نکاح کے اندردینداری کو اختیار کرنے کی تاکید کا سبب
تینوں جگہوں پر تقو ے کا حکم اور اﷲتعالیٰ سے ڈرنے کی تاکید فرمائی ہے،جب دل میں اﷲ تعالیٰ کا ڈر ہوگا،تووہ تمام حقوق ادا کرے گا۔
افادات : حضرت مفتی احمد خانپوری مدظلہ
پیش کش : مولانا ندیم احمد انصاری حفظہ اللہ
جیساگناہ ویسی سزا
آخرت میںجوسزائیںہیںان میںگناہ کی نوعیت کومدِنظررکھاجائے گا، جیسا گناہ ہوگا ویسی ہی سزا ہوگی۔حدیث ِپاک میں آتاہے کہ اگرکسی آدمی کی دوبیویاں ہوںگی اور ان میںسے ایک کی طرف جھک گیااوردوسرے کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی کی، تو قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ (بدن کاآدھاحصہ)لقوہ (فالج) شدہ ہوگا۔(ابوداودشریف:۲۱۳۳)یعنی وہ ایک کی طرف مائل ہواتھاتومیدانِ حشر میں اس طرح آئے گا کہ بدن کے آدھے حصے پرلقوہ ہوجائے گا ،پھر آگے کی سزا تو الگ رہے گی ۔
’
’کَالْمُعَلَّقَۃِ‘‘کی تفسیر
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے{کَالْمُعَلَّقَۃِ}کی تفسیر بخاری شریف میں منقول ہے کہ اس بے چاری کو ایسابنادیاکہ نہ تو اس کوبغیرشوہر کا کہہ سکتے ہیں،اس لیے کہ اگر بغیر شوہر کی ہوتی تووہ نکاح کرسکتی تھی،لیکن وہ توایک شوہر کے نکاح میںہے اس لیے بغیر شوہر کی بھی نہیں ہے،اورنہ شوہر والی کہی جاسکتی ہے یعنی شوہر والی عورت کاتوشوہرحق اداکرتاہے اور اس کو محبت دیتاہے،یہ بے چاری اس سے بھی محروم ہے،تواس کو نہ توشوہر والی کہہ سکتے ہیں اور نہ بغیرشوہر والی کہہ سکتے ہیں۔(بخاری شریف:۴۶۰۰)
ازدواجی تعلقات کی درستگی کاراز
آیت کایہ ٹکڑاپوری بات کا مین پوئنٹ(Main Point) ہے:{وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا}تم حالات کو ٹھیک کرو ،حقوق کی ادایگی کا اہتمام کرواوردرستگی کاخیال رکھو اور اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ نکاح والی زندگی میں ازدواجی تعلقات کی درستگی کے لیے جوخاص تاکید فرمائی ہے، وہ یہی ہے ۔ نکاح کے خطبے میں جو تین آیتیں پڑھی جاتی ہیں ان میں بھی یہی بات ہے:
{یَاأَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْارَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ}
{یَاأَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااﷲَحَقَّ تُقَاتِہٖ}
{یَاأَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااﷲَ وَقُوْلُوْاقَوْلاًسَدِیْداً}
ان تینوں جگہوں پر تقو ے کا حکم اور اﷲتعالیٰ سے ڈرنے کی تاکید فرمائی ہے،جب دل میں اﷲ تعالیٰ کا ڈر ہوگا،تووہ تمام حقوق ادا کرے گا۔
اپنی لڑکی کس کو دوں ؟
حضرت حسن بصری رحمۃاﷲعلیہ سے کسی نے پوچھا کہ مَیںاپنی لڑکی کس کو دوں؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ ایسا لڑکا ڈھونڈوجو اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہو،اس لیے کہ اگروہ اس کے ساتھ محبت کرے گاتواس کاحق اداکرے گاہی،لیکن اگر وہ اس لڑکی کوپسند نہیں کرے گااوراس سے محبت نہیںکرے گا؛تب بھی اﷲکے ڈر کی وجہ سے اس کی حق تلفی بھی نہیںکرے گا۔نکاح کے اندردینداری کو اختیار کرنے کی تاکید اسی وجہ آئی ہے ۔ بہر حال ! تقویٰ بنیادی چیزہے ۔
میاںبیوی کے تعلقات کے اندربہت سی باتیںایسی ہوتی ہیںجو لوگوںکے سامنے کھولی نہیںجاسکتیں،بلکہ گھروالوںکے سامنے بھی نہیںکھولی جاسکتیں،خاندان والوںکے سامنے بھی ان کااظہار نہیںکیاجاسکتا۔جب ماںباپ کے سامنے بھی زبان نہیںکھلتی،توپھر باہروالوںکی بات تودور رہی،اس لیے جب تک تقویٰ نہیںہوگا،تب تک بات نہیںبنے گی۔
انسانی فطرت کا لحاظ
دیکھو!شریعت نے انسانی فطرت کاکتنا لحاظ کیاہے۔ابوداودشریف کی روایت ہے نبی کریم انے ارشاد فرمایا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کی کسی بات پراگرناراض ہوا اور بیوی کی (شریعت کی حد میں رہتے ہوئے معمولی) پٹائی کی، تواس سے یوںمت پوچھناکہ کیوں مارا؟ (ابوداودشریف: ۲۱۴۹) حضورانے یہ تاکید فرمائی کہ اس سے پوچھانہ جائے،اس لیے کہ کوئی ایسی بات ہوسکتی ہے جوبیان کرنے کے قابل نہ ہو۔ کوئی بچے کی پٹائی کرے اورپوچھاجائے تواس کی وجہ بتلائی جاسکتی ہے،لیکن بیوی کی پٹائی کی ہے اوروجہ بتائی جائے، یہ ضروری نہیںہے۔ وہاں ہر چیز بتانے کی نہیں ہوتی، بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیںجن کااظہار نہیںکیاجاسکتا۔نبی کریم ا نے بھی اپنی تعلیمات میں فطری تقاضوںکااتنا زیادہ لحاظ کیاہے کہ شوہر بیوی کی پٹائی کرے تو اس سے پوچھا نہ جائے۔
{وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اﷲَ کَانَ غَفُوْراًرَّحِیْماً}اگرتم درستگی کا خیال رکھو اور اﷲتعالیٰ سے ڈرتے رہو یعنی محبت کے فطری طورپرکم اور زیادہ ہونے کے باوجود تمام بیویوں کے ساتھ خرچہ وغیرہ میںاورحقوق کی ادایگی میںمساوات کا اہتمام کرتے رہو اورساتھ ہی ساتھ اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے بھی رہتے رہو،پھربھی اگرغیراختیاری طورپر تمہارادل کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہے؛تو اﷲتعالیٰ معاف کرنے والے اور مہربانی کرنے والے ہیں ۔