گاندھی جی اور زبانِ اُردو، ہندی، ہندوی یا ہندستانی
ندیم احمد انصاری
اُردو جسے ابتدا میں ہندی، ہندوی یا ہندستانی جیسے مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا، خالص ہندستانی زبان ہے ۔جس کی ابتداو ارتقا کے متعلق مختلف و متضاد نظریات پائے جاتے ہیں، جن کا بیان اور اس حوالے سے بحث کرنا اس وقت مقصود ہے نہ اس کا موقع۔ اس لیے کہ ’’اردو زبان کی تاریخ ایک طرح سے ہندستان کے ہزار سالہ دور کی تاریخ ہے ۔‘‘بنا بریںلسانیات سے بحث نہ کرتے ہوئے عرض ہے کہ جس زمانے میں قومی زبان کو لے کر بحث و مباحثے کا بازار گرم تھا، اس دور میںگاندھی جی نے اردوکی حمایت میں کیا کچھ کہا اور کیااور اس زبانِ شیریں کے متعلق ان کے افکار و خیالات کیا تھے ؟
زبانوں کے معاملے میں گاندھی جی اپنے فطری ذوق کے مطابق عمدہ رائے رکھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ہندستان جو کہ ’زبانون کا عجائب گھر‘ ہے ، اس میں قومی زبان کا درجہ صرف اردو کو ہی دیا جا سکتا ہے ۔ان کا ماننا تھا کہ خود ہندو بھی سنسکرت آمیز ہندی کے سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے انھیں اردو یا ہندستانی سے عناد نہ رکھتے ہوئے اردو کو سیکھنے سمجھنے اور استعمال میں لانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔ اردو اور ہندی ایک ہی زبان اور دو رسم الخط یا یہ دونوں مستقل دو الگ زبانیں ہیں، نیز اگر دو علاحدہ زبانیں ہیں تو ان کا آپسی رشتہ کیا ہے ،اس طرح کے مسائل گویا گاندھی جی کے نزدیک طے شدہ تھے ، اسی لیے انھوں نے وثوق کے ساتھ ہندی و اردو کو ایک ہی زبان سے نکلی ہوئی دو مستقل زبانیں مانا ہے ، جن کے درمیاں خصوصی ربط و تعلق ہے ، اسی لیے ان کا کہنا تھا کہ’’ہندی اور اردو دو بہنیں ہیں، پھر ان کے باہمی میل جول میں کیا حرج ہے ۔ اردو ایک ایسی زبان ہے ، جس میں عربی اور فارسی کے الفاظ زیادہ ہیں، ہندی میں عربی اور فارسی کو خارج کرنے کا رجحان ہے ، ہندستانی ان دونوں کا ایک خوش گوار مرکب ہے ۔‘‘
گاندھی جی ہندی و اردو کے میل جول کی جو بات کرتے ہیں اس کے پیچھے ایک فکری مقصد پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ انھوں نے جان لیا تھا کہ اردو سیکھنے سے ہندی جاننے والوں کی ہندی میں بھی نکھار و وسعت پیدا ہوگی۔جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: ’’دراصل میں سمجھتا ہوں کہ اردو جان لینے سے ان کی ہندی مالا مال ہو جائے گی۔
اردو ایک سیکولر زبان ہے ، جو ہندستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی۔ جس کی نشو نمامیں یہاں کے بسنے والے تمام ہی افراد نے حصہ لیا۔ باباے قوم گاندھی جی جو کہ ستھرے مزاج اور سیکولرزم کے دل دادہ تھے ، کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ دیگر زبانوں کی طرح شستہ اردو استعمال کرنے پر قادر اور دوسروں کو بھی اردو کے استعمال پر راغب کرتے تھے ۔ انھوں نے متعدد رسائل کی ادارتی ذمّے داریاں انجام دیں، من جملہ ان کے انگریزی کاانڈین اوپنین (Indian Opinion) اور گجراتی کاہریجن (Harijan)نامی جریدے ہیں،ان دونوں میں گاندھی جی نے اردو کی اہمیت و افادیت پر توجہ دلائی اور جو لوگ اسے صرف مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے ان کی مخالفت اور اردو یا ہندستانی کی حمایت کی ہے ،گو امتدادِ زمانہ نے اس کی حیثیت تاریخی ورثے سے زیادہ نہیں رہنے دی ہے پھر بھی ان کے یہ افکار و خیالات پوری توجہ کے مستحق ہیں۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا:’’ہر ایک پڑھے لکھے ہندستانی کو اپنی بھاشا، ہندو کو سنسکرت، مسلمان کو عربی، پارسی کو فارسی اور سب کو ہندی جاننی چاہیے ۔ کچھ ہندوؤں کو عربی اور کچھ مسلمانوں اور پارسیوں کو سنسکرت سیکھنی چاہیے ۔ اتر اور پچھم میں رہنے والے ہندستانی کو تامل سیکھنی چاہیے ، مگر سارے ہندستان کے لیے تو ہندی ہی ہونی چاہیے ، اسے اردو میں لکھا جائے یا ناگری میں۔ہندواور مسلمانوں کے وچاروں کو ٹھیک رکھنے کے لیے بہت سے ہندستانیوں کے لیے دونوں لکھاوٹوں کا جاننا ضروری ہے ۔
ایسا بھی نہیں کہ گاندھی جی علاقائی زبانوں کو نظر انداز کرتے ہیں، بلکہ ان تمام کی اپنی اہمیت کے باوجودان کا اعتقاد ہے کہ ’ہندستانی‘ یا ’اردو‘ ہی ایسی زبان ہے جسے قومی زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔ بنا بریں قومی زبان کی بحث رفع ہوئی تو انھوں نے لکھا :’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قومی زبان کے متعلق یہ جھگڑا کھڑا ہو گیا ہے کہ قومی زبان کیا ہو، مجھ سے کہا گیا ہے کہ وہ ہندی ہوگی، جو دیو ناگری حروف میں لکھی جائے گی، میں تو کبھی اس پر رضا مند نہیں ہو سکتا، میں دو دفعہ ہندی ساہیتہ سمیلن کا صدر رہ چکا ہوں، میں ہندی یا اردو کا دشمن نہیں ہو سکتا، لیکن میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ عوام کی زبان اور ہندستان کی قومی زبان صرف وہی ہو سکتی ہے جو اردو ہندی کا مرکب ہو اور دیو ناگری اور اردو دونوں رسم الخط میں لکھی جائے ، یعنی ہندستان میں بہت سے ہندوؤں کو جانتا ہوں، قطعِ نظر مسلمانوں کے ، جو سنسکرت ملی ہوئی ہندی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہ دیوناگری رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں، لہٰذا میں تو ہندستانی ہی زبان پر زور دیتا رہوں گا، چاہے میں اس کی تائید میں بالکل تنہا ررہوں۔
اردو کے ساتھ مسئلہ آج بھی یہی ہے کہ لوگ اردو بولتے تو ہیں لیکن اس کا نام اُردو کہنے سنے سے گھبرا تے ہیں۔ مثلاً ’ہندی خبریں‘ اور ’ہندی اخبار‘ جیسے الفاظ اتنے عام ہیں کہ خود ہندی بولنے اور جاننے والے اس کے لیے ’ہندی سماچار‘ یا ’ہندی سماچار پتر‘ جیسے الفاظ کم ہی استعمال کرتے ہیں، اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ وہ اردو نہیں ہندی بھاشی ہیں۔خیر! یہ گویا کسی زبان کی حمایت کی انتہا ہے کہ میں ’’اسی زبان پر زور دیتا رہوں گا، چاہے میں اس کی تائید میں بالکل تنہا ررہوں‘‘، لیکن گاندھی جی نے یہ بات شدت سے ساتھ کہی۔گاندھی جی کی مادرسی زبان گجراتی تھی، لیکن انھوں نے بجا طور پر لکھا: ’’میں نے اپنے من میں کہا، گجراتی میری مادری زبان ہے ، پر وہ راشٹری بھاشا نہیں ہو سکتی، دیش میں تیسویں حصے سے زیادہ آبادی گجراتی بھاشا بولنے والی نہیں۔ اس میں مجھے تلسی داس کی رامائن کہاں ملے گی، تو کیا مراٹھی راشٹر بھاشا ہو سکتی ہے ؟ مراٹھی بھاشا سے مجھے پریم ہے ، مراٹھی بولنے والے لوگوں میں میرے ساتھ کام کرنے والے کچھ بڑے پکے اور سچے ساتھی ہیں۔ مہاراشٹریوں کی قابلیت، آتما بلیدان کی ان کی شکتی اور لیاقت کا میں قائل ہوں، تو بھی جس مراٹھی بھاشا کو لوکمانیہ تلک نے بے مثل طریقے سے استعمال کیا، اسے راشٹر بھاشا بنانے کی خواہش میرے دل میں پیدا نہیں ہوئی۔ جس وقت اس سوال پر میں اپنے دل میں دلیلیں کر رہا تھا، میں آپ کو بتاؤں کہ اس وقت مجھے ہندی بھاشا بولنے والوں کی ٹھیک ٹھیک گنتی بھی معلوم نہیں تھی، اس وقت بھی مجھے خود بہ خود یہ معلوم ہوا تھا کہ راشٹر بھاشا کی جگہ ’ہندی[موجودہ اردو]‘ ہی لے سکتی ہے ، دوسری زبان نہیں۔ کیا میں نے بنگلہ کی تعریف نہیں کی؟ میں نے کی ہے اور رام موہن رائے ، رام کرشن، وویکا نند اور دویندر ناتھ ٹھاکر کی ماتری بھاشا[کذا] ہونے کی وجہ سے میں نے اسے عزت کی نظر سے دیکھا ہے ، پھر بھی مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ کو انتر صوبائی بیوہار کی بھاشا نہیں بنا سکتے ، تو کیا دکھن بھارت کی کوئی بھاشا بن سکتی ہے ؟ یہ بات نہیں کہ میں ان بھاشاؤں سے بالکل ہی انجان تھا، پر تامل یا دوسری کوئی دکھن بھارتی بھاشا راشٹر بھاشا کیسے ہو سکتی ہے ؟ تب ہندی زبان بعد کو جسے ہم ’ہندستانی‘ یا ’اردو‘ بھی کہنے لگے ہیں اور جو دیو ناگری اور اردو لکھاوٹ میں لکھی جاتی ہے وہی ہماری زبان ہو سکتی ہے اور ہے ۔
آج بھی اردو کو مسلمانوں کی اور ہندی کو ہندؤں کو زبان سمجھا جاتا ہے اور مذہبی بنیادوں پر لسانیات کی تقسیم کی جاتی ہے ، یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ ماضی سے اسی طرح چلا آرہا ہے ،جس سے گاندھی جی کو بھی سابقہ ہوا،لیکن انھوں نے کسی کی پروا کیے بغیر ہندی پرچار سبھا کے جلسے میں اردو کی تائید و حمایت کرتے ہوئے بلا خوف لومۃ لائم کہا:’’جب میں اردو کی بات کرتا ہوں تو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی بھاشا ہے ، ویسے ہی ہندی کی بات کرتا ہوں تو وہ ہندوؤں کی بھاشا ہے ، اب یہاں تو آپ کو ایک قوم کی بھاشا سکھانے کی بات نہیں ہے ، ایک دھرم کی بھاشا سکھانے کی بات نہیں ہے ۔ آپ میں سے کچھ جانتے ہوں کہ پنجاب میں سب پڑھے لکھے ہندواور مسلم اردو جانتے ہیں، وہ ہندی نہیں بول سکتے ، کشمیر میں بھی اسی طرح اچھی اردو لکھنے والے ہندو ہیں، سنسکرت بھری ہندی وہ نہیں سمجھتے ، اردو سمجھتے ہیں، اس لیے میں آپ سے کہوں گا کہ آپ کا یہ دھرم ہے کہ آپ اردو لپی بھی سکیھیں۔‘‘
(بامداد اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، گاندھی جی اور زبان کا مسئلہ اور گاندھی جی اور ان کے خیالات وغیرہ)