حضرت علی رضی مرتضیٰ اللہ عنہ
ندیم احمد انصاری
(خادم الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
آپؓ کا نامِ مبارک علیؓ ہے اور لقب اسد اللہ و حیدر اور مرتضیٰ۔ کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔ آپؓ کا نسب رسول اللہ حضرت محمد ﷺ سے بہت قریب ہے۔ آپؓ کے والد ابوطالب جن کا نام عبدِ مناف تھا اور رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں، ماں باپ دونوں کی طرف سے آپؓ ہاشمی ہیں، آپؓ کے والد تو مشرف بہ اسلام نہیں ہوئےمگر آپؓکی والدہ مسلمان بھی ہوئیں اور ہجرت بھی کی۔آپؓ بچپن سے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے، بلکہ آپؓ نے رسول اللہ ﷺ ہی کے آغوش میں پرورش پائی۔رسول اللہﷺ نے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا۔ سیدہ حضرت فاطمہ زہراؓ جو رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی اور سب سے چہیتی بیٹی تھیں، آپؓ کے نکاح میں آئیں اور ان سے آپؓ کی اولاد بھی ہوئی۔صحابۂ کرامؓ میں جو لوگ سب سے اعلیٰ، فصیح وبلیغ اور اعلیٰ درجے کے خطیب اور شجاعت وبہادری میں سب سے فائق مانے جاتے تھے، ان میں آپؓ کا مرتبہ بہت نمایاں تھا۔
۳۵ ہجری میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسندِ خلافت کو آپؓ نے زینت بخشی اور تین دن کم پانچ سال تختِ خلافت پر متمکن رہ کر بتاریخ ۱۸؍ رمضان المبارک ۴۰ھ میں عبدالرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں کوفہ میں شربتِ شہادت نوش کیااور کوفہ کے قریب مقامِ نجف میں دفن کیے گئے۔ رضی اللہ عنہ۔ (سیرتِ خلفاے راشدین)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اسلامی بھائی چارے میں رسول اللہ ﷺ کے بھائی ہیں۔ آپؓ عالمِ ربانی، مشہور بہادر، بے بدل زاہد اور معروف خطیب تھے۔ آپؓ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قرآن شریف جمع اور حفظ کرکے رسالت پناہی میں پیش کیا تھا۔ آپؓ بنی ہاشم میں سب سے پہلے خلیفہ ہیں۔ آپؓ اسلام میں قدیم ہیں، بچوں میں سب سے پہلے آپؓ ہی ایمان لائے۔
ابو یعلی خود حضرت علیؓ سے ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دوشنبہ کے روز نبی ہوئے اور میں منگل کے دن مسلمان ہوا۔ جس وقت آپؓ اسلام لائے آپ کی عمر دس سال کی تھی بلکہ بعض نو سال، بعض آٹھ سال اور بعض اس سے بھی کم بتلاتے ہیں۔ حسن بن زید بن حسن کہتے ہیں کہ آپؓ نے کبھی چھوٹی عمر میں بھی بت پرستی نہیں کی۔جس وقت حضرت نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیاتو آپؓ کو حکم دیا کہ تم ہمارے بعد چند دنوں تک مکہ معظمہ میں قیام کرنا تاکہ جو امانتیں وغیرہ ہمارے پاس رکھی ہیں، وہ ان کے مالکوں تک پہنچادینا۔ چناں چہ آپؓ نے ایسا ہی کیا۔
آپؓ تمام غزوات میں سوائے غزوۂ تبوک کے حضور ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک میں آپؓ کو اپنا خلیفہ بناکر مدینہ شریف میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ تمام تر لڑائیوں میں آپؓ کے بہادرانہ کارنامے اور آثار مشہور ہیں۔ حضرت نبی ﷺ نے بہت دفعہ لڑائیوں میں آپ کو اسلامی جھنڈا عطا فرمایا اور سپہ سالار بنایا ہے۔ (تاریخ الخلفاء)
جنگِ احد میں حضرت علیؓ کو سولہ زخم آئے تھے۔ جنگِ خیبر میں آپؓ کو حضور ﷺ نے جھنڈا عطا فرمایا اور پیشین گوئی کی تھی کہ خیبر آپؓ ہی کے ہاتھ سے فتح ہوگا۔ آپ کی بہادری کے کارنامے اور قوتِ بازو کی مثالیں مشہور ومعروف ہیں۔ (بخاری،مسلم)
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جنگِ خیبر میں آپؓ نے اپنی پیٹھ پر قلعۂ خیبر کا دروازہ اٹھا لیا تھا اور مسلمان اس پر سوار ہوکر اندر داخل ہوگئے اور خیبر کو فتح کرلیا۔ آپؓ نے جب اس کو پھینک دیا اور اس کو گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالنے لگے تو چالیس آدمیوں نے اسے کھینچا۔ (تاریخ الخلفاء)ابورافع سے روایت ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنگِ خیبر میں قلعۂ خیبر کا دروازہ اٹھا کر بہت دیر تک ہاتھ میں لیے رکھا اور اس سے ڈھال کا کام لیا، جس وقت قلعہ فتح ہوگیا تو اسے پھینک دیا۔ لڑائی کے بعد ہم آٹھ آدمیوں نے مل کر اسے پلٹنا چاہا مگر ہم سے نہیں ہلا۔(تاریخ الخلفاء)
آپؓ نے حضرت نبی ﷺ سے پانچ سو چھیاسی احادیث روایت کی ہیںاور آپؓ سے آپ کے تینوں صاحبزادوں (حسنؓ، حسینؓ اور محمد ابن حنفیہؓ) اور ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابن زبیرؓ، ابوموسیٰؓ، ابو سعیدؓ، زید بن ارقمؓ، جابر بن عبداللہؓ، ابوامامہؓ، ابوہریرہؓ اور دیگر صحابہ و تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے روایت کی ہے۔ (تاریخ الخلفاء)
آپؓ کی فضیلت میں احادیث
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ جتنی احادیث سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کسی دوسرے صحابی کی نہیں ہوتی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، جب رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک میں آپؓ کو مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم دیا تو آپؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ مجھے یہاں عورتوں اور بچوں کے بیچ چھوڑے جاتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمھیں اس طرح چھوڑے جاتا ہوں جیسے موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ کر گئے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(تاریخ الخلفاء)
بخاری اور مسلم نے سہل بن سعد سے روایت کی ہے کہ جنگِ خیبر میں جب کہ کئی دن تک فتح حاصل نہ ہوسکی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صبح کو میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ اس قلعے کو فتح کرائیں گے اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ رات کو سب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم غور وخوض میں تھے کہ دیکھیےاسلامی جھنڈا کسے عنایت ہو؟ جب صبح ہوئی تو ہر شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر ایک دل میں خواہش تھی کہ شاید مجھے یہ فخر حاصل ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علیؓ کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ وہ آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلا ہیں، اس لیے تشریف نہیں لائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انھیں بلا کر لائو۔ جس وقت آپؓ تشریف لائے تو حضور ﷺ نے آپ کی آنکھوں پر اپنا لعابِ دہن لگادیا جس سے فوراً آنکھیں اچھی ہوگئیں، اس کے بعد حضور ﷺ نے جھنڈا آپؓ کو ہی عطا فرمایا، ہم غور وخوض اور باتیں ہی کرتے رہ گئے۔ (بخاری،مسلم)
سعد بن ابی وقاصؓ سے ہی مروی ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ندْعُ اَبْنَائَ نَا وَاَبْنَائَ کُمْ۔ (آلِ عمران )تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ زہراؓ اور حسنؓ اور حسینؓ کو بلا کر دعا کی ’الٰہی یہ میرے گھر کے لوگ ہیں۔ (بخاری، مسلم)ابو سریحہ اور زید بن ارقمؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کا میں محبوب ہوں اس کے علی بھی محبوب ہیں۔(سنن الترمذی، سنن الکبریٰ للنسائی) بعض راوی اتنا اور زیادہ کرتے ہیں کہ الٰہی! جو علی سے محبت رکھے اس سے آپ بھی محبت رکھیے اور جو علیؓ سے بغض رکھے اس سے آپ بھی بغض رکھیے۔ (تاریخ الخلفاء)
ریدہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے چار آدمیوں سے محبت رکھنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت رکھتے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ ہمیں ان کا نام بتلادیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ان میں سے ایک علیؓ ہیں اور تین آدمی: ابوذرؓ، مقدادؓ اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔(سنن الترمذی، ابن ماجہ)
حبشی بن جنادہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۔ (ترمذی، ابن ماجہ،سنن الکبریٰ للنسائی)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے، جب رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارہ کرایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہﷺ! آپ نے تمام صحابہؓ کے درمیان مواخات کرائی مگر میں یوں ہی رہ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔
صحیح مسلم میں حضرت علیؓ سے روایت ہے، مجھے اس ذات کی قسم جس نے دانہ اگایا اور جان پیدا کی، نبی ﷺ نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ مومن تجھ (علیؓ) سے محبت رکھے گا اور منافق بغض رکھے گا۔ (تاریخ الخلفاء)
حضرت علی ؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کے دروازےہیں۔ یہ حدیث حسن ہے۔(تاریخ الخلفاء) ابن جوزیؒ اور نوویؒ وغیرہ نے جو اس کو موضوع کہا ہے غلط ہے۔ علامہ سیوطیؒ نے اس کی تحقیقات ’’تعقیبات علی الموضوعات‘‘ میں کی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، مجھے رسول اللہ ﷺ نے جب یمن کی طرف بھیجنا چاہا تو میں نے عرض کیا؛ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے یمن بھیجتے ہیں اور میں ایک جوان آدمی ہوں۔ ناتجربہ کار، معاملات طے کرنا نہیں جانتا۔ آپﷺ نے یہ سن کر میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: الٰہی! اس کے دل کو روشن فرمادیجیےاور اس کی زبان کو استقلال مرحمت کیجیے۔ واللہ! اس روز سے مجھے معاملات طے کرنے میں کبھی تردد نہیں ہوا۔(تاریخ الخلفاء)
ابن سعد نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ آپؓ سے لوگوں نے کہا اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ زیادہ احادیث روایت کرتے ہیں؟ (حضرت علیؓ فرماتے ہیں)میں نے کہا کہ جب کبھی میں حضورﷺ سے دریافت کرتا تھا تو رسول اللہ ﷺ مجھے خوب سمجھایا کرتے تھے اور جب میں خاموش رہتا تھا تو خود بتلایا کرتے تھے۔ (اریخ الخلفاء)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ حضرت علیؓ ہم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ مدینہ شریف میں ہم سب سے زیادہ معاملہ فہم ہیں۔ ابن سعد حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب کوئی مسئلہ معتبر ذریعے سے پہنچے تو اس کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔سعید بن مسیبؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگا کرتے تھے کہ کہیں ایسا معاملہ درپیش نہ ہو جس کا فیصلہ حضرت علیؓ بھی نہ کرسکیں۔ سعید بن مسیبؒ کہتے ہیں کہ مدینہ شریف میں سوائے حضرت علیؓ کے کوئی ایسا نہ تھا جو یہ کہہ سکے کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، پورے مدینے میں حضرت علیؓ سے زیادہ فرائض جاننے والا اور معاملہ فہم کوئی شخص نہیں تھا۔
صدیقہ بنت صدیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت علیؓ سے زیادہ کوئی شخص سنت کا جاننے والا نہیں ہے۔ مسروق کہتے ہیں کہ اصحابِ رسول اللہ ﷺ کا علم حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر ختم ہوگیا۔(تاریخ الخلفاء)
[email protected]