قرآن سے جو لوگ نصیحت حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا چاہیں گے، ضرور اٹھالیں گے
مولانا شاہد معین قاسمی
تیسویں پارے کے سورہ ٔ انشقاق تک بیان کئے گئے مضامین کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے:
سورہ نبااور سورہ نازعات میںاللہ تبارک وتعالی کی قدرتوںاور جنتیوں کوانعام میں ملنے والی بڑی اچھی اچھی نعمتوں کا بیان ہے ،سورۂ عبس میں پہلی بات یہ بتلائی گئی ہے کہ دعوت دئے جانے کے مستحق سب سے زیا دہ وہ لوگ ہیں جن سے دعوت کے قبول کرنے کی سب سے زیادہ امید ہو اور جس میںمالداروں اور غریبوں کا کوئی فرق نہیں ہے اور ٹھیک یہی ضابطہ دین کی باتیں سکھلانے کے بارے میں بھی ہے۔اس سلسلے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ آپ ﷺ ایک مرتبہ قریش کے کچھ سرداروں کو سمجھا کر انہیں ایمان کی دعوت دے رہے تھے( کچھ روایتوں میں ان سرداروں کے نام بھی آئے ہیںجیسے ابوجہل ابن ہشام ،عُتبہ ابن ربیعہ،ابن خلف،شیبہ)کہ اتنے میں حضرت عبداللہ ابن مکتوم ؓنابینا صحابئی رسول ﷺ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ پوچھا تو بیچ میںا س خلل کی وجہ سے آپ کو تھوڑی سی ذہنی الجھن ہوئی لیکن جب مجلس ختم ہو گئی اور آپ وہاں سے گھر تشریف لیجانے لگے تو وحی کی نشانیاں شروع ہوگئیں اور سورہ ٔ عبس کی آیتیں اتریں (بیان القرآن عن الدر المنثور) امام بغویؒ یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدا للہ ابن مکتوم کے چوں کہ نابینا تھے اس لئے انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آپ ؑکی مجلس میں کو ن بیٹھا ہے اور آپؑ کیا کررہے ہیں اس لئے مجلس میں آکر آپ ﷺ کو آواز دینا شروع کی اور بار بار آواز دی ابن کثیر ؒنے یہ روایت بیان کی ہے کہ صحابی ؓ نے حضور ﷺ سے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھوانے کی درخواست کی اور ساتھ ہی اس کافوری جواب( answer instant) بھی چاہتے تھے آپ ﷺ نے یہ سوچا کہ عبداللہ پکے مسلمان ہیں اور ِان کے لئے تو سوال کے مواقع بہت ہیں اور یہ سوالات کرتے بھی رہتے ہیں یہ کسی اور وقت میں بھی پوچھ لیں گے اس لئے اگر انہیں نہ بتایا جائے تو کسی دینی نقصان کا خطرہ نہیںاس کے برخلاف یہ روسائے قریش تو جلدی ہاتھ نہیں آتے اور ہاتھ بھی آتے ہیں تو ڈھنگ سے بات نہیں سنتے اتفاق سے اِس وقت یہ کسی قدر قاعدے سے بات سن رہے ہیں اگر ان کی بات بیچ میں رک جائے اور یہ اٹھ کرچلے جائیں تو پھر تو خطرہ ہے کہ انہیں ابدی جہنم سے بچنے کا کوئی دوسرا موقع نہ ملے۔ اس لئے آپ ﷺ نے ان لوگوں کے ساتھ بات جاری رکھی اور بیچ میں حضرت ابن مکتومؓ کے بار بار کے سوال سے آپ کو الجھن ہوئی۔آپ ﷺ کا یہ عمل مبارک اپنی صحیح سوچ کے لحاظ سے مبارک اور صحیح تھااور اسلام کی دعوت کے تئیں آپ جس قدر حساس اور بے تاب رہا کرتے تھے اس کا تقاضہ بھی یہیں تھا اور ساتھ ہی ایک غرض یہ بھی ہوگی کہ آپ حضرت عبداللہ ابن مکتومؓ سمیت مسلمانوں کو مجلس کے آداب سکھلائیں کہ پہلے کچھ لوگ بات کرہے ہو ں تو ذرا انتظار کرلیا جائے لیکن اللہ تعالی نے اس حکمت کے تحت کہ جو آپ سے دین سیکھنے کے لئے خود ہی آپ کے پاس چل کرآیا ہے اسے دین سیکھنے کا شوق ہے اسے آپ کی باتیں ضرور فائدہ پہنچائیں گی لیکن ان لوگوں کے بارے میں یہ یقین نہیں ہے تو جو فائدہ یقینی ہو ہمیں پہلے اسے حاصل کرنا چاہئے اور اس کے لئے اپنا قیمتی وقت لگایا جانا چاہئے ۔ اس ضمن میں قرآن کریم کی پاکیزگی اور اس کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ ا س سے جو لوگ بھی نصیحت حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا چاہیں گے وہ ضرور اٹھالیں گے اس لئے آپ کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سے ہدایت چاہنے والے کسی انسان کو نظرا نداز کرکے جو لوگ ہدایت نہیں چاہتے ان کے لئے اتنا خاص اہتمام کریں ۔ایک بات یہ بیان فرمائی کہ قیامت کے دن کچھ چہرے کھلے ہوںگے اور کچھ چہرے بہت ہی مایوس ہوں گے اور جنت وہ جہنم کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بیان کیاگیا ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان اپنی فکر میں رہے گا یہاں تک کہ ایک انسان اپنے بھائی ،ماں ،باپ ،بیوی اور بچوں سے بھا گے گا کچھ چہرے کھِلے ہوئے ہوں گے تو کچھ بڑے ہے غمگین اور جرم کا بہت زیادہ احساس کررہے ہوں گے ۔سورہ ٔ تکویر میں قیامت سے پہلے ہونے والے ہولنا ک واقعوں کو بیان کرتے ہوئے ایک بات یہ بتائی گئی ہے کہ جن بچیوں کو کسی بھی طریقے سے زند ہ پید ا نہیں ہونے دیا جاتا یازندہ پیدا ہونے کے بعد قتل کردیاجاتاہے ان سے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیاتھا؟ جس سے اس جرم کے بہت ہی گھناؤنے اوربڑے ہونے کو بیان کیا گیا ہے ساتھ ہی آپ ﷺ کی نبوت اور قرآن کریم کے اللہ کی کتاب ہونے کی دلیل بیان فرماتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ خود نبی ﷺ بھی سب سبے بڑے امانت دارہیں نبوت کے لائق ہیں اوردوسری طرف یہ بتلایا گیا ہے کہ جو فرشتے آپﷺ تک قرآن پاک پہنچانے کا کام کرتے ہیں وہ بھی بہت ہی اہم ہیں جنہیں محمد ﷺ نے دیکھا بھی ہے اور وہ آسمانوں پہ فرشتوں کے نگراں بھی ہیں۔سورہ ٔ انفطار میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے انسانو ں کو بہت ہی درست انداز میں بنایا ہے اور کراماکاتبین فرشتے ہر وقت ساتھ لگے رہتے ہیں جو انسانوں کے اعمال کی روداد تیا ر کرتے رہتے ہیں۔سورہ ٔ مطففین میں بھی جنت کے انعامات اور ابرار کے درجات اور اسی کے ساتھ جہنمیوں کے عذاب اور اس بات کا تذکرہ کیاگیا ہے کہ جس طرح جہنمی (غیر ایمان پہ مرنے والے )دنیامیں جنتیوں (ایمان پہ مرنے والوں)کو ہنستے ہیں اسی طرح جہنمی بھی جہنم میں جنیتو ں کے ذریعے ہنسے جائیںگے ۔سوہ ٔ انشقاق میں قیامت کے شرو ع کے دردناک حالات کو بیان کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ اچھے لوگوں کو ان کے اعمال نامے داہنے ہاتھ میں دئے جائیں گے جب کہ برے اعمال والوں کو بائیں ہاتھ میں دئے جائیں گے پھر داہنے والے اپنے اعمال نامے کو مارے خوشی کے اپنے لوگوں کو دکھائیں گے جب کہ بائیں والے افسوس کے مارے یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے موت !ہائے موت!۔
خندق والوں کا واقعہ :
سورہ ٔ بروج میں آخرت کے تذکرے کے ساتھ ہی ایک بڑے عبرت ناک تاریخی واقعے کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے جس کا خلاصہ (تفسیر حقانی کے مطابق)مسلم ،نسائی ،احمداور ترمذی شریف میں اسطرح ہے کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ ہوا کرتاتھا جس کے پاس ایک کاہن رہتاتھا اس نے ایک روز بادشاہ سے کہا کہ میر ی عمر اب ختم ہورہی ہے کسی بچے کو میرے پاس لگاؤ کہ میں اپنا علم اسے سکھلادوں لیکن جو ہوشیار لڑکا اس کے لئے متعین کیاگیا (چوں کہ راہب لوگ اس زمانے میں صحیح دین پہ قایم ہوتے تھے اس لئے) وہ راستے میں خاموشی سے ایک راہب سے بھی ملنے اور صحیح دین سیکھنے لگا لیکن معلوم ہونے پر گھروالے اور کاہن دونوں کی طرف سے ا س کی پٹائی بھی ہو ئی ایک دن کا واقعہ ہے کہ راستے میں ایک خطرنا ک سانپ یا کوئی دوسری چیز تھی جس کی وجہ سے راستہ رُکا ہواتھا اور لوگ بڑے پریشان تھے جب یہ پہنچا تو ایک پتھر اٹھایا اور کہا کہ اگر راہب کی بات حق ہے تو اے اللہ اس مہلک جانور کو ختم فرمااس نے یہ کہکر اسے پتھر سے مارا اور فورا ہی مرگیا اس بات کی بڑی شہرت ہوئی ایک طرف تو اس کی بڑائی ہونے لگی تو دوسری طرف بادشاہ نے اس راہب کو آرے سے چِر وادیا اور اِس بچے کے بارے میںیہ حکم دیا کہ پہاڑی کی چوٹی سے گراگر اسے ماردو لیکن بچے کی بجائے خود بادشاہ کے لوگ ہی گرکر مر گئے ،پھر کشتی میں ڈبو کر مارنے کے لئے بھیجا وہاں بھی بادشاہ کے لوگ ہی ڈوب کر مرگئے پھر خود لڑکے نے ہی کہا کہ میں تمہاری تدبیر وں سے نہیں مرنے والاہوں اگر مارنا ہی ہے تو مجھے سولی چڑھا دو اور یہ پڑھ کر مجھ پر تیر مارو ,,اس لڑکے کے رب کے نام سے،،۔ باد شاہ نے اس کے اس جملے سے نصیحت حاصل کرنے کی بجائے اسے ختم ہی کرنا چاہا اور یہ پڑھ کر اس نے تیر چلایا جو اس لڑکے کی کنپٹیوں پہ لگا اور اس نے اپنے ہاتھوں کو کنپٹیوں پہ رکھ کر دنیا سے چل بسا لیکن مرتے ہی ملک کی حالت بدل گئی لو گ بڑی تیزی سے اسلام میں داخل ہوگئے تو اس بادشاہ نے مسلمانوں کوجلانے کے لئے خندقیں کھودوائیں اور اپنے سپاہیوں کے ذریعے انہیں ایک ایک کرکے آگ میںڈالوادیا۔تفسیر حقانی کے مطابق وہ لڑکا دفن کیاگیا اور حضرت عمر بن الخطابؓ کے زمانے میں اس کی لاش برآمدہوئی تووہ اپنی کنپٹیوں پہ اسی طرح ہاتھ رکھے ہوئے تھا جس طر ح لگنے کے بعد اس نے رکھے تھے۔اس کے بعد پارے کے اخیرتک کے مضامین کچھ اس طرح ہیں کہ آخرت کی طرف بلایا گیا ہے قیامت کے ہولناک واقعات بیان کئے گئے ہیں قریش کے لئے جاڑے اورگرمی کے تجارتی سفر کا آسان کیاجانا بیان کیاگیا ہے آپ ﷺکی پیدائش سے ایک ماہ پچیس روز قبل ہونے والے اصحاب فیل کے اس واقعے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس میں ابرہا بادشاہ کعبہ کوڈھانے کے لئے آیاتھا گوریوں کے ذریعہ اللہ تعالی نے اس کے ہاتھیوں کو تباہ کردیا اور وہ نامراد ہوا ساتھ ہی ابولہب کی بیوی جو آپ ﷺ کے پیچھے ہاتھوں دھو کر پڑی ہوئی تھی اس کے ساتھ ہوئے اللہ کے عذ اب کابھی ذکر ہے کہ وہ اپنی ہی لکڑیوں میں پھنس کر مرگئی ۔اور اخیر میں اللہ کے نبی ﷺپہ جا دو کا اثر ہوجانے اور اس سے حفاظت کے لئے سورہ ٔ فلق اور ناس کا نازل کیاجانا بھی بیان کیاگیا ہے۔
ابرہہ کا واقعہ:
ابرہے کے واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ یمن پر ملوک حِمیَر کا قبضہ تھا یہ لوگ ُمشرک تھے ان کا آخری بادشاہ ذونواس ہے جس نے اُس زمانے کے اہل حق یعنی عیسائیوں پہ بہت مظالم کئے اِسی نے ایک لمبی خندق کھودوا کر اسے آگ سے بھردیا اور جتنے عیسائی ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے سب کو اس آگ کی خندق میں ڈالکر جلاڈالا!!! ان سچے لوگوں کی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی یہ وہی واقعہ ہے جس کی طرف سور ہ ٔبرو ج میں اشارہ کیا گیاہے ان میں سے دوآدمی کسی طرح ان کی پکڑ سے نکل بھاگے اور انہوں نے قیصر ِ ملک ِشام سے فریاد کی قیصر نے حبشے کے بادشاہ کو خط لکھا (یہ بھی عیسا ئی تھا اور یمن کے قریب تھا )کہ تم اس ظالم سے ظلم کا انتقام لو خیر اس بادشا ہ نے یمن کے بادشاہ پہ حملے کے لئے اپنا لشکر بھیجا جس کے کمانڈر ارباط اور ابرہہ تھے اس حملے میں ملک حِمیَر کا یہ بادشاہ بھاگ نکلا اور دریامیں ڈوب کر مرگیا اس طرح اپنے دونوں کمانڈر کے ذریعے یمن پہ حبشہ کے بادشاہ کی حکومت ہوگئی لیکن پھر ان دوکمانڈروں میں لڑائی ہوئی اور ابرہہ نے ارباط کو قتل کرواکر یمن پہ اکیلا قبضہ جمالیااس نے یمن پہ قبضے کے بعد چاہا کہ وہاں ایک بے مثال کنیسہ (عیسائی عبادت خانہ)بناؤں اس کا مقصد یہ تھا کہ یمن کے عرب لوگ حج کے موقع پہ مکے جاکر وہاں خانہ ٔ کعبہ کا طواف کرتے ہیں وہ اِس گھر کی خوبصورتی اور بناؤٹ کو دیکھ کر وہاں جانا بند کردیں اور اسی کنیسہ کا طواف کریں اس خیا ل سے اس نے اتنا بڑا اور اونچا کنیسہ بنا یا کہ اس کی اونچائی کو نیچے کھڑا ہونے والا آدمی نہیں دیکھ سکتاتھااور اسے مکمل طور پہ سونے اور جواہر سے جَڑ دیاجب کام مکمل ہوگیا توا س نے پورے ملک میں اعلان کیا کہ اب یمن سے کوئی آدمی خانہ ٔ کعبہ کی عبادت کے لئے نہ جائے بلکہ اسی گھر میں عبادت کرے ۔ عرب جو بت پرستی کے شکار ہوجانے کے باوجود کعبہ کی عظمت کے قائل تھے اور دین ابراہیمی سے اپنے کو جوڑتے تھے اس اعلان سے بہت ناراض ہوئے اور عدنان،قحطان اور قریش کے خاندان کے لوگوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی یہاں تک کہ کسی نے رات میں اس کنیسے میں جاکر وہاں گندگی کردی یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ ان میں سے مسافر قبیلے نے کنیسہ کے قریب اپنی ضروریا ت کے لئے آگ جلائی جو کنیسے میں لگ گئی اور اس سے اس کا کا فی نقصان ہوگیا۔
پھرکیا تھا! جب ابرہہ کو یہ معلوم ہوا کہ کسی قریشی نے یہ سب کیا ہے تو اس نے قسم کھا لی کہ میں ان کے کعبے کو ضرور ڈھاؤں گا اور اس نے اس کی تیاری شروع کرتے ہوئے نجاشی بادشاہ سے اس کی اجازت مانگی بادشاہ نے نہ صرف اس کی اجازت دی بل کہ اپنے بے مثال ہاتھی (جس کا نام محمود تھا) بھی بھیجدیا اور اس کے ساتھ ہی آٹھ دوسرے ہاتھی بھی ان کی سوچ یہ تھی کہ خانہ ٔ کعبہ کے ستونوں میں لوہے کی مضبوط زنجیریں باندھ کران زنجیروںکو ہاتھیوں کے گلے میں باندھ دیاجائے گا اور انہیں ہنکا دیا جائے گا تو پورا کا پورا بیت اللہ ایک ہی ساتھ زمین پہ گرجائے گا۔ اور عربوں نے مختلف محاذوں پہ اس سے جنگ بھی کی لیکن وہ ابرہہ کے ہاتھوں شکست کھاگئے پھر حضرت عبدالمطلب کے اونٹوں کے لینے ،ان کی واپسی اور ان سے گفتگو کے بعد جب ابرہہ نے دوسرے دن صبح کو کعبہ پہ حملے کی تیاری شروع کی تو نوفل ابن حبیب (جسے یہ لوگ راستے سے پکڑ لائے تھے اس )نے نجاشی کے بھیجے ہوئے خاص ہاتھی کے کان میں کہا کہ تم جہاں سے آئے ہو وہیں واپس چلے جاؤ کیوں کہ تم اللہ کے محفوظ شہر مکے میں ہو اب ہاتھی جو بیٹھا تھا وہ لڑائی کے لئے کسی بھی قیمت پہ اٹھنے کے لئے تیار نہ ہوا اسے اٹھانے کے لئے بہت ساری سزائیں بھی دی گئیں پھر بھی وہ نہ اٹھا جب اسے یمن کی طرف چلانا چاہا توپھٹ سے اٹھ کھڑا ہوگیا لیکن جوں ہی مکہ ٔ مکرمہ کی طرف چلانا چاہا فوراً بیٹھ گیا تو ایک تو یک طرف تو جس ہاتھی سے سب سے زیادہ امید تھی اس نے جو اب دیدیا دوسر ی طرف اللہ تعالی نے دریا کی طرف سے ابابیل پرندے کو بھیجدیا ان پرندوں نے اپنی کنکریوں سے جو ابرہہ کے لشکر پہ حملہ کیا توقرآن یہ کہتا ہے کہ انہیں کھائے ہوئے بھونسے کی طر ح بنا دیا۔
��