عورتوؐں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ اخلاق کے ساتھ زندگی گزارو
افادات: مفتی احمد خانپوری
ترتیب: ندیم احمد انصاری
علامہ نووی رحمۃاﷲعلیہ نے عنوان قائم کیاہے کہ عورتوں کے سلسلہ میںنبی کریم ا نے کیاکیاتاکیدیں فرمائی ہیں۔پہلے اﷲ تعالیٰ کا ایک ارشاد پیش کیاہے{وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ}یہ سورۂ نسآء کی آیت کاایک ٹکڑاہے کہ عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ اور حسنِ اخلاق کے ساتھ زندگی گزارو۔جیسا کہ پہلے بتلا چکا ہوںکہ چونکہ زمانہ ٔجاہلیت میں عورتوںکے حقوق کے معاملہ میں بہت زیادہ بے پروائی برتی جاتی تھی اس لئے اسلام نے اس سلسلہ میں خاص تاکید فرمائی ہے۔ گویا عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اورحسنِ معاشرت یعنی اچھے طریقہ سے زندگی گزارنے کی اﷲ تبارک و تعالیٰ نے خاص تاکید فرمائی بلکہ حکم دیا۔ {عَاشِرُوْا} امر کا صیغہ ہے جس کے ذریعہ حکم دیا جاتا ہے۔معاشرت کا معنٰی دوافراد کاایک ساتھ رہ کر زندگی گزارنا،چونکہ شوہراوربیوی ایک ساتھ مل کرزندگی گزارتے ہیں، اس لئے حدیث ِپاک میں شوہر کو {عَشِیْرٌ}کہا گیا یعنی وہ آدمی جس کے ساتھ زندگی گزاری جائے،اسی کو اردو میں ’’رفیقِ حیات ‘‘ کہتے ہیں۔ خیر!حسنِ معاشرت کی اﷲ تعالیٰ نے خاص تاکید فرمائی ہے اوراسی کانتیجہ ہے کہ نبی کریم انے بھی اپنے ارشادات میں اس موضوع پر خصوصیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جیسا کہ آگے آرہاہے۔اﷲتعالیٰ کی سفارش یہاںایک چیزخاص طورپرغورطلب ہے کہ عورتوںکے ساتھ حسنِ سلوک کے متعلق اﷲتعالیٰ کی طرف سے خاص تاکیدفرمائی گئی ہے۔ حضرت مولاناحکیم محمداختر صاحب دامت برکاتہم ایک مثال سے اس بات کوسمجھاتے ہوئے فرماتے ہیںکہ کسی کانکاح کسی لڑکی کے ساتھ ہوا اورجب رخصتی کاوقت آیااوروہ لڑکی اس کے گھرآئی تواس علاقہ کاکلکٹر،یاانسپکٹر یاآئی جی پی کہنے لگاکہ دیکھو!یہ ہمارے دوست کی لڑکی ہے،اس کے ساتھ اچھامعاملہ کرنا، جب یہ معلوم ہوگیاکہ یہ لڑکی جوہمارے گھرمیںدولہن بن کر آئی ہے،اس کاباپ آئی جی پی، یا ڈی ایس پی کادوست ہے، تویہ سن کردولہے صاحب کا پسینہ چھوٹ جائے گا،جب وہ لڑکی رخصت ہوکر اس کے گھر میں آجائے گی اور کبھی کوئی معاملہ ہوگا تووہ ہمیشہ ڈرتارہے گا،اس کے دل ودماغ اورتصورمیںیہی رہے گا کہ فلاں نے اس کی طرفداری کی تھی،ڈی ایس پی کاچہرہ ہی ہر وقت اس کے سامنے گھومتارہے گاکہ اگراس کے ساتھ کہیںکوئی ناروا سلوک ہوگیااوروہاںاطلاع مل گئی توہماراحلیہ بگڑجائے گا اور جواب دہی مشکل ہوجائے گی۔ تو دیکھئے!دنیاکی حکومت کے ایک کا رندے کی طرف سے اگرکسی لڑکی کی سفارش آپ تک پہنچ گئی توآپ کواس کے معاملہ میںبہت زیادہ احتیاط کاسلوک کرناپڑتاہے، اس کے ساتھ شفقت اورہمدردی والارویہ اپناناپڑتاہے؛توپھراﷲتعالیٰ کی طرف سے اگرتاکید کی جائے کہ یہ ہماری بندیاںہیںان کے ساتھ اچھاسلوک کیجیو،اور بھلائی کے ساتھ زندگی گزاریو؛توایک مؤمن کومؤمن ہونے کے ناطے سے اﷲتعالیٰ کی طرف سے کی جانے والی تاکیدپر کیسی تو جہ دینی چاہیے ؟یہ سوچنے کی چیز ہے۔ اورجب ایک فوجدارکااتناڈرلگا ہواہے کہ اگر اس کی سفارش کی طرف تو جہ نہیں کی گئی تو اس کا انجام کیا ہوگا؛تواﷲتعالیٰ کی طرف سے جوتاکید کی گئی ہے اگر اس کا خیال نہیں رکھا گیا تو اس کا انجام بھی سوچنا چاہیے ۔ پھرسے علوم کا سلسلہ شروع ہوگیا حضرت اقدس حکیم الامت مولانااشرف علی صاحب تھانوی نور ﷲمرقدہ‘ کے یہاں پورا نظام الاوقات بناہواتھا،اسی کے مطابق سارے کام ہوتے تھے،صبح کوتفریح کے لئے تشریف لے جاتے تھے،وہاںسے واپسی کے بعدبیان القرآن کی تالیف کاکام فرماتے تھے۔ایک روز ایساہواکہ حضرت کی اہلیہ محترمہ کوکسی جگہ جانا تھا اورانہوںنےگھرمیںکچھ مرغیاںپال رکھی تھیں، جاتے ہوئے انہوںنے حضرت سے کہہ دیاکہ فلاںوقت مرغیوںکوکھول دینا اور دانہ پانی دے دینا۔چنانچہ فجرکے بعدحضرت تواپنے معمول کے مطابق چلے گئے اورعادت نہیں تھی اس لئے یادبھی نہیںرہا،تفریح کے دوران قرآنِ پاک کی تلاوت کابھی معمول تھا،وہاں سے آنے کے بعد دارالتصنیف میں بیان القرآن کی تالیف کے لئے تشریف لے گئے، حضرت فرماتے ہیںکہ جب مَیں لکھنے کے لئے بیٹھا توکوئی بھی چیز ذہن میں نہیں آ رہی تھی، کچھ سمجھ میںنہیں آرہاتھا کہ کیا لکھوں، دیرتک سوچتارہالیکن ایک لفظ بھی نہیںلکھ پایا پھرمَیں نے اﷲتعالیٰ سے دعاکی کہ اے اﷲ! مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میرے کس گناہ کی وجہ سے اس وقت مَیں کچھ نہیںلکھ پارہاہوں؛ تاکہ مَیںاپنے اس گناہ سے توبہ کروں۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دل میں ڈالا گیاکہ ہماری ایک مخلوق مرغیاںڈربے میںبندپڑی ہیں،ابھی تک ان کو دانہ پانی نہیں ملاہے؛ پھرتم پرعلوم کی بارش کیسے ہو؟حضرت فوراًاُٹھے،جاکران مرغیوں کونکالا، دانہ دیا،ان کے پاس پانی رکھا،اس سلسلہ میںجوکوتاہی ہوئی اس سے توبہ کی، پھر دارالتصنیف میں جاکر بیٹھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ بیٹھتے ہی علوم کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔رحمتیںایسے گھرانے پرکیسے اتریں؟ تودیکھئے!یہاںحضرت سے قصداً ایسا نہیں ہوا تھابلکہ نادانستہ طورپربھول سے ایک ایسی مخلوق جوانسان نہیںہے اس کے ساتھ اس کے حق کی ادائیگی میںغفلت ہوئی، اس کانتیجہ ایک شیخِ وقت اوراپنے وقت کے سیدالعلماء کے ساتھ یہ ہواکہ علوم کا فیضان جوباری تعالیٰ کی طرف سے ان کے قلب پرہوتاتھاوہ منقطع ہوگیا۔اب اگراشرف المخلوقات کے ساتھ اور اس میںبھی کمزورصنف عورت کے ساتھ جوبے چاری بہت کچھ قربانی دے کرتمہارے گھرآئی ہوئی ہے،اس کے ساتھ کسی گھرمیںزیادتی ہواوروہ بھی نادانستہ نہیں،بلکہ دانستہ اورقصداً؛تو پھر اﷲتعالیٰ کی رحمتیںایسے گھرانے پرکیسے اتریں؟اس کے بعد بھی اگر لوگ اس بات کی توقع اورامیدرکھیں کہ ہمارے کا م بنیں ؛تو یہ محال ہے ۔کام کیوںبگڑتے ہیں؟ بہت سی مرتبہ گھرانے والوںکویہ احساس بھی نہیںہوتاکہ ہمارے ساتھ قدرت کی طرف سے یہ جو معاملہ ہورہا ہے،اﷲ تعالیٰ روٹھے ہوئے ہیںاورہمارے کا م بگڑ رہے ہیں، اﷲتعالیٰ کی طرف سے فضل وکرم کامعاملہ نہیںہورہاہے؛اس کی وجہ کیا ہے؟اس طرف دھیان ہی نہیںجاتااوراس کو اپنا قصورسمجھاہی نہیں ہے، اس کوقابلِ اعتناء،قابلِ اہتمام اور قابلِ توجہ چیزسمجھا ہی نہیں ہے کہ اس کی طرف دھیان جائے۔ ہروقت پریشان رہتے ہیں اور پھر مزید نحوست یہ آتی ہے کہ دوسروںپربدگمانیاں کرتے ہیںکہ کسی نے کچھ کرادیا ہے، اﷲتعالیٰ کی طرف سے یہ مزید عذاب ہے کہ دوسری پگڈنڈی پرچل پڑتاہے، اب معلوم نہیں کہاں پہنچے گا،اصل بیماری کی طرف تو جہ کرے تو اس کا علاج بھی ہو، اور صحیح علاج ہو تو پھر شفا بھی ہو۔ہماری نگاہ محدودہے خیر!یہاںاﷲتبارک وتعالیٰ کی طرف سے خاص طورپرتاکیدکی گئی ہے {وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًاوَّیَجْعَلَ اﷲُ فِیْہِ خَیْراًکَثِیْراً}یہاں علامہ نووی رحمۃاﷲعلیہ نے پہلا ٹکڑاہی پیش کیاہے لیکن مَیںنے اس کے آگے کادوسرا ٹکڑا بھی اس لئے پڑھاکہ آگے جوروایتیںآرہی ہیںان میںاس سے روشنی ملے گی۔ اگرتم شادی کرکے کسی عورت کولے آئے اب تم ان کوناپسندسمجھتے ہو،وہ تمہیںاچھی نہیں لگتی؛توان کے ساتھ ناروااورغلط سلوک کرنے کی ضرورت نہیںہے، اس لئے کہ بہت سی مرتبہ ایساہوتاہے کہ کسی چیزکوتم ناپسندکرتے ہواورنتیجہ کے اعتبارسے اﷲ تعالیٰ نے اس میںتمہارے لئے بہت بڑی بھلائی رکھی ہے۔ہم توناقص ہیں ، اس دیوارکے پیچھے کیا ہے یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے، بلکہ اگردیوارہٹادی جائے اورسامنے افق تک کھول دیاجائے،تب بھی ہماری نگاہ محدود ہے، ہماری آنکھوںکایہ حال ہے کہ کھلاہواہونے کے باوجود ایک حد سے آگے نہیں دیکھ سکے گی۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں خاص طور پر تنبیہ فرمادی ۔(حدیث کے اصلاحی مضامین: 5/131-135)