وندے ماترم کو لے کر دیش بھکتی کے ٹھیکے داروں کی گنڈہ گردی
ندیم احمد انصاری
آج کل وطنِ عزیز ہندستان میں جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور شر پسند عناصر اس تگ و دو میں ہیں کہ موقع ملتے ہی بات کا بتنگڑ بنا دیں۔ان حالات میں ملک کی سالمیت چاہنے والے تمام سیکولر ہندو اور مسلمانوں کی ذمّے داری بنتی ہے کہ جو کچھ کریں سوچ سمجھ کر کریں۔ اس وقت جہاں عوام کے کھانے پینے کی اشیا تک پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، وہیں دیش بھکتی کے نام پر سیکولرزم کو تار تار کرنے والوں کو کھلے سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ انھیں دستورِ ہند کی پروا ہے نہ قانون کی۔ ان کا کام صرف ماحول کو مسموم کرنا ہے ، جس میں وہ تن دہی سے لگے ہوئے ہیں۔نوٹ بندی، گوشت بندی اور سیکور افراد کی زبان بندی کے بعد اب لگنے لگا ہے کہ ملک ہندستان سے بندستان بن گیا ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ ان حالات میں ہمت ہار کر میدان چھوڑ دینا تو شرپسند عناصر کو چھوٹ دینا ہوگا، اس لیے کہ اس وقت ضرورت مزید حوصلے و خاطر کو جمع کرنے اور اتحاد و حکمتِ عملی کے ساتھ کام کرنے کی ہے ، یہی وہ راستہ ہے جس سے باطل طاقتوں کے سازشوں کو ناکام کیا جا سکتاہے ۔یہ درست ہے کہ اس وقت ہندستان کے مسلمانوں کو ایک طرف مسلم پرسنل لا کو لے کر الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، تو دوسری طرف بابری مسجد جیسے حسّاس ترین مسئلے میں لگایا جا رہا ہے ، لیکن باطل طاقتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حالات سے خوف زدہ ہونا ان کے خو میں ہے نہ خون میں۔ویسے ان حالات نے مسلم قائدین کی ذمّے داری کئی گنا بڑھا دی ہے کہ ان کے چشم و ابرو کے اشارے پر قوم کا مستقبل ٹکا ہوا ہے ۔
مسائل تو بہت ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ، اس وقت ہمارے پیشِ نظر وہی ایک پرانا مسئلہ ہے جسے ایک بار پھر ہوا دی گئی ہے ۔ خبر ہے کہ میرٹھ کے مئیر اور بی جے پی لیڈر ہری کانت اہلووالیہ نے ایک تاناشاہی فرمان جاری کرتے ہوئے میونسپل کارپوریشن کے تمام کونسلروں کے لیے وندے ماترم گانے کو ضروری قرار دے دیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو کوئی وندے ماترم نہیں گائے گا، اسے کارپوریشن میٹنگ روم میں گھسنے یا میٹنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جس پر میونسپل کارپوریشن میں سے کچھ مسلم کونسلر نے اس فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے اس حکم کا حوالہ پیش کیا ہے جس میں وندے ماترم گانے کو لازمی قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود اہلووالیہ اپنے فرمان پر مُصر ہیں، گویا انھوں نے سپریم کورٹ کے اس حکم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔دراصل بات یہ ہے کہ اس وقت میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کی اکثریت ہے ،جس کے پیشِ نظر ایک مسلمان کونسلر کا کہنا ہے کہ ہمیں بہت برا لگا ہے ، اس لیے کہ ہمارے بھی باپ دادا نے ملک کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، اس سب کے بعد اس طرح کی تاناشاہی درست نہیں ہے ۔
یاد رہے ،جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ وندے ماترم کو لے کر یہ کوئی پہلا تنازعہ نہیں ہے ، اس سے پہلے بھی انیس سو اٹھانوے( 1998ء) میں جب ریاست میں کلیان سنگھ کی حکومت تھی تو انھوں نے وندے ماترم اور سرسوتی وندنا کو سرکاری پرائمری اسکولوں میں گانے کو لازمی قرار دے دیا تھا، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھااور اس کے بعد انھیں اپنے اس قدم کو پیچھے لینا پڑا تھا۔اس کے بعد بھی ماضی قریب میں متعدد مرتبہ وندے ماترم کو ایشو بنا کر مسلمانوں کو مطعون کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ، گویا اس ترانے کے بغیر کسی کی دیش بھکتی کی تکمیل ہو ہی نہیں سکتی۔
ہم اس موقع پر صرف اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ اپنے وطن سے محبت کرنا مسلمانوں کے خون و نس نس میں شامل ہے ، لیکن کسی بھی سلیم فطرت شخص کے نزدیک محبت کا تقاضا ہرگز یہ نہیں کہ جس سے محبت ہو اس کی عبادت بھی کی جائے ۔آپ کو حیرت نہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب یعنی پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اسلام کا جزوِ لازمی ہے ، اس کے باوجود کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ یا کم سے کم پڑھا لکھا ہوا مسلمان بھی پیغمبرِ خدا کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ایسا کبھی سوچ بھی سکتا ہے ۔ پھر کیوں بار بار ہمیں اور ہمارے اسلاف کی محبتِ وطن اور دیش بھکتی پر ہزاروں لاکھوں جانیں قربان کر دینے کے باوجود بھی محض ایک ترانے کے نام پر موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے !
اس وقت بہت سی قومی تقریبوں میں جگہ جگہ’وندے ماترم‘کو لازم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،جو کہ اسلامی عقائد کے مخالف ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو قبول نہیں، جس کی اجازت خود ہندوستان کا آئین بھی دیتا ہے ، اس لیے کہ ہندستان کے آئین کی دفعہ :۲۵ میں ہے کہ:’امنِ عامہ،اخلاقِ عامہ،صحت ِعامہ اور اس کی دیگر توضیعات کے تابع تمام اشخاص کو آزادیِ ضمیر اور آزادی سے مذہب سے قبول کرنے ،اس کی پیروی کرنے اور کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے ۔‘(بھارت کا آئین:۲۵،یکم جولائی ۲۰۱۳ء تک ترمیم شدہ )اب غور کیجیے تو یہ وندے ماترم سنسکرت زبان کا فقرہ ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنے مادرِ وطن کا پرستار ہوں اور اس کی عبادت کرتا ہوں۔حب الوطنی بری چیز نہیں اور اگر انصاف کے دایرے میں ہو تو اسلام اسے پسند کرتا ہے ،یہ ایک فطری جذبہ ہے اور خدا ہی کی طرف سے ہر انسان کے اندر ودیعت ہے ،لیکن اسلام میں خدا کے سوا کسی کی پرستش وبندگی نہیں کی جا سکتی،بندگی صرف خدا کے لیے ہے ،اس لیے اسلامی نقطۂ نظر سے اس طرح کے اشعار کا پڑھنا اور ان کو قبول کرنا قطعاً جائز نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ برادرانِ وطن سمجھیں کہ مسلمانوں کے لیے یہ محض ایک قومی اور ملکی مسئلہ نہیں اور نہ ہم اس کو انا اور وقار کا مسئلہ بنا رہے ہیں،بلکہ اس کی جڑیں ایمان وعقیدے میں پیوست ہیںاور کسی مسلمان کو ایسا کہنے پر مجبور کرنا گویا ان کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنے مذہب و عقیدے سے دست کش ہو جائیں،اور ظاہر ہے کہ ملک کا کوئی بھی سنجیدہ اور انصاف پسند شہری ،جو ملک کی رنگارنگ مذہبی اور تہذیبی کردار کو باقی رکھناچاہتا ہو، ایسی کوشش کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھے گا۔(جدید فقہی مسائل:۱/۳۱۵)
جہاں تک ملک سے محبت و وفادای کی بات ہے تو تاریخ شاہد ہے ،جب جب ملک کو خوں کی ضرورت پڑی تو مسلمانوں نے اپنی جان ومال کو ملک کی آزادی کے لیے نچھاور کیا،مگر محبت و عبادت میں فرق ہے ۔محبت تو بہت سوں سے ہوتی ہے ،لیکن اسلام میں عبادت صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کی کی جاتی ہے ۔مثلاً:مسلمانوں کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،خانۂ کعبہ،مسجدِ حرام،مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ،اہل وعیال اور اساتذہ وغیرہ سب سے محبت ہوتی ہے ،لیکن ان میں سے کسی کی عبادت نہیں کی جاتی۔اسلام، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میںکسی کو شریک کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ (روزمرّہ کے شرعی مسائل:۵۵۲،بتصرف)