اپنوں سے ہی ناراض ہوا جاتا ہے ، محبتوں کے ساتھ رہنا سیکھیں
ندیم احمد انصاری
ہر عقل مند انسان کی نظر میں خاندان و رشتے ناطوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور اجنبی کے مقابلے میں ظاہر ہے کہ رشتے دار ہی کام آیا کرتے ہیں، خواہ یہ رشتے خون کے ہوں، مصاہرت کے ، محبتوں کے یا پڑوس کے ۔ جو جتنا قریبی ہوگا اسے اپنے رشتے دار کی پریشانی و ضرورت کا اتنا ہی احساس ہوگا، یہ ایک حقیقت ہے اور اسی لیے خدا نے خود رشتے داریوں کو نبھانے کی تاکید کی ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ہم مادیت میں ترقی کرتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے ہمارے رشتے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں، کیوں کہ مادیت نے ہمیں کسی حد تک خود کفیل بنا دیا ہے ، اب ہمیں گویا دوسری کی ضرورت کم ہو گئی ہے ، اس لیے ہم کسی سے ربط رکھنے کے لیے آمادہ نہیں،ہمیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے پر ہمیں ان کا احسان ماننا پڑے گا۔ مثال کے طور پر پہلے روپے پیسوں کی کمی تھی، غریبی کا دور دورہ تھا، شادی بیاہ میں بہت سے ہاتھوں کی ضرورت پڑتی تھی، تو شاید اسی لیے لوگ کم از کم شادی بیاہ میں سالوں پرانی ناراضگی و دشمنی بالاے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو راضی کرلیا کرتے تھے ، لیکن اب مال و اسباب کی فراوانی ہے ، رشتے دار ساتھ نہ دیں تو کام کرنے والے ہاتھ کرایے پر مل جاتے ہیں، اس لیے لوگ اپنوں کو منانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ، جب کہ اپنوں کے ساتھ ہونے میں جہاں کام میں ہاٹھ بنٹتا ہے ، وہیں دعائیں اور محبت بھی نصیب ہوتی ہے ، جو مال و دولت سے ہرگز نہیں خریدی جا سکتی۔اب تو حال یہ ہے کہ دُور کے رشتے دار یا سگے چچا، ماموں، پھوپھی اور خالا وغیرہ کی شرکت یا رضامندی تو درکنار سگے ماں باپ کی رضامندی و شرکت کو اہمیت نہیں دی جاتی، اور اپنی پسند کے نام پر اپنوں کو قربان کر دیا جاتا ہے ،ظاہر ہے ایسے شادی بیاہ میں کتنی برکتیں نازل ہوتی ہوں گی۔ہر عقل مند انسان کی نظر میں خاندان و رشتے ناطوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور اجنبی کے مقابلے میں ظاہر ہے کہ رشتے دار ہی کام آیا کرتے ہیں، خواہ یہ رشتے خون کے ہوں، مصاہرت کے ، محبتوں کے یا پڑوس کے ۔ جو جتنا قریبی ہوگا اسے اپنے رشتے دار کی پریشانی و ضرورت کا اتنا ہی احساس ہوگا، یہ ایک حقیقت ہے اور اسی لیے خدا نے خود رشتے داریوں کو نبھانے کی تاکید کی ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ہم مادیت میں ترقی کرتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے ہمارے رشتے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں، کیوں کہ مادیت نے ہمیں کسی حد تک خود کفیل بنا دیا ہے ، اب ہمیں گویا دوسری کی ضرورت کم ہو گئی ہے ، اس لیے ہم کسی سے ربط رکھنے کے لیے آمادہ نہیں،ہمیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے پر ہمیں ان کا احسان ماننا پڑے گا۔ مثال کے طور پر پہلے روپے پیسوں کی کمی تھی، غریبی کا دور دورہ تھا، شادی بیاہ میں بہت سے ہاتھوں کی ضرورت پڑتی تھی، تو شاید اسی لیے لوگ کم از کم شادی بیاہ میں سالوں پرانی ناراضگی و دشمنی بالاے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو راضی کرلیا کرتے تھے ، لیکن اب مال و اسباب کی فراوانی ہے ، رشتے دار ساتھ نہ دیں تو کام کرنے والے ہاتھ کرایے پر مل جاتے ہیں، اس لیے لوگ اپنوں کو منانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ، جب کہ اپنوں کے ساتھ ہونے میں جہاں کام میں ہاٹھ بنٹتا ہے ، وہیں دعائیں اور محبت بھی نصیب ہوتی ہے ، جو مال و دولت سے ہرگز نہیں خریدی جا سکتی۔اب تو حال یہ ہے کہ دُور کے رشتے دار یا سگے چچا، ماموں، پھوپھی اور خالا وغیرہ کی شرکت یا رضامندی تو درکنار سگے ماں باپ کی رضامندی و شرکت کو اہمیت نہیں دی جاتی، اور اپنی پسند کے نام پر اپنوں کو قربان کر دیا جاتا ہے ،ظاہر ہے ایسے شادی بیاہ میں کتنی برکتیں نازل ہوتی ہوں گی۔ بات صرف شادی بیاہ کی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ آج کے زمانے جہاں گھر فرنیچر وغیرہ سے سجتے جا رہے ہیں، وہیں محبتوں و الفتوں سے خالی بھی ہوتے جا رہے ہیں، باپ کو بیٹے کی پروا ہے نہ بیٹے کو باپ کی، بیوی کی شوہر سے نہیں جمتی اور شوہر کی بیوی سے ۔ جس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں اکثر لوگ اپنا حق تو مانگتے ہیں، لیکن دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر نہیں کرتے ۔ مثال کے طور پر بیوی یہ تو چاہتی ہے کہ شوہر اس کی ضرورتیں پوری کرے ، اس کا خیال رکھے ، لیکن خود اس کے لیے آرام و سکون اور محبتوں کی وجہ نہیں بنتی۔ اسی طرح شوہر بھی یہ تمنا تو کرتا ہے کہ اس کی بیوی ہر چھوٹی بڑی بات میں اس کی تابع دار و فرماں بردار ہو، لیکن خود اس کی خوشی و ناخوشی کا خیال نہیں رکھتا۔ استاد کا خیال ہے کہ شاگرد اس کی خدمت نہیں کرتے اور شاگردوں کا کہنا ہے کہ استاد محبتوں کا معاملہ نہیں فرماتے ، اسی پر تمام رشتوں کو قیاس کر لیجیے ، کیوں کہ یہ معاملہ تقریباً ہر رشتے میں اور ہر موقع پہ پیش آتا ہے کہ ہم دوسروں کو ان کی ذمے داریاں تو یاد دلاتے رہتے ہیں، لیکن اپنی کمی کوتاہیوں کو دور کرنے کی فکر نہیں کرتے ، جس سے آپسی رنجشوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ خاندان تقسیم ہو جاتے ہیں۔بعض دفع اپنی ذرا سی انا بھی اس کا سبب بنتی ہے ، جس کے بعد انسان سالہا سال تنہا زندگی بسر کرنا تو گوارا کرتا ہے ، لیکن گلے شکوے بھلا کر اپنوں کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں کرتا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ہماری کم علمی بھی ہے کہ ہم نے اپنے کام کی باتیں تو خوب یاد کر رکھی ہیں، لیکن دوسروں سے متعلق ہدایات کو ہم نے بالاے طاق رکھا ہوا ہے ۔مثال کے طور پر اکثر مسلمان مرد یہ حدیث دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اگر کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی ، تو بیوی کو کہا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، لیکن ایسے مرد اکثر یہ نہیں جانتے کہ حدیث ہی میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ برا ہے وہ آدمی جو رات کو اپنی بیوی سے ضرورت پوری کرے اور دن میں اس کو گالیاں بکے یا مارے پیٹے ،یا بہترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو،وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح والدین کا معاملہ ہے کہ اکثر والدین یہ کہتے ہوئے تو سنے جاتے ہیں کہ اولاد کو یہ حق نہیںوہ والدین کی کسی بات پر اُف بھی کریں، لیکن ایسے والدین یہ بھول جاتے ہیں اگر واقعی وہ اپنی اولاد کی تربیت پر بچپن میں دھیان دیتے تو آج انھیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتا، کیوں کہ والدین کی ذمّے داری صرف کھانے پینے اور اسکول ٹیوشن کے خرچے برداشت کر لینے پوری نہیں ہو جاتی، ان کی اخلاقی تربیت از بس ضروری ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ درخت سے پھل کھائیں تو ببول لگانے سے پرہیز تو کرنا ہی ہوگا۔ اپنوں سے نا اتفاقی کا ایک بڑا اور اہم سبب ناک یا انا کا مسئلہ بھی ہوتا ہے ، جس کے چلتے ہم اپنوں کی بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ، اولاد اپنے والدین کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ والدین اس بات کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ اپنی اولاد کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہر معاملے اور رائے میں پوری طرح اتفاق ہونا تو کنھیں دو انسانوں میں مشکل ہی ہے ، لیکن کیا درمیان کا کوئی ایسا راستہ نہیں نکالا جا سکتا جس سے دونوں باوجود اختلاف کے ساتھ میں رہ سکیں؟بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ جب بیٹے کے پاؤں میں باپ کا جوتا آنے لگے تو باپ کو بیٹے پہ ہاتھ اٹھانے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے ، لیکن ہم اپنے غصّے میں اتنے پاگل ہو جاتے ہیں کہ پہلے تو اولاد برا بھلا کہتے ہیں اور کبھی جوان بیٹوں پر ہاتھ تک اٹھا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ غلط قدم اٹھا لے یاگھر چھوڑ کر چلا جائے تو زندگی بھر گھٹتے ہیں۔ اسی طرح اولاد بھی گرم جوشی میں والدین کے ساتھ بحث و مباحثہ تو کر لیتی ہے اور پھر جب باپ کی اِگو انھیں خود سے الگ کر دیتی ہے تو ساری زندگی اس ٹھنڈے سایے کو ترستی ہے ۔ یہ سب باتیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنے سمجھنے کی ہیں، نہ کہ گرما گرمی کی، تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے ۔ایک آدمی گرم ہو تو دوسرے کو اس وقت خاموشی اختیار کرنے میں ہی فایدہ ہے ، کیوں نہیں خیال کیا جاتا کہ ناراضگی اپنوں سے ہی ہوا کرتی ہے ، ایرے غیرے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا، راہ چلتے ہوئے لوگوں سے لڑائی تو ہو جاتی ہے ، لیکن انھیں یاد نہیں رکھا جاتا۔ یاد رکھیے چار دن کی چاندنی ہے ، پھر اندھیری رات ہے ، نہ جانے کس موڑ پر کس کی زندگی کی شام ہو جائے ، ضروری نہیں کہ بوڑھے والدین ہی پہلے وفات پائیں، کبھی جوان اولاد بھی داغِ فراق دے جایا کرتی ہے ، اس لیے ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے فرائضِ منصبی جان جان کر انھیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو اس حد تک معاف کرنے کی عادت ڈالیں، جس حد تک اپنے گناہ خدا سے معاف کروانے کے امید وار ہوں، محبتیں بانٹیں اور خوش رہیں۔یاد رکھیے بیتا ہوا ہوا وقت اور گزرے ہوئے لوگ واپس نہیں آیا کرتے ۔ پھر پچھتائے ہوت ،کیا جب چڑیا چُگ گئی کھیت