Qaroon ko uske poore khazane ke sath zameen me dhansa diya gaya

 

قارون کو اس کے پورے خزانے کے ساتھ زمین میں دھنسادیا

مولانا شاہد معین قاسمی

بیسویں پارے کی شروع کی آیتوں میں باری تعالی نے اپنی بہت سی قدرتوں اور احسانات کو بیان فرمایا ہے پھر قیامت کی نشانیا ں بیا ن کی گئی ہیں جن میں سے ایک نشانی دابۃ الارض نامی جانورہے جس کے بارے میں آیت: ۸۲؍ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ نکل کر لوگوں سے بات کرے گا کہ لوگ ایمان نہیں رکھتے ۔علامہ ابن کثیرؒ نے حضرت ابن عباس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ وہ لوگوں سے بات بھی کرے گا اور نشاندہی بھی کہ کون غیرمسلم ہے اور کون مسلمان ہے اس کے پاس حضرت موسی ؑکی لاٹھی اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ہوگی ہر مؤمن کے چہرے پہ موسی کی لاٹھی سے ایک نقطہ ڈالدے گا جو پھیل کر پورے چہرے کو چمکادے گااور غیر مسلم کے چہرے پر انگوٹھی سے ایک سیا ہ نقطہ بنادے گاجو پھیل کر پورے چہر ے کو سیاہ کردے گااس وقت غیرمؤمن اور مؤمن صاف پہنچان لئے جائیں گے لوگ بازاروں میں کہیںگے اے غیر مؤ من اے مؤمن یہ چیز کتنے کی ہے ایک دسترخوان پہ بیٹھے ہوئے لوگ پہچان لئے جائیںگے کہ یہ مؤ من ہے اور یہ غیر مؤ من پھر سورت کے اخیر تک صور پھونکے جانے ، میدان محشر میں لوگوں کے جمع کئے جانے اور حساب وکتا ب کے تذکرے کے ساتھ یہ بھی بیان فرمایاگیا ہے کہ نبی ﷺ کی ذمہ داری صر ف اللہ کے دین کو اللہ کے بندوںتک پہنچادیناہے اور اللہ تعالی کسی بھی قوم کواس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اس کے پا س نبی کو نہ بھیجدیں ۔
حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ :
سورہ ٔ قصص کی آیت: ۱۳؍ تک حضرت موسی کی پیدائش وتربیت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔حضرت موسی ایک بڑے جلیل القدر نبی اور رسو ل گزرے ہیں ،جن کو مسلمانوں کے ساتھ یہو دی او رد وسرے لو گ بھی سچا نبی مانتے ہیں ۔ وہ مصرمیں پیدا ہو ئے ۔ اور بنی اسرائیل میں سے تھے۔ پیدائش سے پہلے ہی فرعون سے(جو اُس و قت مصر کا بہت ہی ظالم اور بہت مالدار بادشاہ تھا ) کسی نے بتایاکہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ ایسا پیدا ہو نے والا ہے، جو بڑا ہو کر تمہاری بادشاہت کو ختم کردے گا۔ پھر کیا تھا؟ ایک اندازے کے مطابق ،فرعون نے مارے خوف کے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کے چالس ہزار بچوں کو پیدائش کے بعد قتل کرو ادیا جس کی شکل یہ ہوئی تھی کہ فرعون نے اس کے لئے دائیاں مقرر کررکھی تھیں وہ محلے محلے گھومتیں جس عورت کے پیٹ میں بچہ ہونا معلوم ہوتا اس کانام رجسٹر میں لکھ لیا جاتا پیدائش کے وقت یہ آجاتیں اگر بچی پید اہوتی تو چھوڑکر چلی جاتیں اور اگر بچہ پید اہوتاتو قتل کرنے والے سپاہیوں کوفورا خبر کردیتیں یہ ذبح کرنے والے فورا تیز تیزچھوریاں ہاتھ میںلئے آجا تے اور اس بچے کو ذبح کر کے چلے جاتے !!!اللہ تعالی نے حضرت موسی ؑکی ماں سے کہا کہ تم موسی کو دودھ پلاتی رہنا اور جب ان کے ذبح کئے جانے کا خطرہ ہوتو سمندر میں انہیں بلا کسی خوف اور غم کے ڈالدینا ہم انہیں دوبارہ تمہارے پاس لائیں گے اور انہیں پیغمبر بنائیں گے موسی ؑ کی ماں نے ایسا ہی کیا اور انہیںتابوت میں رکھ کر دریا میں ڈالدیاتو دریا نے حضرت موسی علیہ السلام کو ایسی چٹان پر چھوڑا، جہاں فرعو ن کی باندیا ں او رلونڈیاں نہانے اوردھونے کے لیے جایا کر تی تھیںانہو ں نے تابوت کو اٹھاکر فرعون کی بیو ی کے پاس پہنچادیا جب بیو ی نے کھول کر دیکھا ،تو انھیں حضرت موسی علیہ السلام بہت پیارے لگے دیکھتے ہی ان کی محبت ان کے دل میں پیدا ہو گئی اگرچہ سپاہیو ں نے فرعو ن کی بیو ی کے پاس پہنچ کرحضرت موسی علیہ السلام کو بھی قتل کرنا چاہا، لیکن فرعو ن کی بیو ی حضرت آسیہ نے انھیں منع کردیااور فرعون سے کہا کہ یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھو ں کی ٹھنڈک ہو گا اسے قتل مت کرو! ہو سکتا ہے کہ ہمیں آنے و الے زمانے میں فائدہ پہنچا ئے یا ہم اسے اپنا لڑکا بنالیںفرعون نے حضرت موسی کوقتل نہ کرنے کا حکم دیا اب حضرت موسی علیہ السلام دو دھ کس کا پیتے اس کے لیے آسیہ نے اپنی نوکرانیوں کویہ حکم دیا کہ حضرت مو سی علیہ السلام کو بازاروں ا ورلوگو ںکے مجمع میں لے جاؤ! دیکھو شائد کسی کا دو دھ پی لیںلیکن حضرت موسی کسی کا دھود قبول ہی نہیں کررہے تھے اب آسیہ بہت پریشان ہوئیںادھر حضرت علیہ السلام کی ماں نے ان کی بہن کو بھیجا کہ پتہ لگائیں کہ موسی کا کیا حال ہے؟ ہلاک ہو گئے؟ سمندر میں کسی چیزنے کھالیا ؟یا قتل کردیئے گئے؟جب بہن باہر نکلیں ،توانہوں نے دیکھا کہ فرعون کی نو کرانیاں حضرت موسی کو لیے پھر رہی ہیں!پر یشان ہیں !کہ کوئی ایسی عو رت مل جائے ،جس کا دو دھ حضرت علیہ السلام قبول کرلیں، لیکن کوئی ایسی مل نہیں رہی ہے! موقع پاکر ،ان کی بہن نے کہا اگر مو سی علیہ السلام کو فلاں گھر انے میں لے جایا جائے ،تو مجھے امید ہے کہ وہ دودھ قبول کرلیںگے اتنا سننا تھا کہ مو سی علیہ السلام کی بہن کو ان نوکرانیو ںنے پکڑلیا کیوں کہ ان کو شک ہو گیا کہ ہو نہ ہو، یہ موسی کی بہن یا ماں ہو بہن نے کہا کہ میں نے یہ بات اس لیے کہی کہ اس گھر کے لو گ بادشاہ کے محل میں آنے جانے کی لالچ میں بچے کو دو دھ پلانے میں دلچسپی سے کام لیںگے او رخوب دل کھول کر خدمت کریں گے۔خیر! نو کرانیو ں نے بہن کو چھو ڑدیا یہ خو شی خوشی گھر لو ٹیں او رپہنچ کر ماں کو ساری باتیں بتلادیں او رکہاکہ مو سی زند ہ ہیں لیکن کسی کا دو دھ نہیں لے رہے ہیں پھر ماںکو اس جگہ لیکر آئیں نو کرانیو ں کے کہنے سے حضرت علیہ السلام کی ماں نے انھیں گو د میں لے لیا ا ور جو ںہی گو د میں رکھا ،حضر ت موسی علیہ السلام نے اپنی ماں سے دو دھ لینا شرو ع کردیا پھر کیا تھا!! یہ نو کرانیاں خو شی کے مارے پھو لے نہیں سمارہی تھیں فورا جاکر آسیہ کو خو شخبری سنائی’’ دودھ پلانی والی مل گئی!‘‘آسیہ نے حضرت مو سی علیہ السلام کی ماں کو بلوا یا او ر کہاکہ مجھے اس بچے سے بہت زیادہ محبت ہے میں تو اسے اپنی نظر وں سے او جھل نہیں کرسکتی اس لیے آپ کو میرے محل میں ر ہ کر ہی دو دھ پلانا ہو گاانہو ں نے جب یہ دیکھاکہ آسیہ کو مو سی علیہ السلام سے اتنا لگا ؤ ہے ،تو تھو ڑی سی بے نیا زی دکھاتے ہو ئے کہا: ’’میر ی گو د میںخو د ایک بچہ ہے، جو دو دھ پی رہا ہے میں ا سے کیسے چھوڑ دو ں؟ یہ نہیں ہو سکتا! ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ میں اسے اپنے گھر لے جاؤں او رو ہیں دو دھ پلاؤں البتہ میں اتنا ضرو ر و عدہ کرتی ہو ں کہ ا س کی حفاظت میں کو ئی کمی نہیں کرو ںگی اگر آپ ا س کے لیے راضی ہیں تو ٹھیک ہے‘‘بیوی آسیہ کے پاس کو ئی راستہ نہیںتھا انہو ںنے مجبور ہو کر اسی دن حضر ت مو سی علیہ السلام کو ان کی ماں کے حو الے کردیااور ماں صاحبہ اپنے لاڈلے موسی علیہ السلام کو اپنے گھر لیکر آگئیں۔
ایک ہی مُکے میں موت:آیت :۱۴ سے ۲۸؍ میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ حضرت موسی جب جوان ہوگئے توانہیں نبوت و حکمت ملی اور وہ ایک دن شہرمیں ایسے وقت میں نکلے جو لوگوں کی غفلت ( یعنی مغرب وعشا کے درمیان )کاوقت تھا تو دیکھا کہ دو آدمی لڑرہے ہیں ایک تو خود ان کی ہی قوم کاہے اور دوسر افرعون کی قوم کا ان کی قوم کے شخص نے حضرت موسی سے مددمانگی تو حضرت موسی نے فرعونی کو ایک مکہ مارااور وہ وہیں پہ ختم ہوگیا!حضرت موسی نے ا س کی جان مارنے کے ارادے سے مکہ نہیں ماراتھا بل کہ اللہ تعالی کو حضرت موسی کا معجزہ دکھانا تھا اس لیے ایک مکہ ہی اس کی موت کے لیے کافی ہوگیا اور اگرچہ یہ شخص فرعونی قبطی تھا یعنی حضرت موسی کی دشمن قوم کا دشمن فرد تھاجس کا قتل حضرت موسی کے لیے جائز تھا اور ساتھ ہی حضرت ؑ نے قتل کا ارادہ بھی نہیں کیاتھا لیکن چوں کہ پیغمبرانہ شان کے خلاف تھا اس لیے حضرتؑ کو فورا یہ محسوس ہوا کہ یہ غلط ہوگیا آپ ؑ نے فوراہی اللہ تبارک وتعالی سے اس گنا ہ کی مغفرت طلب کی اور جب اللہ تعالی نے معاف کردیا تو انہوں نے اللہ سے اس کے شکر یئے میں وعدہ کیا کہ میںکبھی بھی کسی مجرم کی مدد نہیں کروںگا۔دوسرے دن صبح کو ڈرتے ہوئے یہ معلوم کرنے کے لئے نکلے کہ لوگو ں میں قتل کا کس طر چرچا ہورہا ہے لیکن ایک عجیب چیز یہ دیکھنے کو ملی کہ جس آدمی نے گزشتہ کل لڑائی کر کے حضرت موسی سے مدد مانگی تھی آج بھی وہی ایک دوسرے فرعونی سے لڑرہا ہے اور آج بھی حضرت موسی سے مدد مانگ رہا ہے حضرت موسی نے اسے ڈانٹا کر کہا کہ تم بالکل ہی گمراہ اور بڑے ہی فسادی آدمی ہوایک طرف تو اسے ڈانٹااور دوسری طر ف فرعونی کو پکڑ کر سزا دیناچاہی لیکن اسو قت بیوقوفی کی حد ہوگئی جب کہ آپ ؑکی قوم کے ِاس یہودی نے یہ سمجھ لیا کہ موسی میر ی ہی خیر یت بگاڑنے جارہے ہیں اور آج میر ا ہی کام تمام کریں گے بس اپنے آپ کوبچانے کے لئے وہ چِلا اٹھا اور کہا اے موسی جس طر ح کل آپنے ایک آدمی کو قتل کیا ہے آج مجھے بھی اسی طرح قتل کرناچاہرہے ہیں؟ا س سے پہلے اس کے علاوہ کسی کو خبر نہیں تھی کہ کل والے فرعونی کو موسی نے قتل کیا ہے لیکن ا س کے یہ کہنے سے اب یہ فرعونی جان گیا اورفورا فرعون کو یہ بتلادیا کہ کل کے قاتل موسی ہیں فرعون نے موسی ؑکے قتل کا پکا ارادہ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم دے کر چاروں طرف اپنے سپاہیوں کو لگا دیا لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہو ا کہ ایک بہادر آدمی جو شہر کے دوسرے کنارے پہ رہتا تھا وہ دوڑابھاگا حضرت موسی کے پاس پہنچا اور کہا کہ حکومت کے لوگوں نے آپ کو قتل کرنے کی ٹھان لی ہے اس لئے آ پ فورا شہر چھوڑ کرنکل جائیں ۔
شعیبؑ کی بیٹوں سے ملاقا ت اور موسیؑ کی شادی :
اس مخلص آدمی کے مشورے کو مان کر دشمنوں سے حفاظت کی دعا کرتے ہوئے حضرت موسی نے شہر چھوڑ کر مدین کا رخ کیا اور مدین پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے چرواہے جمع ہوکر اپنی اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیںآ پ نے وہیں دوبچیوں کو بھی دیکھا کہ وہ اپنی بکریاں روکے ہوئے پیچھے کھڑی ہیں حضر ت موسی نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اپنی بکر یوں کو کیوں نہیں پلارہی ہیں تو انہوں نے کہا ہم لوگ اپنی بکریاں سب سے بعد میں پلاتے ہیںاور ہمارے ابا جان بوڑھے ہیں حضرت موسی نے ان کی بکریوں کو پانی پلادیا اور چھاؤں میںجا بیٹھے علامہ ابن کثیر (بحوالہ ابن ابی شیبہ باسناد صحیح)کے مطابق جب سارے چرواہے پانی پلاچکے تو سب نے مل کر کنویں کے دروازے پہ بھاری سی چٹان ڈالدی جسے دس جو ان مل کر ہی اٹھا سکتے تھے لیکن جب حضرت موسی کو ان عورتوں کا حال معلوم ہوا تو ان پہ ترس کھاتے ہوئے اکیلے اس چٹان کو ہٹا کر ایک ڈول پانی نکا لا اور ایک ہی میں ان کی بکر یا ں پی کر چھک گئیںپھر جا کر ایک درخت کے چھاؤں میں بیٹھ گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں بچیاں وقت سے پہلے گھر پہنچ گئیں اس لیے حضرت شعیب نے پوچھا کہ آج کیسے پہلے آگئیںتو انہوں نے سار ا قصہ بیان کیا کہ ایک شریف آدمی کے تعاون کی وجہ سے آج ہم پہلے پہنچ گئے حضرت شعیب نے کہا کہ ا ن کو میر ے پا س بلا لاؤتو ان میں سے ایک بچی انتہا ئی شرافت کے ساتھ ان کے پاس آئیں اور انہیں بلا کر لے گئیںحضرت مو سی نے پہنچ کر اپنا ساراقصہ بیان کیا تو حضرت شعیبؑ نے تسلی دی اور کہا گھبر انے کی بات نہیں ہے ظالم قوم سے آپ کی نجات ہوچکی ہے ۔ان میں سے ایک نے اپنے ابا سے حضرت موسی کے بارے میں یہ کہا کہ انہیں اپنا مزدور رکھ لیں یہ ہرلحاظ سے بہترین مزدور ثابت ہوںگے حضر ت شعیب ؑنے حضرت موسی سے کہا کہ اگرآپ کم ازکم آٹھ سا ل میری بکریاں چرائیں تو میں اپنی دو بیٹیوں میں سے کسی ایک سے آپ کی شادی کردوں گا اور اگر دس سال چَر انا چاہیں تویہ آپ کا احسان ہوگا حضرت موسی اس کے لئے تیا ر ہوگئے اور پوری مدت تک بکریاں چرائیں اورپھر شادی بھی ہو گئی۔حضرت موسی کے اس واقعے میں حضرت شعیبؓ کی صاحبزادی نے حضرت موسی کو اپنے یہاںملازم رکھنے کی اپنے والد صاحب سے درخواست کرتے ہوئے حضرت موسی کی جن خصوصیتوں کا تذ کرہ کیا ہے ان میں غور کرنے سے ہمیں یہ بات بالکل صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ کسی انسان کو کوئی منصب دینے کے لیے دوچیزیں دیکھنا ضرور ی ہے پہلی چیز یہ دیکھی جائے گی کہ وہ شخص اس کا م کو کرنے کی علمی (اور بدنی )صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو پھر آگے بڑھ کر یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ آیا یہ اپنی صلاحیت کا صحیح استعمال کرے گا یا نہیں؟ اور جتنا کام اسے اپنی صلاحیت کے مطابق دیاگیا ہے اور اسے کرنا بھی چاہیے اتنا یہ کرے گا یا نہیں؟اگر یہ دونوں چیزیںدیکھ کرہی کسی کو کوئی منصب اور نوکری دی جائے اور اپنے یا غیر کا کوئی فرق نہ کیا جائے تو (انشاء اللہ) چھوٹے بڑے اور سرکا ری و غیر سرکاری تمام کاموں اور محکموں میں بدعنوانی انقلابی حدتک ختم ہوجائیگی اور یہی اسلام کی روح ہے جس کی باضابطہ تفصیلا ت آحادیث پاک اور اس کی عملی توضیحات فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اسی طرح دوسرا سبق حضرت موسی کے عمل(یعنی بخاری میں موجود حضرت ابن عباسؓ کے قول کے مطابق دو سالوں کے اضافے کے ساتھ دس سال کی مدت پوری کرنے) سے یہ ملتا ہے کہ کام کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنے ذمے کئے گئے کام کو غلامی اور نوکری سمجھنے کی بجائے اسے( اپنے ذوق کی مجبوری اور اپنے ضمیر کی آواز سمجھ کر) زیادہ کردے خواہ کیفیت کے لحاظ سے ہو یا کمیت کے لحاظ سے ۔ایسا کرنے میں کام کرنے والے کا پہلا فائدہ یہ ہوگاکہ کام کا بوجھ اس کے ذہن ودماغ سے جاتارہے گا کیوں کہ جب کوئی انسان کسی بھی کام کو اپنے مزاج کی مجبور ی اور اپنے ذوق کی ضیافت سمجھ لیتاہے تو وہ کام اس کی خوشی میں اضافہ کرتا ہے اور وہ اسے زیادہ سے زیادہ کرناچاہتاہے۔دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ جب کام لینے والوں کو یہ معلوم ہوجا ئے گا کہ یہ ایک امانت دار ملازم ہے اور وہ خود ہی اپنی عادت سے مجبور ہے کہ کسی بھی کام کو اچھے سے اچھا کیے بغیر نہیں رہ سکتا تو پھر اس کی مانگ بھی بڑھ جائے گی اور اجرت بھی زیادہ سے زیادہ ملا کرے گی۔ بہر حال انتخاب اور عمل کے ان خصوصیات سے دنیا میں بدامنی کا بڑے پیمانے پہ سد باب ہو جائے گا۔(معارف القرآن ج؍۶ ص؍۶۳۴)
آیت: ۲۹سے ۴۱؍ تک مدین سے واپسی میں طور پر بلاکر نبوت سے سرفراز کئے جانے اور اس کے بعد فرعون کے پاس بھیجے جانے سے لیکر اس کے ڈوب جانے تک کے تمام واقعات کی طرف اشارہ فریایا گیا ہے جن میں فرعون کا اپنے وزیر ہامان کومخاطب کرکے یہ کہنا بھی شامل ہے کہ میرے لئے آگ میں مٹی پکوا کر پکی اینٹیں بنواؤ اور ان سے آسمان تک ایک بلند عمارت بھی بناؤذرا دیکھ لوں کہ مو سی کا رب ہے کون میں تو موسی کے رب کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں ۔آیت: ۴۲ سے ۷۵؍ تک یہ بتلایا گیا ہے کہ انبیا کو ہم نے ان کے صبر کے بدلے دنیا کی قیاد ت دی اور آپ ﷺ سے یہ فرمایا گیا ہے کہ موسی کے ان واقعات میں آپ موسی کے ساتھ نہ تھے لیکن اللہ تعالی آپ کو ان کی اطلاع دے رہے ہیںاور کفار مکہ کے مختلف سوالات کے جوابات د یئے گئے ہیں اور ساتھ ہی اپنی نشانیوں اور قدرتوں کو سوال وجواب کے طورپہ بیان کرتے ہوئے آخرت میں اللہ تعالی کی طرف سے سوالات کا کیا جانا اور ان کا یہ اعترا ف کرنا کہ ہمیں گمرا ہ کیا تھا وغیرہ بیان کیاگیا ہے۔
قارون کا انجام:
آیت: ۷۶سے ۸۲؍تک قارون کاواقعہ بیان کیاگیا ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ یہ حضرت موسی کی قوم اور خاندان میں سے تھا اللہ تعالی نے اسے بے پناہ مال ودولت سے نوازا تھا کہ ا س کے خزانے کی کنجیاں بھی اٹھانے میں لوگوں کا ایک طاقتور گروپ تھک جایا کرتا۔روح المعانی میں محمد ابن اسحاق سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ یہ تورات کا حافظ بھی تھا مگر سامری (جس کاک تذکرہ ۱۶؍ویں پارے میں گذر چکا ہے) کی طرح منافق ثابت ہوا اور اس کی منافقت کاسبب دنیا کے جاہ وعزت کی بیجاحرص تھی ۔معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ پوری بنی اسرائیل کی قیادت حضرت موسی کے ہاتھ میں تھی اور حضرت ہارون ان کے وزیر اور شریک نبوت تھے حالاں کہ یہ دونوں حضرات مالدار نہ تھے اب اسے حسد ہوا کہ میں بھی تو ان کی برادری کا بھائی اور رشتہ دارہوں پھر مجھے ان کے مرتبہ میں حصہ کیوںنہیں ملنا چاہیے؟ ا س کی شکایت اس نے حضرت موسی سے بھی کر ڈالی حضرت موسی نے جواب دیایہ سب اللہ تعالی کی طر ف سے ہوتاہے میرا اس میں کوئی دخل نہیں ہے لیکن اسے اس جواب سے اطمنان نہ ہوا اور اس نے اپنے مال ودولت کے نشے میںدوسروں پہ ظلم کرنا شروع کردیا اس کی قوم کے دیندار لوگوں نے اسے نصیحت کی کہ بھائی ذرا ٹھیک سے رہا کر واللہ تعالی اترانے والوں کو پسند نہیں کرتے تم دنیامیں بھی اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا ؤ اور آخرت کی بھی فکر کرو اس نے جواب میں کہا میں سب سمجھ تاہوں مجھے نصیحت کی ضرورت نہیں ہے جوما ل ملاہے وہ میری اپنی سمجھ بوجھ اور میر ے ذاتی علمی کمال کی بدولت ملاہے ۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ قارون اتنا سج اور سنور کرنکلا کہ یہاں تک کہ کچھ دین دار لوگوں کے دل میں بھی یہ بات آئی کہ کاش قارون کی طر ح ہم بھی مالد ار ہوتے قارون بڑا خوش قسمت ہے لیکن اہل علم مسلمانوں نے ان لوگوں سے کہا یہ افسوس کی بات ہے کہ تم قارون کی مالدار ی پہ رشک کررہے ہو رشک کی چیز تو آخر ت کا ثواب ہے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اللہ تعالی نے قارون کو اس کے پورے خزانے کے ساتھ زمین میں دھنسادیا! اب جن لوگوں نے قارون کو خوش نصیب سمجھا تھا انہوں نے فورا ہی اپنی رائے بدلدی اور کہا کہ مالداری اللہ کی رضا کی نشانی نہیں ہوسکتی اللہ تعالی کسی کو بھی مال عطا کرسکتے ہیں اور پھر چھین بھی سکتے ہیںانہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اللہ نے ہمارے اوپر احسان نہ کیا ہوتا،تو ہم بھی دھنسادیئے جاتے۔ اللہ تعالی تبارک وتعالی نے قارون کے دھنسا دیئے جانے ،کچھ مسلمانوں کے اس کی مالدار ی پہ رشک کرنے اور پھر اس پہ افسوس کے اظہار کے واقعے کو نقل کرکے ہمیں یہ بتادیا کہ اگر ہم میں سے بڑے سے بڑے مال دار نے بھی اپنی مالداری کو اللہ تعالی کا انعام سمجھنے کی بجائے اسے اپنی ذاتی محنت ،تجارت کے میدان میں اپنے ذہن و دماغ کے استعمال اور اپنی تدبیروں کے اختیار کی طرف منسوب کیا اور اس پہ تکبر کیا،ا نبیا کے وارثین اور دوسرے لوگوں کو چھوٹا سمجھنے لگے یا اپنے کو ان کے برابر گرداننا شروع کردیا تو(خدانخواستہ) ہم بھی کسی طرح کی رسواکن سزا میں مبتلاہوجائیں گے اور اگر ہم نے کسی متکبر مالدار کی مالداری پہ رشک کیا تو ہمیں آج نہ ہی تو کل اپنی رائے سے افسوس کے ساتھ رجوع کرنا ہی پڑے گا اس کے بعد سورت کے اخیر تک اللہ تبارک وتعالی نے یہ فرمایا کہ آخرت کاگھر صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین میں فساد مچانا نہیں چاہتے اور ساتھ ہی منصب نبوت کی عظمت اور اس کے فرائض کا بیان ہے۔جب کہ سورہ ٔ عنکبو ت میںسب پہلے یہ بتلایاگیا کہ مؤمن کی آزمائش ہوتی ہے ،ماں پاب کی خدمت اور اطاعت ضروری ہے ،کوئی انسان دوسرے کا گنا ہ اپنے اوپر نہیں لے سکتا ،پھر حضر ت ابراہیم ،نوح،موسی ،صالح،ہود، کے ان واقعات کا بہت ہی مختصر تذ کرہ ہے جو پچھلے پاروں میں تفصیل سے گزرگئے اور اس بیا ن پر پارہ مکمل ہوگیا ہے کہ جو لو گ اللہ کے علاوہ کی پوجا کرتے ہیں وہ اپنے لئے اتنے ہی مضبوط سہار ا اپنا تے ہیں جتنا کہ مکڑی کا گھر مضبوط ہوتاہے۔
��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here