گائے کی قربانی قرآن کی زبانی
ندیم احمد انصاری
(اسلامی اسکالر و صحافی)
گذشتہ دنوں احمدآباد ،گجرات میں ایک عجیب و غریب پوسٹر لگایا گیا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ قرآنِ کریم میں گئو رکشا کی ہدایت موجود ہے،یہ پوسٹر گئو سیوا اور گئو چار وکاس بورڈ کی جانب سے لگایا گیا ہے،جس میں ایک طرف گجرات کی وزیرِ اعلیٰ آنندی بین پٹیل کی تصویر ہے تو دوسری طرف چاند تارہ بنایا گیا ہے ۔ایک انگریزی اخبار کے مطابق پوسٹر میں قرآنِ کریم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے : ’اکرم البقرہ ، فإنہا سید ۃ البہائمۃ‘اس کا ترجمہ اس طرح لکھا گیا ہے کہ گائے کی عزت کرو ، کیوں کہ یہ جانوروں کی سردار ہے ۔ پوسٹر میں مزید کہا گیا کہ قرآنِ کریم میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ گائے کا گوشت کھانے سے کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جب کہ گائے کا دودھ ، دہی اور گھی صحت کے لیےمفید ہیں،اس لیے ہم سبھی کو گائے کا گوشت کھانے سے بچنا چاہیے اور اس کی عزت کرنی چاہیے ۔
یہ ایک ایسا افترا اور مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہے جسے ہر پڑھا لکھا بخوبی سمجھ سکتا ہے، اس طرح کی کوئی آیت قرآنِ کریم میں موجود ہی نہیں۔ کسی بھی عربی جملے کو قرآنِ کریم کا حصہ بتلانا ایک بڑی خیانت ہےاور قرآنِ کریم میں تحریف کے مترادف ہے، جس کے ذریعے جان بوجھ کر عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوکشش کی جا رہی ہے،جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ گائے کے گوشت کے متعلق قرآنِ کریم میں نہ کوئی ترغیب وارد ہوئی ہے نہ ترہیب یعنی اسلام میں گائے کے گوشت کھانے کی نہ تو ہدایت دی گئی ہے کہ کوئی گائے کا گوشت نہ کھائے تو وہ مسلمان نہیں اور نہ ہی اس سے منع کیا گیاہےکہ اس کے گوشت میں کسی طرح کی کوئی برائی ہےبلکہ مذہبِ اسلام کے مطابق گائے کا گوشت فی نفسہ حلال اور پاکیزہ ہے۔ یہ تو ہندوستانی مسلمانوں کا ایثار اور رواداری ہے کہ بعض مقامات پر گائے کے ذبیحے پر پابندی کے سبب وہ اس سے رُکے رہتے ہیں تاکہ ملک کا ماحول خراب نہ ہو اور یہ تعلیم بھی خود اسلام کی دی ہوئی ہے، جس میں فتنہ پروری کو قتل سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔اسی لیے علمائے ہند نے ان الفاظ کے ساتھ گائے کی قربانی سے رُکے رہنے کی اجازت دی ہےکہ فتنے کے اندیشے سے وقتی طور پر کسی کام سے مصلحتاً رُک جانا جائز ہے، جیسے کسی آبادی میں کسی خاص موقع پر اس کی وجہ سے سخت فساد پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو اور وقتی طور پر اس سے رُک جائے، مگر اس کی حیثیت جزوی اور انفرادی ہے۔ (جدید فقہی مسائل بترمیم)
رہا قرآنِ کریم میں گائے کو ذبح نہ کرنے کا مسئلہ تو چوں کہ اس پوسٹر کے ذریعے اسلام سے ایک غلط بات کو جوڑا جا رہا ہے، اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کا ازالہ کریں اور عوام تک صحیح بات کو پہنچائیں، اس لیے آگے ہم اس مسئلے پر جامع انداز میں قرآن و حدیث پیش کریں گے۔ ان شاء اللہ
قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا گیا:
احلت لکم بہیمۃ الأنعام۔
تمھارے لیے چوپائے حلال کیے گئے ہیں۔(المائدہ)
لفظِ’ بہیمہ‘ ان جانوروں کے لیے بولا جاتا ہے، جس کو عادۃً غیر ذوی العقول سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ لوگ ان کی بولی کو عادۃً نہیں سمجھتےتو ان کی مراد مبہم رہتی ہے اور امام شعرانیؒ نے فرمایا کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لیے نہیں کہتے کہ اس کو عقل نہیں اور عقل کی باتیں اس پر مبہم رہتی ہیں، جیسا کہ لوگوں کا عام خیال ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عقل و ادراک سے کوئی جانور بلکہ کوئی شجر و حجر بھی خالی نہیں، ہاں درجات کا فرق ضرور ہے۔۔۔امام شعرانی کے فرمانے کا خلاصہ یہ ہے کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لیے نہیں کہتے کہ اس کی بے عقلی کے سبب اس پر معلومات مبہم رہتی ہیں بلکہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کی بولی لوگ نہیں سمجھتے، ان کا کلام لوگوں پر مبہم رہتا ہے، بہ ہر حال لفظِ بہیمہ ہر جان دار کے لیے بولا جاتا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ چوپایے جان داروں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور لفظِ ’انعام‘ نعم کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے’پالتو جانور‘ جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ، جن کی آٹھ قسمیں سورۂ انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں، ان کو انعام کہا جاتا ہے۔ بہیمہ کا لفظ عام تھا، انعام کے لفظ نے اس کو خاص کر دیا۔ اب مراد اس آیت کی یہ ہو گئی کہ گھریلو جان وروں کی آٹھ قسمیں تمھارے لیے حلال کر دی گئیں۔ (معارف القرآن بتغیر)
ان آٹھ قسموں کی تفصیل سورہ انعام میں اس طرح آئی ہے؛
وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا، كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ، إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ۔
اور چوپایوں میں سے بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے (یعنی چھوٹے چھوٹے) بھی (پس) خدا کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، وہ تمھارا صریح دشمن ہے۔(الانعام)
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ، وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ، قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ، أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ، نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ۔
(یہ بڑے چھوٹے چوپائے) آٹھ قسم کے (ہیں) دو (دو) بھیڑوں میں سے اور دو (دو) بکریوں میں سے (یعنی ایک ایک نر اور اور ایک ایک مادہ) (اے پیغمبر ﷺ!ان سے) پوچھو کہ (خدا نے) دونوں (کے) نَروں کو حرام کیا ہے یا دونوں (کی) مادہ کو یا جو بچہ مادہ کے پیٹ میں لپٹ رہا ہو اسے، اگر سچے ہو تو مجھےعلم کےساتھ بتاؤ۔(الانعام)
وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ، قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ ،أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ، إِذْ وَصَّاكُمُ اللہُ بِهٰذَا۔
اور دو (دو) اونٹوں میں سے اور دو (دو) گایوں میں سے (ان کے بارے میں بھی ان سے) پوچھو کہ (خدا نے) دونوں (کے) نَروں کو حرام کیا ہے یا دونوں (کی) مادہ کو یا جو بچہ مادہ کے پیٹ میں لپٹ رہا ہو اس کو، بھلا جس وقت خدا نے تم کو اس کا حکم دیا تھا تم اس وقت موجود تھے؟(الانعام)
ان آیتوں سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ گائے کا گوشت شریعت کی رو سے بالکل حلال و پاکیزہ ہے۔(الحیوانات ما یجوز اکلہ وما لا یجوز) اس لیے کہ اول تو وہ بہیمۃ الانعام میں سے ہے اور سورہ انعام کی مذکورہ بالا آیت میں تو باقاعدہ اس کا نام لے کر وضاحت کر دی گئی۔ اسی لیے ائمۂ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق گائے کا گوشت حلال و طیب ہے ،اس کی قربانی پسندیدہ اور فضیلت والی ہے نیز خود حضرت نبی کریمﷺ نے گائے کی قربانی فرمائی ہے ۔(احکام الحیوان)بخاری شریف کی روایت ہے؛رسول اللہﷺ نے بذاتِ خود اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح کی۔ (بخاری)
فقہ کی مشہور کتاب فتاویٰ قاضی خان وغیرہ میں مرقوم ہے؛
تجوز الأضحیۃ من أربع من الحیوان؛ الشاۃ، والمعز، والبقرۃ، والإبل، ذکورہا أو إناثہا۔
چار پالتو جان وروں کی قربانی کرنا جائز ہے، خواہ وہ نَر ہو یا مادہ، اس طرح یہ کُل آٹھ ہو گئے؛بکرا، بکری، مینڈھا، مینڈھی، گائے، بیل اور اونٹ، اونٹنی۔
گائے سے متعلق علامہ دمیریؒ لکھتے ہیں؛گائے، بیل طاقت اور نفع بخش جان ور ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں انسانوں کے تابع اور فرماں بردار بنایا ہے، درندوں کی طرح انھیں ہتھیار نہیں دیے گئے، اس لیے کہ یہ جانور انسان کے زیرِ اطاعت رہتے ہیں۔ (حیاۃ الحیوان)
رہی یہ بات کہ گائے کے دودھ میں شفا اور اس کے گوشت میں بیماری ہے تو ایسی کوئی آیتِ شریفہ یا صحیح حدیث موجود نہیں۔گائے ایک حلال اور ماکول اللحم جانور ہے اور شریعت نے جس جس جانور کا بھی گوشت کھانے کو حلال قرار دیا ہے ،اس کے گوشت میں بیماری ہرگز نہیں ہو سکتی،اگر اس میں بیماری ہوتی تو شریعت ضرور اس سے منع کر دیتی۔بعض جگہ ایک روایت اس مضمون کی لکھ دی ہے کہ گائے کے دودھ میںشفا اور اس کے گوشت میں وبا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے بلکہ بعضوں نے اسے منکر کہاہے۔ یہ روایت ملیکہ بنت عمرو تابعیہ سے منقول ہے، بعض انھیں صحابیہ سمجھتے ہیں لیکن راجح یہی ہے کہ وہ تابعیہ ہیں، اسی لیے امام ابو داود نے اس روایت کو اپنی کتاب المراسیل میں نقل کیا ہے یعنی یہ روایت مرسل ہے ۔
المختصر!اِس مضمون کا مقصد اُس غلط فہمی کا ازالہ تھا جو احمدآباد کے متذکرہ پوسٹر کے ذریعے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی کریم ذات سے قوی امید ہے کہ ہم اس مقصد میں کامیاب ہوئے ہوں گے کہ قرآنِ کریم میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں جس میں گائے کی قربانی سے روکا گیا ہوبلکہ جو ایسا کہتے ہیں، قرآنِ کریم میں انھیں اِس حرکت سے روکا گیا ہے،اسی کےساتھ اس کا بھی خیال رکھیں کہ کوئی ایسا اقدام ہماری طرف سے نہ ہونا چاہیے جو ہمیں یا دوسروں کو مصیبت میں ڈالنے والا ہو اور جس سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو۔جو بھی کریں ایسے علماء سے مشورہ لے کر ہی کریں جو قرآن و سنت کا صحیح علم رکھنے کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے حالات پر بھی نظر رکھتے ہوںاورجو محض اپنی جوشیلی تقریر سے محفلوں کو گرمانے کا کام کرتے ہیں، ان سے احتیاط کیا جائے۔ واللہ ہو الموفق
(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)