غلط طریقے یا بے ضرورت طلاق دینے پر تعزیر کی گنجائش!
الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
)حالاتِ حاضرہ میں اس مسئلے پر بھی اذہان غور کر رہے ہیں کہ طلاقِ ثلاثہ جب کہ گناہ ہے، پھر اس پر کوئی تعزیر کیوں نہیں عائد کی جاتی، اس مسئلے پر ایک چشم کشا و مدلل تحریر پیش کی جا رہی ہے۔ندیم احمد انصاری(
طلاق کے غلط طریقے اور اس کے بے جا استعمال کی کثرت اور معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں علما کے مشورے سے اسے ایک قابلِ تعزیر جرم بھی قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے بعد غلط طریقوں سے یا بے ضرورت دی گئی طلاقوں پر سزا بھی دی جا سکے گی، کیوں کہ یہ معصیت ہے اور ہر معصیت پر شرعاً سزا کا دیا جا سکنا بہ شرط یہ کہ اس گناہ پر حد یا کفارہ واجب نہ ہوا کرتا ہو، تمام ائمہ کے نزدیک متفق علیہ ہے، جیسا کہ امام شعرانی نقل فرماتے ہیں:إتفق الأئمۃ علیٰ أن التعزیر مشروع فی کل معصیۃ لا حد فیھا ولا کفارۃ۔ (المیزان:2/194)
اور فیصلہ کرنے والی اتھاریٹی کی صواب دید پر یہ چھوڑ دیا جائے کہ وہ جس قسم کی سزا بھی مناسب سمجھے دے سکے، جو زبانی زجر و توبیخ بھی ہو سکتی ہے اور قید و بند بھی، کوڑے لگانا بھی ہو سکتی ہے اور مالی جرمانہ بھی، غرض یہ کہ افراد و اشخاص، حالات و زمانے کے تغیر نیز اس بنا پر کہ کسی سے ارتکابِ جرم بار بار ہوا، یا پہلی بار ہوا، اسی قسم کے حالات میں فرق سے سزا نرم بھی ہو سکتی ہے اور سخت بھی۔ایسی سزاؤں کی تفصیل محقق ابن ہمامؒ نے ’فتح القدیر‘ میں اور علامہ عینیؒ نے ’بنایہ شرح ہدایہ، کتاب الحدود‘ میں قلم بند فرمائی ہے۔ یہاں فتح القدیر کے کچھ حصے پیش کیے جاتے ہیں:
عن السرخسی أنہ لیس فیہ شیئی مقدر بل ھو مفوض إلی رأی القاضی لأن المقصود منہ الزجر و أحوال الناس مختلفۃ فیہ فمنہم من ینزجزبالنصیحۃ ومنھم من یحتاج إلی اللطمۃ وإلی الضرب و منھم من یحتاج إلی الحبس۔۔۔وفی الشافی۔۔۔یعزر الأشراف وھم العلویۃ والعلماء بالأعلام و ھو أن یقول لہ القاضی بلغنی أنک تفعل کذا فینزجربہ۔۔۔و عن أبی یوسف یجوز التعزیر للسلطان یأخذ المال۔ (فتح القدیر:2/643-44)
امام سرخسی سے منقول ہے کہ تعزیر کے بارے میں کوئی چیز متعین نہیں ہے بلکہ وہ قاضی کی صواب دید پر چھوڑ دی گئی ہے، اس لیے کہ اصل مقصد لوگوں کو برائیوں سے روکنا ہے اور اس بارے میں لوگوں کے مزاج مختلف ہیں، کچھ لوگ تو محض زبانی افہام و تففہیم سے باز آجاتے ہیں، کچھ ما ر پیٹ سے، کچھ قید و بند سے۔ شافی میں مذکور ہے کہ اعلیٰ درجے کے شرفا (علما و سادات وغیرہ) محض زبانی تنبیہ اور قاضی کے یہ کہہ دینے سے کہ ہمیں آپ کے بارے میں کچھ ایسی سرگرمیوں کی کہ جو ہماری نظر میں نا پسندیدہ ہیں، اطلاع ملی ہے۔ راہِ راست پر آجاتے ہیں (اس لیے بس ان کو اتنی ہی سزا کا ملنا کافی ہوگا)۔ امام ابویوسفؒ سے بادشاہ کے لیے مالی سزا دینے کا حق تسلیم کرنا بھی منقول ہے۔
یہاںیہ وضاحت ضروری ہے کہ تعزیر بالمال کا جواز صرف امام ایوبوسفؒ سے منقول ہے، وہ بھی بروایتِ ضعیف، لیکن جمہور علما کے نزدیک مالی سزا منسوخ ہو گئی ہے، اس لیے اب علما مالی تعزیر کا فتویٰ نہیں دیتے (اور دینا بھی نہیں چاہیے)۔ بعض علما نے تعزیر بالمال کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ مجرم سے مال لے کر محفوظ رکھ لیاجائے اور وہ جب راہِ راست پر آجائے، تب اسے واپس کر دیا جائے، ورنہ بیت المال میں داخل کر دیا جائے،لیکن قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے لکھا ہے: غرامتِ مالی ابتداے اسلام میں تھی، پھر حکم ہو گیا ’لا یحل مل أحد إلا بإذنہ، أو کما قال‘۔ (مسند احمد:5/113) حدیث کے الفاظ ہیں: لا یحل لأمری مسلم من مال أخیہ شیئی إلا بطیب نفس منہ۔ یہ اس کا ناسخ ہے، اس مسئلے کو امام طحاوی نے لکھا ہے۔۔۔اور اس پر اجماع ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ: 167)
اس تفصیل کے پیش نظر آجانے کے بعد اور طلاق کے مواقع استعمال، نیز غلط استعمال کی صورت میں زبانی تنبیہ، بلکہ سزا و توبیخ کے عائد کرنے کی گنجائش (اگرچہ اس حکم سے فایدہ اٹھانے کے لیے اصلاً شرعی نظامِ قضا کا ہونا ضروری ہے، لیکن آج کل بد قسمتی سے اس کا بیش تر جگہ پر وجود ہی نہیں ہے) موجود ہونے پر بھی طلاق کے حکم کو خلافِ مصلحت بتانے کی جرأت یا مرد کو اسلام کی طرف سے ’بے جا رعایت‘ دینے کا الزام دیتے رہنا عقل صحیح کا تقاضا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عناد و دشمنی کے جذبے سے بلند ہو کر، جو بھی غور کرے گا، اسے اس حکم میں سراسر خیر ہی نظر آئے گی، خاص طور پر اس پہلو کے سامنے آجانے کے بعد کہ طلاق دینے کے بعد بھی شرعی قانون کی رو سے مطلقہ عورت کے تمام اخراجات کی ذمّے داری، عدت کے زمانے میں طلاق دینے والے شوہر پر ہی ہے اور یہ حکم تقریباً تمام صورتوں میں جاری ہوتا ہے۔۔۔ان تمام پہلوؤں کے سامنے آجانے کے بعد اگر راہِ حق پوری طرح مسدود نہ ہوگئی ہو اور عقل و خرد پر مہر نہ لگ گئی ہو تو اسلام کے فطری اور خدائی مذہب ہونے کا انکار بلکہ اس پر شبہ بھی کر سکنے کی گنجائش کسی کے لیے نہیں رہ جاتی ہے!(ماخوذ از معاشرتی مسائل:206-210ملخصاً)