اللہ تبار ک وتعالیٰ جو چاہیں کریں، کوئی ان سے پوچھنے کا حق رکھتا ہے اور نہ ہمت
مولانا شاہد معین قاسمی
سترہویں پارے کی شروع کی آیا ت میں اللہ تبارک وتعالی نے قیامت کے بہت قر یب ہونے کوبتلاتے ہوئے آپؑ کی نبوت پر ایک اعترض کا جواب دیا ہے اعتر اض یہ تھا کہ محمد ﷺ نبی کیسے ہوسکتے ہیں ؟وہ عام انسانوں کی طر ح کھانا بھی کھاتے ہیں اور پانی بھی پی تے ہیںاللہ تبار ک وتعالی نے جواب یہ دیا کہ جتنے بھی انبیا ء میںنے بھیجے ہیں سب کو ہم نے ایسا ہی جسم دیاتھا کہ وہ کھائیں اور پئیں ہم نے کسی کوبھی ایسا جسم نہیں دیا جسے کھانے پینے کی ضرورت نہ ہو کیوں کہ نبی کا انسا ن ہونا ضروری ہے۔اپنے ایک ہونے کی دلیل میں ایک خاص بات یہ بیان فرمائی کہ اگر اللہ کے علاوہ دنیا میں کوئی اور معبود ہوتا تو دنیا کا نظام ہی نہ چلتا اور یہی حقیقت بھی ہے ۔جیسا کہ ہم دنیا میں خود دیکھتے ہیں کہ جہا ں کسی چیز میںدولوگوں کا اختیارہو وہا ں فساد اور لڑائی جھگڑا شروع ہو ہی جاتاہے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تبار ک وتعالی کی ذات ایسی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں کوئی ان سے پوچھنے کا حق رکھتا ہے اور نہ ہمت وصلاحیت پھر خدا کی خدائی میں شریک ہونے کا کیا اور کیوں سوال پید اہوتاہے ؟!ایک اور دلیل یہ بیان فرمائی کہ آسما ن وزمین دونوں پہلے بند تھے اور ہم نے انہیں کھول دیا۔
حضرت ابراہیم کا واقعہ :پھر چند آیتوں کے بعد حضرت ابراہیم کا واقعہ بیان فرمایا کہ انہوںنے اپنی قوم کو اللہ کی طر ف بلایا اور ان کے ایک ہونے کا عقیدہ ان کے سامنے پیش کیااور کہا کہ یہ بت جن کی آپ عبادت کرتے ہیں کیا ہیں؟بھلا یہ عبادت کئے جانے کے کیوں کر مستحق ہوسکتے ہیں؟انہوں نے جواب دیا ہمارے باپ داداان کی عبادت کرتے تھے حضرت ؑنے فرمایا آپ لوگوں کے باپ دادا گمراہ تھے انہوں نے دلیل مانگی حضر ت ابرہیمؑ نے فرمایا اچھا اگر آپ لوگوں کو یہ نہیںسمجھ میں آتا کہ یہ عباد ت کے لائق نہیں ہیں تو ہم جلدہی آپ کو ان کی حیثیت بتادیںگے جب ان کے پا س سے چلے جائیںگے ۔اور جب وہ لوگ اپنے بتوں سے الگ ہوگئے تو انہوں نے بت خانے میںگھس کر تما م بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور ایک بت جوان کے لحاظ سے زیا دہ احترام کے قابل تھا اسے چھوڑدیا ۔جب ان لوگوں نے یہ دیکھا تو بڑے حیران ہوئے ۔ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ برا عمل کس نے کیا ؟سب نے اند ازہ لگایا کہ ابراہیم (علیہ السلام)ہی بتوں کے بارے میں بولتے رہتے ہیں اور دھمکی بھی دے چکے ہیں انہوں نے ہی ایسا کیا ہو گا۔طے یہ ہو اکہ انہیں لوگوں کے سامنے لایا جائے تاکہ ان سے اقرار کرا سکیں اور دوسرے لوگ بھی گواہ ہو جائیں۔ حضرت ابراہیم بلائے گئے اور پھر ان سے پوچھا گیا ۔سوال یہ ہوا کہ ابراہیم کیا آپ نے اس طر ح کا معاملہ ہمارے بتوں کے ساتھ کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ ان کے سب سے بڑے نے ایسا کیا ہے تم انہیں سے پوچھ لو !اگر یہ بولتے ہیں کیوں کہ یہ تو تمہارے لحاظ سے تمہا رے کاموں کو بھی بناتے ہیں تمہارے مسائل حل کرتے ہیں اور اگر اتنے کمزور ہیں کہ اپنے اوپر ہوئے مظالم کو بھی اپنی زبان سے نہیں بیان کرسکتے اور یہ بولنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر عبادت کے لائق کیسے بن جائیںگے ان کی عبادت کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟
حضرت کا یہ جواب سننا تھا کہ وہ لا جواب اور دل دل میں شرمسار ہوئے کوئی جواب تو تھا نہیںلیکن ہٹ دھرمی نے فورا سمجھا یا کہ چاہے ہم غلط ہوں لیکن ابراہیم کو بہرحال سزا دینی ہے اور وہ حضرت ابراہیم کو جلانے پہ ایک دوسرے کو ابھا رنے لگے ایک دوسرے کو یہ کہنے لگے کہ بھلا معبود کی گستاخی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے ؟اب کیا تھا ؟ پورا ملک مخالف ہو گیا !او رپو رے ملک کے ساتھ بادشاہ نے بھی ان کو جلانے کی تیا ری کر لی۔ علماء ؒنے تاریخ کے حو الے سے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کے جلانے کا اتنا سخت منصوبہ بنایا گیاکہ ایک بیمار عورت یہ منت مانتی کہ اگر میں ٹھیک ہو گئی توابراہیم کو جلانے کے لیے لکڑی جمع کروں گی او رجب ٹھیک ہو جاتی تو لکڑیا ں لاتی۔یعنی پو را ملک ان کو جلانے میں شریک تھا ۔ پورے شہر کے بوڑھے ،جو ان اور بچوں نے ملکر ایک ماہ تک لکڑیاں جمع کی تھیں۔پھر ان میں آگ لگاکر سات دنو ں تک اسے دھکایا تھا۔یہاں تک کے اس کے شعلے اتنے اونچے ہو گئے کہ اگر کوئی چڑیا بھی اس کے سامنے سے گزرتی توجل جاتی۔ جب ساری تیا ریاں مکمل ہو گئیں ،تو اب سوچا گیا کہ ابراہیم کو اس میں ڈالدیا جائے ۔لیکن یہ سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ اتنی او نچی آگ میں ڈالا کس طرح جائے ؟۔شیطان نے انھیں یہ سمجھایا کہ ابراہیم کو منجنیق (گوپیا ) میں رکھ کر آگ میںڈالدو۔پھر کیا تھا !!انھیں منجنیق میں رکھکر ایسی آگ میں ڈالدیا گیا کہ اس جیسی آگ دنیا میں کبھی دیکھی نہیں گئی ۔ یہ ساری کوششیں ایک طر ف لیکن اللہ تبارک وتعالی کی قدرت اور اپنے نبیوں سے محبت ایک طرف اللہ تبارک وتعالی نے آگ سے حکم دیا کہ تم اس طر ح ٹھنڈی ہوجاؤ کہ ابراہیم کو نہ سردی لگے اور نہ گرمی کااحسا س ہو ۔ چناں چہ آگ ابراہیم ؑکے لئے ہر اعتبارسے آرام دہ بن گئی ان کا ایک بال بھی بیکا نہیں کیا جاسکا وہ نہ صر ف آگ سے صحیح سالم نکل گئے بل کہ پوری دنیا کی قوموں کے سردار اور رہیرو مان لئے گئے اورآ ج دنیا کی شاید ہی کوئی قوم ہوجو حضرت ابراہیم ؑکی طرف اپنی نسبت پہ فخر نہ کرتی ہو ۔پھر آیت :۷۷ ؍ تک حضرت ابراہیم اور لوط کے شام کی جانب ہجرت کرنے کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد ظالم اور گندی قوم سے نجات ملی ، حضرت ابراہیم کو حضرت اسحق اور یعقوب کے ملنے کی خبر دی گئی ہے حضرت نوح کی فرعون سے نجات اور اس کے ڈوبنے کا بیان ہے اوریہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم کو (جو )قیادت اور بڑائی دی( وہ صرف ان کے ساتھ خاص نہیں ہے بل کہ میر ے عام ضابطہ پہ عمل کرنے کی وجہ سے ہے کہ جتنے لوگ بھی میرے احکام پہ چلے اور ان کودوسروں سے بیان کیا اس سلسلے میں آئی پریشانیوں کو برداشت کیا لوگوں کی دھمکیوںسے ڈرنے کی بجائے اللہ کی طرف ان کا لگا ؤ اور زیادہ ہوگیا ہو، تو پھر اللہ تعالی نے انہیں لوگوں کا رہبر بنادیا پھر ہوا یہ کہ جو ان کی مخالفت کرتے تھے وہی لو گ ان کے شیدائی ہوگئے جو ان سے نفرت کرتے تھے انہی لوگوں نے ان کی ہرآن حفاظت میں اپنی جانوں کو قربا ن کرنا سامان فخر جانا جو ان کے خون کے پیاسے تھے اور یہ ضابطہ قیا مت تک باقی رہے گا جب بھی کوئی انسان یا قوم اللہ تبارک وتعالی کی اس طرح سے عبادت کرے گی، بلاخوف وخطر اللہ کے دین کی طر ف لوگوں کوبلائے گی، اس میںپید ا ہونے والی رکاوٹوں سے پریشان نہیں ہوگی، اسے بھی اللہ تعالی اسی طرح محفوظ کریں گے اور سب کواسی طرح رہبر بنائیںگے ۔)
د اؤدؑ اورسلیمان ؑکے متعلق کئی چیزوں کا تذکرہ اور اشارہ ہے پہلی چیز کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت داؤد ؑ کے زمانے میں ایک انگور یا غلے کے کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریوں کا ریوڑ رات میں گھس گیااور اس نے پورے کھیت کو کھا کر ختم کردیا مقدمہ حضرت داؤد کے پاس گیا تو چوں کہ حضرت کے لحاظ سے ان بکریوں کے ریوڑ کی جتنی مالیت ہورہی تھی اتنی ہی مالیت کھیت میں ہوئے نقصان کی بھی ہورہی تھی اس لیے حضرت داؤد نے سوچا کہ اس سے بدلہ ادا ہوجائے گا لیکن حضرت سلیمانؑ نے فرمایا حضرت اس کا فیصلہ یوں بھی ہوسکتاہے کہ کھیت والے کو بکریاںدیدی جائیں کہ وہ ان کے دودھ وغیرہ سے اپنا گذر بسر کریں اور ریوڑ والے کو کھیت دیکر اُن سے یہ کہا جائے کہ اس میں اپنی طرف سے اس پہ محنت کرکے اس کی پرورش کریں اور جب اس حالت میں آجائے تو کھیت کو کھیت کے مالک کے حوالے کردیاجائے اور بکریوں کو ان کے مالکان کے حوالے یہ شکل پہلے کے مقابلے میں زیادہ مناسب حال رہی (ابن کثیر عن ابن اسحق عن ابن مسعودؓ بیان القرآن عن وبیان القرآن عن مرۃ و عن ابن مسعود وابن عباس ومجاہد وقتادہ والزھری)یہیں پہ اللہ تبارک وتعالی نے ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اس فیصلے میں وقتی طور پہ حضرت سلیمان کے فیصلے کے زیادہ مناسب حال ہونے کی وہ جہ سے کوئی نعوذ باللہ یہ نہ سمجھ لیں کہ حضرت سلیمان کو زیادہ حکمت دی گئی اور حضرت داؤد کو کم ۔اسی کے ساتھ دونوں حضرات کی کچھ الگ خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں چنا ں چہ حضرت داؤد کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں زرہیں بنانے کی صلاحیت دی تھی جو تم انسانوں کو آپس کی لڑائی سے بچاسکیںاس لیے اس پہ شکر ادا کرنا چاہیے یعنی حضرت داؤد پیغمبر ہونے کے ساتھ ہی اپنے وقت کے بڑے سائنٹسٹ تھے ۔حضرت سلیمان کے بارے میں فرمایاگیا کہ تیز ہواؤں کو ان کے تابع کردیا گیاتھاجوآپؑ کے حکم سے شام کی جانب چلا کرتی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان کے پاس ایک لکڑی کا کافی کشادہ تخت تھاجس پہ حکومت سے متعلق ساری چیزیں رکھ لی جاتی تھیں جیسے گھوڑے ،خیمے ،لشکر اور سب کچھ اس پہ آجاتاتھا پھر آپ ؑ کے حکم سے ہوا اس کے نیچے گھس کر اسے اٹھاکے لیجاتی اور جہاں آپ ؑ فرماتے وہیں رکھدیتی ۔آپ ؑ کو دھوپ سے بچانے کے لیے پرندے آپؑ پہ سایہ کردیاکرتے۔کچھ جناتوں کا کام یہ تھا کہ وہ سمندر میں غوطہ لگا کر آپ ؑ کے لیے موتی اور جواہر نکالتے اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سے کام بھی ان کے ذمے تھے اور جناتوں پہ کنٹرول خود اللہ کی مددسے ہوا اللہ تعالی ہی ان کی نگر انی کرتے تھے ۔
حضرت ایوب ؑ کا قصہ :حضرت ایوب کے بارے میں قرآن کریم نے صرف اتنی بات بتلائی کہ انہیں کوئی شدید مرض ہوگیاتھا جس پہ وہ صبر کرتے رہے اور بالاخر اللہ تعالی سے دعا کی تو ان کی دعا قبول ہوگئی اور یہ کہ اس بیماری کے زمانے میں ان کی اولاد اور احباب سب غائب ہوگئے خواہ موت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے پھر اللہ تعالی نے انہیں صحت وعافیت دی اور جتنی اولاد تھی وہ سب ان کو دیدی بل کہ اتنی اور بھی زیادہ دیدی او ر قصے کے باقی حصے یاتو مستند احادیث میں ہیں یا بعض تاریخی روایات میں حافظ ابن کثیر نے اس قصے کی تفصیل یہ لکھی ہے کہ:اللہ تعالی نے حضرت ایوب ؑ کو ابتدا ء میں مال ودولت ،جائداد، شاندارمکانات ،سواریاں ،اولاد اور چشم و خم بہت کچھ عطاکیاتھاپھر اللہ تعالی نے انہیں پیغمبرانہ آزمائش میں مبتلاکیااور ان کی یہ ساری چیزیں ختم ہوگئیںبدن میں ایسی بیماری لگ گئی جیسے جذام ہوتاہے کہ بدن کا کوئی حصہ بجز زبان اور قلب کے اس بیماری سے نہ بچاوہ اس حالت میں زبان وقلب کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے اسی شدید بیماری کی وجہ سے عزیزوں اور دوستوں نے انہیں شہر سے الگ کردیا ان کے پاس ایک بیوی ان کی خدمت کے لیے رہ گئی تھی جو حضرت یوسف ؑکی پوتی یا بیٹی تھی چوں کہ مال وجا ئید اد سب ختم ہوچکا تھا اس لیے ان کی زوجہ ٔ محترمہ محنت ومزدور ی کرکے خود اپنے لیے اور ان کے لیے رزق اور زندگی کی دوسری ضروریات فراہم کرتیں۔بیان کیا جاتاہے کہ حضرت ایوب کا یہ امتحان کوئی نئی چیز نہیں اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل کہ سب سے زیادہ آزمائش انبیا کی ہوتی ہے پھر ان کی جو ان سے اعمال میں زیادہ قریب ہوںاور دوسری روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر انسان کی آزمائش اس کی دینی صلاحیت اور مضبوطی کے اندازے پہ ہوتی ہے جو دین میں جس قدر زیادہ مضبوط ہوتاہے اسی قدر اس کی آزمائش زیادہ ہوتی ہے تا کہ اسی اعتبار سے اللہ کے یہاں اس کے درجے بھی بلند ہوںحضرت ایوب ؑ کو اللہ تعالی نے انبیا ء کے زمرے میں دینی صلابت اور صبر کا ایک امتیازی مقام عطاکیا تھا جیسے داؤد کو شکر کا ایساہی امتیازی مقام عطا کیا گیا تھامصائب وشدائد پہ صبر میں حضرت ایوب ضرب المثل ہیں۔
یزید بن میسرہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت ایوب کو مال واولاد وغیرہ دنیا کی تما م نعمتوں سے خالی کرکے آزمائش میں ڈالاتو انہوں نے فارغ ہوکر اللہ کی یاد اور عبادت میں اور زیادہ ہی محنت شروع کردی اور اللہ تعالی سے عرض کیا اے پروردگار میں تیرا شکر ادا کرتاہوں کہ تونے مجھے مال جائداد ،دولت، دنیا اور اولاد عطا فرمائی جس کی محبت میرے دل کے ایک جزو پہ چھاگئی پھر اس پہ شکر ادا کرتاہوں کہ تو نے مجھے ان سب چیزوں سے فارغ اور خالی کردیااور اب میرے اور آپ کے درمیان حائل ہونے والی کوئی چیز باقی نہ رہی۔حضرت ؑ کی یہ کیفیت سات سالوں تک مسلسل رہی لیکن کبھی بھی شکایت کا کوئی لفظ زبان پہ نہیں آیانیک بیوی نے کہا آپ کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے اس لیے دعا کیجیے کہ یہ تکلیف دور ہوجائے تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے ستر سا ل صحیح تندرست اللہ کی نعمتوں میں گذارے کیا اس کے مقابلے میں سات سال بھی مصیبت کے گذرنے مشکل ہیں پیغمبرانہ عزم و ضبط اور ثبات کا یہ عالم تھا کہ کبھی دعا کرنے کی بھی ہمت نہ کرتے تھے کہ کہیں یہ صبر کے خلاف نہ ہوجائے (حالاں کہ یہ صبر کے خلاف نہیں ہے)بالآخر کوئی ایسا سبب پیش آیا جس نے انہیں دعا کرنے پہ مجبور کردیا اور یہ خالص دعا ہی تھی نہ کہ کوئی شکایت۔
ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت ایوب ؑکی دعا قبول ہوئی اور انہیں حکم ہو اکہ زمین پہ ایڑلگائیں یہاں سے صاف پانی کا چشمہ پھوٹے گا اس سے غسل کریں اور اس کا پانی پی لیں تو یہ سارا مرض چلاجائے گا حضرت ایوب نے ایسا ہی کیاسارا بدن اور کھا ل یکا یک اپنی حالت پہ آگئے پھر اللہ تعالی نے ان کے لیے جنت کا لباس بھیجاوہ زیب تن فرمایا اور بیٹھنے کی جو پہلی جگہ تھی وہاں سے الگ ہوکر دوسری جگہ ایک کونے میں بیٹھ گئے زوجہ ٔ محترمہ اس وقت تھیں نہیں اس لیے جب واپس آئیں تو وہاں نہ پاکر رونے لگیں اور خو د ان سے پوچھا کہ یہاں جو ایک بیمار پڑا رہتا تھاوہ کہاں چلاگیا کیا کتوں یا بھیڑیوں نے اسے کھالیا اور کچھ دیر تک اس معاملے میں ان سے گفتگو کرتی رہیںیہ سنکر حضرت ایوبؑ نے بتلایا کہ میں ہی ایوب ہوںلیکن یہ پھر بھی نہ پہنچان سکیں اور کہنے لگیں کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں حضرت ایوب نے کہا غور سے دیکھو میں ہی ایوب ہوں اللہ تعالی نے میری دعا قبول کرلی اور میرا بدن از سرے نو درست فرمادیا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالی نے انہیں ان کا مال ودولت بھی واپس کردیا اور اولا دبھی پھراولاد کی تعداد کے برابر مزید اولا د بھی دی۔(ابن کثیر و معارف القرآن )
ان سب کے ساتھ حضرت اسماعیل ،ادریس اور ذوالکفل کے بارے میں بھی بیان کیا ۔
حضرت یونس کا تذکرہ : اخیر میں حضرت یونس کے واقعے کو بہت ہی اختصارسے بیان فرمایا ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی طرف بلانے کاکام کیالیکن وہ لوگ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے ۔ آپ ان سے ناراض ہو کر وہاں سے نکل گئے اور قوم سے یہ کہدیا کہ تمہارے اوپر تین دنوں کے بعد اللہ کاعذاب آنے والا ہے جب لوگو ں نے اللہ کے نبی کی زبان سے عذاب کی دھمکی سن لی تو ان میں ڈرسماگیا کہ اب تو یقیناہم گرفتار ہوجائیں گے کیوں کہ اللہ کے نبی جھوٹ نہیں بو ل سکتے پھر ان میں کے عورت ،مرد، بچے اور بوڑھے سب میدان میں نکل گئے اور جانور بھی ساتھ لے آئے ماؤں کو بچوںسے علیحدہ کر دیاگیا اور پھر سب بلک بلک کر اللہ کے سامنے روئے اورگڑ گڑائے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کی جانور بھی بول رہے تھے اونٹ کے بچے بھی بلبلارہے تھے بکریا ں اور پٹھیاں میں میں کررہی تھیں غرضیکہ انسانو ں اور جانوروں سب نے مل کر آللہ کے عذاب سے پنا ہ مانگی تو اللہ تبارک وتعالی نے عذاب ہٹادیا ۔
حضرت یونس کا کشی میںسوار ہونا:ادھر یونسؑ ایک کشی میںسوار ہوگئے جو ڈانواں ڈول ہونے لگی اور لوگوںکو خطرہ محسو س ہوا کہ اب ہم سب ڈوب جائیںگے توسب لوگوں نے مل کر قرعہ ڈالا کہ کشتی کا بوجھ کم کرنے کے لئے کس کو سمند رمیں ڈالاجائے کہ باقی سب لوگ محفوظ ہوجائیں ؟قر عے میں بار بار آپ ہی کانا م آیا آپ کھڑے ہوگئے کرتا اتاردیا اور خود ہی دریامیں چھلانگ لگادی اور جیسا کہ حضر ت عبد اللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے بحر ا خضر سے ایک مچھلی بھیجدی اس نے دریا کو چیرتی پھاڑتی پہنچ کر حضرت یونس کو اپنے پیٹ میں لے لیامچھلی سے پہلے ہی یہ کہدیا گیا تھا کہ انہیں اپنے پیٹ میں حفاظت سے رکھناہے نہ کہ اپنی خوراک بنانا ہے ہا ں ان کے لئے تمہارا پیٹ قید خانہ ضرور ہے ۔وہاں انہوں نے سمندر میں سنگریزوں کو تسبیح بیان کرتے ہوئے سنا تو پہلے سے ان کو یہ لگ رہاتھا کہ میں زندہ نہیں ہو ں لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنے پیر ہلائے جس سے ان کااحساس اور مضبوط ہواپھر مچھلی بے چین ہو کر حرکت میں آئی تو آ پ نے پیٹ ہی میں سجدہ کیا اور پھر اللہ تبارک وتعالی سے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ میں نے آپ کے لئے اس جگہ مسجد بنائی جہاں کسی نے ایسا نہیں کیااور انہوں نے اللہ کی تسبیح بیان کی فرشتوں نے آپ کی تسبیح کوسنکر اللہ تعالی سے یہ کہا کہ اے اللہ ہم ایک اجبنی سرزمین پر ایک کمزور آواز سن رہے ہیںفرمایا یہ میرابندہ یونس ہے اس نے میری نافرمانی کی تو میں نے اسے دریامیںمچھلی کے پیٹ میں قید کیا فرشتوں نے کہا وہ ایک نیک آدمی ہیںروزانہ ان کی طرف سے نیک اعمال چڑھتے ہیںاللہ تعالی نے فرشتوں کی سفارش پہ حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی عطافرمائی۔ پارے کے دوسرے حصے میں بھی اللہ تبارک وتعالی نے اپنی خدائی کی دلیل ،قیامت کی کیفیت، انسانوں کے پیٹ میں پرورش پانے کے مراحل، آدھا اسلام قبول کرنے والوں کی مذمت اور ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے خسارے ،حج کے مقاصد اور کچھ طریقے، قربانی کا فلسفہ اور اس کے چند مسائل ا ور بتوں کے کمزور ہونے کے کوبیان فرمایاہے اور پھر پہ پارہ مکمل ہوگیا ہے ۔ ��