متعدد بڑی سورتوں کے ساتھ ایسی ایسی باتیں ان کے ذہن و دماغ میں محفوظ تھیں، جن پر وہ ہمیں بھی برجستہ لقمہ دیا کرتے تھے ۔اب اس صنوان اور وزیراً من اھلی کے جاتے رہنے سے کمرکی مضبوطی کے چلے جانے کا جو شدید احساس ہے ، اسے صفحۂ قرطاس نہیں کیا جا سکتا۔
امّی بتاتی ہیں کہ وہ ایک سال سے کچھ زائد تھے کہ فیٹ کا دور دورہ ہوا، جس نے ان کی حالت کچھ ایسی کر دی کہ دادی مرحومہ نے کہہ دیا کہ لَونڈا(شہرِ بجنور کی زبان میں) گیا کام سے ۔ امّی تو امّی تھیں، یہاں وہاں بھاگیں، دعا، تعویذ اورعلاج سب کیا اور خدا نے جان بخش دی، اس کے بعد تیس سال سے زائد عرصے تک وہ سینۂ گیتی پر وہ دوڑتے اور چلتے پھرتے رہے ، ہاں آخری سالوں میں امراض نے پھر جس طرح ان پر دھاوا بولا، اس سے جاں بر نہ ہو سکے ۔ آخری دس مہینے تو زندہ لاش کی طرح گزارے کہ دیکھنے والوں کو ترس آتا، حالت یہ تھی کہ بدن پر بیٹھی مکھی بھی اُڑانے سے قاصر ہو گئے ، جس کے سبب اکثر ضرورتیں بستر پر ہی پوری کی جانے لگیں۔
عروس البلاد یعنی شہرِ ممبئی میں اُنھیں ذاتی مکان میں رہنے کا سُکھ کبھی نہیں ملا، کرایے کے مکانات تبدیل کرنے میں جب تک ہاتھوں میں جان رہی برابر میرا ساتھ دیتے ، بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ، لیکن جس مکان میں ان کا انتقال ہوا اس کی شفٹنگ سے قبل ہی ان کے ہاتھ جواب دے چُکے تھے ، لیکن آئے تھے وہ اپنے پاؤں پر چل کر۔ اس مکان میں وہ تین چار برس تک زندہ رہے ، دو دفعہ رمضان کے مہینے میں ایک ایک عشرہ سرکاری اسپتال کی نذر ہوا، لیکن امید نے اپنا دامن ہاتھ نہ آنے دیا۔ابتداء ً گھر کے دوسرے افراد کی طرح زمین پر ہی ان کا بستر لگتا، پھراُن کی لاچارگی نے ایک لوہے کے پلنگ کا انتظام کرنے پر مجبور کیا، جو میرے کام اور پڑھائی کی جگہ کے ٹھیک سامنے تھا، کہ اُن کی ہر ایک آہ و کراہ پر جھانکتا اور دل ہی دل میں دعا کرتا رہتاکہ مولیٰ ان صعوبتوں سے اُنھیں اور ہمیں عافیت کے ساتھ نجات اور آسانی و خیر کا معاملہ فرما۔
جس دن برادرِ اکبر نے آخری سانس لی، اس دن ظہرانے سے فراغت پر اُنھیں امّی کی مدد سے بیڈ پر لٹا کر میں قیلولہ کی کوشش کر رہا تھا، کہ کچھ لمبے سانسوں کے بعد ایک طویل خاموشی پورے گھر میں بکھر گئی۔ایک آدھ گھنٹے تک تو یہ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ واقعی عزرائیل نے مکان میں ورود کیا، لیکن آس پڑوس کے لوگوں کے کہنے پر ماننا پڑا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند گھنٹوں کے اندر مَنوں مٹی تَلے انھیں اپنے ہاتھوں سے سُلا دیا، لیکن اب تک دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جس بھائی سے محبتوں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے تقریباً پچیس سال گزار دیے ، اب وہ ہمارے بیچ نہیں رہا۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا!
برادرِ اکبر کی جس سادگی کا میں نے ذکر کیا، اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انھوں نے دنیا کے کسی کام کو کبھی چھوٹا نہیں سمجھا، تعلیمی لیاقت بہت نہ تھی، اس پر سادہ مزاجی کے سبب سڑک پر گاڑیاں بھی دھوئیں، بیلٹ وغیرہ بھی بیچے ،واچ مینی بھی کی،اور مسجد میں جھاڑو بھی لگائی، لیکن ان کے جسمِ خاکی نے ساتھ نہیں دیا، اس لیے کوئی کام وہ تسلسل سے نہیں کر سکے ۔اُنھیں غصّہ بھی بہت آتا تھا، کبھی تو خیال ہوتا ہے کہ ناک پر غُصّہ رکھا ہونا،یہ محاورہ ان ہی جیسوں کے لیے موزوں ہوا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ تیکھا بہت کھاتے تھے اور ہری چٹنی ان کی فیوریٹ ڈِش تھی۔ بچپن میں تو چھپ چھپا کر لال مرچ میں نمک مِکس کرکے جیب میں ڈال لیتے اور وقفے وقفے سے انگلی کے سہارے مزے لیتے رہتے ۔اس کے سوا دنیا کی کسی مہنگی چیز کا ہم نے انھیں شوق پالے نہیں دیکھا،جو گھر میں پک جاتابہ رضا و رغبت تناول کرلیتے ۔ ویسے بھی مرحومین کے عیبوں کو ذکر کرنے سے منع کیا گیا ہے ، لیکن اُس نیک بندے کا کوئی عیب اتنے دنوں کی رفاقت کے باوجود مجھے یاد نہیں۔ ان کی بہت اچھی عادت یہ بھی تھی کہ کسی بات پر آج نوک جھونک ہوجاتی، تو کل آکر وہ ہم کلام ہو جاتے ۔ان کی زندگی کا سب سے خوب صورت پہلو یہی ہے کہ کسی سے جھگڑا ہونے کے بعد بھی جھگڑنے والے کے لیے انھوں نے کبھی دل میں کینہ نہیں رکھا اور اپنے سینے کو ان غلاظتوں سے پاک و صاف لیے ہوئے اس دنیا کو رخصت ہوئے ، جو یقیناً بڑی سعادت اور بڑا کمال ہے ۔
جب تک زبان نے ساتھ دیا وہ فون پر اپنے جاننے والوں سے رابطہ کر لیا کرتے ، لیکن ان کی خیریت پوچھنے کے لیے کم لوگوں نے زحمت گوارا کی بلکہ فون پر بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی، جس نے دنیا کی بے وفائی کا نقش میری نظروں میں بہت ابھار دیا۔تلاطم خیز یادوں کی انتہا نہیں۔۔۔برادرِ اکبر کا ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ گھر والوں کے لیے بھی ان کی بات سمجھنا مشکل ہو گیا، اور امّی کئی کئی دفعہ میں کوشش کرکے ان کی بات سمجھتیں اور ضرور کی تکمیل کرتیں۔
برادرِ اکبر نے حسن و رنگینی کی اس دنیا میں کبھی کسی لڑکی سے معاشقہ تو دور،اس نظر سے کسی کو دیکھا بھی نہیں، بلکہ میں نے بہت یاد کرنے کے بعد خیال ہوتا ہے کہ انھیں کبھی اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے نہیں پایا گیا۔ نکاح کی عمر کو پہنچنے پر تو وہ ایسے بیمار ہوئے کہ اس لائن سے ایمان کی تکمیل کی نوبت نہ آسکی، لیکن اپنے خالق پر ان کا ایمان ہم جیسوں سے بہت پختہ تھا۔میرا ایقان ہے کہ انھوں نے زندگی میں بہاریں کم دیکھیں، لیکن کَل وہ اجرِ عظیم کے مستحق ہوں گے ۔
ان کی تکلیف سے کبھی گھر میں تکلیف کی فضا عام ہو جاتی، جسے دور کرنے کے لیے باوجود سنجیدہ کاموں میں لگے ہونے کے میں نے خواہی نہ خواہی ہمیشہ چہکتے رہنے اور ہلکے پھلکے مزاح کی عادت ڈال لی، وہ ان باتوں سے جس طرح خوش ہوا کرتے ، مسکراتے اور ہنستے تھے ، آج ان کی وہ پیاری تصویر آنکھوں کو نم کر رہی ہے ۔بات یہ ہے کہ آخر آخر میں ان کا دل بہت نرم و کمزور ہو گیا تھا، اچانک دروازہ کھل جانے پر، کوئی برتن گر جانے پر یا کوئی بھی ذرا تیز آواز کان میں پڑنے سے وہ ہِل جاتے اور ذرا غم کی بات سن کر رونے لگتے تھے ، لیکن اب وہ کبھی نہیں روئیں گے ، اس لیے کہ وہ ان سب جھمیلوں سے نجات پا چکے ہیں، خدا اپنے یہاں انھیں ہمیشہ مسکراتا رکھے !
[email protected]
Home Dept of Islamic Studies Articles Khaka “Biradar-e-Akbar”, Khalid Ansari, Nadeem Ahmed Ansari, Al Falah Islamic Foundation, India