Hazrat Moosa, Zul qarnain aur Zakariya alayhimussalam wagerah ke qisse

 

حضرت موسیٰ، ذوالقرنین اور زکریا علیہم السلام وغیرہ کے قصّے

مولانا شاہد معین قاسمی

سولہویں پارے کے شروع میں حضرت موسی اور خضر کا قصہ مکمل ہو اہے کہ پھر آگے جب حضرت خضرنے دوسرا کا م یہ کیا کہ ایک معصوم بچے کو قتل کردیا تو حضرت موسی سے پھر نہیں رہا گیا اور پھر بول پڑے کہ معصوم بچے کا آپ نے ناحق خون کردیا جو بہت غلط ہوا؟حضر ت خضر نے پھر انہیں وعدہ یاددلایا کہ آپ نے سوال نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے حضرت موسی نے کہا کہ مزید ایک مرتبہ غلطی معاف کی جائے تیسری مرتبہ اگر مجھ سے غلطی ہوتی ہے تو مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے لیکن پھر یہ ہوا کہ ایک گاؤں سے ان کا گذر ہو ا جہاں کے لوگوں سے انہوں نے کھانا مانگا لیکن انہوں نے کھانا نہ دیا پھر بھی حضرت خضر نے ایک دیوار کو گرتی ہوئی دیکھ کر اسے سیدھی کردی حضرت موسی سے پھر خاموش نہیںرہا گیا اور بول پڑے ان لوگوں نے تو ہمیں کھانا تک دینے سے انکار کردیا اور آپ نے ان کی دیوار سیدھی کردی ٹھیک ہے سیدھی کردی لیکن اجرت تو لے ہی سکتے تھے حضرت خضرؑ نے کہا بس کیجیے اب سمجھ میں آگیا کہ آپ خاموش نہیںرہ سکتے اب ہم ایک ساتھ نہیںجاسکتے اور میں نے جوکام جس مقصد سے کیا وہ سن لیجیے کہ جس کشتی کو میں نے سوراخ کرکے عیب دار بنا یا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کشتی جس بادشاہ کے علاقے سے گذرنے والی تھی وہ باد شاہ ہر اچھی کشتی کو چھین لیا کرتاتھا اگر یہ کشتی بھی اس کے سامنے سے صحیح سالم گزرتی توبادشا ہ اسے بھی چھین لیتا اور کشتی والے کی روزی روٹی بند ہو جاتی جب کہ ان کے پا س اس کے علاوہ روزی روٹی کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ نہ تھا ۔ اسی طرح جس بچے کو میں نے قتل کیا اس کے ماں باپ ایمان والے تھے اور اس کے بارے میں ڈرتھا کہ یہ بڑا ہوکر اپنے ماںباپ کو پریشان کرے گا اور اللہ اور خود اپنے ماں باپ کا نافرمان نکل جائے گا میں نے اس امید پہ قتل کردیا کہ اللہ تعالی ان کو دوسر ی اولاد دیںگے جو اس سے بہتر ہوگی اور رحم وشفقت کے زیادہ قریب ہوگی اور جس دیوار کو میں نے سیدھی کردی وہ دو یتم بچوں کی تھی اس کے نیچے ان دونوں کے خزانے تھے اور اللہ تعالی کو یہ منظور تھا کہ وہ دونوں یتیم بڑے ہو کر اس خزانے سے اللہ کی رحمت کے طورپر فائدہ اٹھائیں اور میں نے یہ سب خود سے نہیں کیا تھا بل کہ اللہ کے حکم سے کیا تھا اور اخیر میں فرمایا کہ جن چیزوں پہ آپ صبر نہ کرسکے ا ن کی وجہیں یہ تھیں ۔
ذو القرنین کاقصہ: اس کے بعد ذو القرنین بادشا ہ کا تذ کرہ ہے اللہ تبارک وتعالی نے ان کے بارے میں یہ بیان کیا کہ ہم نے انہیں پوری دنیا کی حکومت دی تھی اور حکومت کی ضرور ت پوری کرنے کے لیے ہر قسم کاسامان بھی دیا انہوں نے دنیا کے پچھم کی طرف کے حصوں کاسفر شروع کیا اور بیچ کے شہروں کو فتح کرتے ہوئے ایسی جگہ پہنچے جو آفتا ب غروب ہونے کی جگہ تھی اور پچھم کے آخری کنارے پہ پہنچ گئے جہاں انہیں بظاہر ایسا معلوم ہو اکہ سمندرمیں سورج ڈوبتا ہے وہا ں انہوں نے ایک قوم کو بھی دیکھا جس کے بارے میں اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ تم ا س قوم کو سز ابھی دے سکتے ہواور انہیں معاف بھی کر سکتے ہوذوالقرنین نے انہیں سزادی۔جب یہ سفر مکمل ہوگیا توزمین کے پورب والے حصوں کا رخ کیا سفر کرتے ہوئے ایسی جگہ پہنچے جہاں سے سورج نکل رہاتھا وہاں یہ دیکھا کہ سورج ایک قوم پہ اس طرح نکل رہا ہے کہ سورج اور اس قوم کے بیچ میں کوئی دوسری چیز نہیں ہے وہ لوگ کھلے میدان میں دھوپ کے نیچے زندگی بسر کررہے تھے اور جب کبھی تھوڑی بہت بارش ہوتی تو درخت کے نیچے پناہ لے لیتے ۔وہاں سے چل کر ایسی جگہ پہنچے جو دوپہاڑ وں کے درمیان تھی ا ن پہاڑوں کے پیچھے ایسی قوم کو دیکھا جو ان کی زبان نہیں سمجھتی تھی انہوں نے ذوالقرنین سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی کہ یہ لوگ زمین میں فسا دمچاتے ہیں ہم پہ ظلم کرتے ہیںکیا آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار بنادیں گے جس سے ہماری حفاظت ہوسکے ہم اس کام کے لئے مال بھی جمع کرکے آپ کو دیدیں گے ذوالقرنین نے کہا مال جمع کرنے کی ضرور ت نہیں ہے اللہ تعالی کا دیا ہوا بہت اور بہتر ہے بس تمہیں اپنی طاقت اور بدن سے تھوڑی محنت کرناہوگی اوربناتے وقت کام میں ساتھ دینا ہوگا تم لوگ لوہے کے ٹکڑے اٹھااٹھا کر لاؤ چناں چہ وہ لوگ لاتے گئے اور ذو القرنین دیوار بناتے گئے جب پہاڑوں کے حصے کو برابر کردیا توپھرجلانے کی چیزیں دیواروں کے چاروں طرف رکھوا کر فرمایا کہ ان میں دھونک مارتے جاؤاتنادھونک کیا گیا کہ لوہے کے ٹکڑے آگ بن گئے پھر تابنا منگو اکر دیوار پہ ڈالدیا لوہے کے ٹکڑے تو خودہی ایک دوسرے سے مل گئے تھے پھر جب اوپر سے پگھلا ہو تانبا پڑا تو اس نے انہیں اور ملادیا اب یا جوج ماجوج میں اس دیوار کو پھاندکر ان لوگوں کے پاس آنے کی طاقت نہیں رہی اس کے بعد ذوالقرنین نے کہا کہ اللہ کی رحمت اور ان کی مہربانی سے یہ دیوار تیا رہوئی اور پھر جب اللہ کا حکم ہوگا اور وہ چاہیں گے تو دیوار چورا چور ا ہوجائیگی ۔ (ایسا قیامت کے قریب ہو گا) اس واقعے کے بیان کے بعد اللہ تبارک وتعالی نے سورت کے اخیر تک قیامت اور اسے پہلے اور بعدمیں ہونے والی چیزوں کا بیان فرمایا ہے ۔
سورہ ٔ مریم کے پہلے رکوع میں حضر ت زکریا ؑ کے بارے میں بیان ہے کہ انہوںنے بوڑھاپے میں اولا د کی درخواست کی اور اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرماکر انہیں یحی ؑ عطا بھی فرما دیا جب اللہ تعالی کی طرف سے دعاکی قبولیت کے ساتھ ہی بچے کانام بھی بتادیا گیا کہ یحی نا م ہوگا تو انہیں یقین نہیںہورہاتھا کہ بوڑھا پے میں جب کہ بیوی بھی بچے دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں کیسے لڑکا ہوجائے گا پھر آپ ؑ نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ آپ ا سکی نشانی بتلادیں اللہ تبارک وتعالی نے نشانی یہ بتلائی کہ آپ تین دنوں تک صرف اشاروں سے ہی بات کرپائیںگے اور ایسا ہی ہوا کہ وہ تین دنوں تک اشاروں سے ہی بات کرسکے پھر اللہ تبارک وتعالی نے انہیں یحی ؑ عطافرمایا اور ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ بڑے مبارک ،بزرگ ،عقلمند اور ماں باپ کے فرماں بردار ہوںگے اور پیدائش سے لیکر قیامت تک ان پہ اللہ کی رحمت ہوتی رہے گی ۔پھر دوسرے رکوع میں حضرت عیسی ؑ کی پیدائش کا عجیب واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ان کی ماں حضرت مریمؑ کسی وجہ سے تنہائی میںتھیں اور گھر والوں سے پردہ کرلیا تھا تو فر شتہ مکمل آدمی کی شکل میں ان کے پاس آیا وہ ڈرگئیں اور اس سے کہنے لگیں کہ تمہیں اگر اللہ کا خوف ہے تو تم یہاں سے چلے جاؤ اس نے جواب دیا میں کوئی انسا ن نہیں ہو ں میں اللہ تعالی کا بھیجا ہو ا فرشتہ ہوںاور کام یہ ہے کہ میںآپ کو اللہ تعالی کی طرف سے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیاہوں یہ سن کرآپ ؑ بہت پریشان اور حیران ہوئیں۔اور دل دل میں اللہ تعالی سے کہا مجھے کیسے بیٹا ہو گا !؟میں نے تو شادی کی ہے اور نہ ہی اس کا ارادہ ہے۔اور بدکار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے کے ذریعے اللہ تعالی کی طرف سے ان کو جو اب ملا کہ اللہ تعالی بغیر باپ کے بھی اولاد دے سکتے ہیں۔اس لیے گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کے بیٹے کو لو گو ں کے لیے اپنی نشانی اور رحمت کا ذریعہ بنا نا چاہتے ہیں جب فرشتے نے اللہ تعالی کے حکم سے ان کے گریبان میں پھونک ماردی اور ان کو اللہ تعالی کی مرضی سے حمل ٹھہرگیا ،تووہ اور پریشان ہوئیں۔کلیجہ مسو س نے لگاکہ میں لو گوں کوکیا منھ دکھاؤں گی؟لو گ حقیقت کو ماننے کی بجائے ہرحال میں مجھے بدکار اور زنا کار کہیں گے ! اور ہو ا بھی یہی کہ لو گوں نے ان پہ تہمت لگاہی دی یہاں تک کہ مسجد کے ایک مرد خادم جن کانام یوسف تھا ان کا نام لیکر یہ کہا جانے لگا کہ مریم اور یو سف نے گڑ بڑ کی ہے اور ا ن دونوں کا آپس میں ناجائز تعلق ہے(نعوذ باللہ!)۔ (تفسیر ابن کثیر،ج؍۳،ص؍۲۶) اس لیے حضرتؑ مریم ایک دوردراز جگہ پہ چلی گئیںتاکہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر سکون کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکیںپھرجب آپ کوپچے کی پیدا ئش کا درد شروع ہوا تو ایک درخت کے نیچے آکر بیٹھ گئیں اوربے حد پریشان ہوئیںیہاں تک کہ مو ت کی تمنا بھی کرنے لگیں اور وہی الجھن کہ لوگ مذاق اڑائیںگے! بدکا ر اور ذلیل سمجھیں گے ! بائیکاٹ کریں گے! لیکن جب اللہ تعالی کی طر ف سے انھیں سمجھا یا گیا کہ پریشان نہ ہوں اور آواز آئی کہ آپ کے قدموں کے نیچے آپ کے رب نے پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے اور جس درخت کے نیچے آپ بیٹھی ہیں اسے ہلائیں اس سے تازی اورپکی کھجوریں گریں گی اوردونوں کو کھا ئیں پئیں اور اپنے آپ کو سکون پہنچائیں!اس کے بعد حکم ہوا کہ اگر کوئی آدمی آپ سے ملتا ہے ،تو اس سے بات کرنے کی بجائے بس اتنا کہدیں کہ میں نے آج ا للہ کے لیے کسی سے بات نہ کرنے کی منت مان لی ہے حضرت مریمؑ نے ایسا ہی کیا اور حضرت عیسیؑ کی پیدائش کے بعد کسی کے برا بھلا کہنے کی پرو اہ کیے بغیرانھیں اپنی قوم کے لوگو ںمیں لیکر آ گئیں پہنچتے ہی لوگوں نے و ہی سارے سوالات اور جملے کسنا شروع کردیئے جن کا اندیشہ تھا کہ مریم تم تو بڑی بدکار نکلی تم نے اپنے خاندان اور ماں باپ کوبدنام کر دیا بہت برا ہوا جوتم نے کیا کم از کم اپنے ماں باپ کی ہی لا ج رکھ لیتی نہ تمہارے باپ بدکار تھے اور نہ ہی تمہاری ماں نے کبھی اس طرح کی کوئی غلطی کی تھی حضرت مریم ؑ نے خود جواب نہ دیکر پورے اطمنان کے ساتھ اللہ کے حکم پہ یقین و عمل کرتے ہو ئے حضرت عیسی ؑکی طرف اشارہ کیاکہ ان سے بات کر لو۔اس اشارے پہ و ہ لوگ اور زیادہ بھڑک گئے ا ورکہنے لگے’’ بھلا گو د کے بچے سے کیسے بات کی جاسکتی ہے ؟‘‘ان لوگو ںکا یہ جو اب سننا تھا کہ حضرت عیسی ؑ بول اٹھے ’’ میں اللہ کا بندہ ہوںاللہ تعالی نے مجھے کتاب دی ہے مجھے نبی بنایاہے میں جہاں بھی رہوں وہاں کے لیے مجھے خیر و برکت کاذریعہ بنا یا ہے پوری زندگی نماز و زکا ت اداکرنے کا حکم دیا ہے مجھے اپنے ماں باپ کا فرماں دار بنایا نہ کہ بد بخت اور سرکش اور میری پیدائش سے لیکر مرنے تک اورمرنے سے لیکر دو بار ہ زندہ کیے جانے تک مجھ پر اللہ کی رحمت ہی رحمت ہے۔ آیت: ۴۱سے ۵۰؍ تک حضرت ابراہیم ؑکے بارے میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کو بت پرستی سے روکتے ہوئے اس کے نقصانا ت بیان فرمائے تو باپ نے صاف صاف انکار کردیا اور کہا کہ اگر تم اس دعوت سے باز نہیں آئے تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔حضرت ابراہیم نے پورے ادب و احترام کے ساتھ اپنے ابا سے یہ کہدیا کہ اللہ تعالی آپ پہ رحم کریں میں آپ لوگوں سے اور آپ کے معبودوںسے بھی الگ ہوتاہوں اور آپ کی بھلائی کی دعا بھی کر تارہو ں گا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی میری دعا قبول فرمائیںگے۔اس کے بعد سورت کے اخیر تک حضرت موسی ؑ کے تذکرے کے بعد توحید و قیامت کی دلیلیں بیان فرماتے ہوئے اس بات کی بہت سخت انداز میں تردید فرمائی کہ اللہ تبارک وتعالی کے لئے کوئی بھی انسان اولاد کا عقیدہ رکھے اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے اگر آسمان بھی پھٹ پڑیں،زمین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیںتو بھی کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔
حضرت موسی ؑ کا قصہ:سور ہ ٔ طہ میں سب پہلے یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے قرآن پا ک کو پریشانی کا ذریعہ بنا کر نہیں اتار ا جسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا دین اسلام لوگوں کو پریشانی میں ڈالنے کے لیے نہیں بل کہ لوگوں کی آسانی کے لیے اتارا ہے پھر حضرت موسی کے مدین سے واپسی کا تذ کرہ ہے جس کے بیچ میں وہ آگ کی تلاش میںنکلے تھے لیکن جس سے وہ آگ سمجھ رہے تھے وہ آگ کی بجائے کچھ اور ہی نکلا جب وہ ہاں پہنچے تو اللہ تبارک وتعالی نے ان سے بات کی کہ آپ طوی جیسی مقدس وادی میںہیں آپ اپنے جوتے نکالدیں میں ہی خد اہوں اور میں نے آپ کو نبی بننے کے لئے چُن لیا ہے پھر اللہ تعالی سے بات چیت کا لمبا قصہ بیان کیاگیا ہے( یہاں تفصیل کی گنجائش نہیںہے) اس کے بعد موسی کی فرعون کے سپاہیوںسے حفا ظت اور انہیں بوکس میں رکھ کر دریامیں ڈال جانے اور ان کی فرعون کے دربار میں پرورش پانے کا بیا ن ہے۔ ہوایہ کہ جس سال حضرت موسی کی پیدائش ہوئی اس سال بنی اسرائیل کے پیدا ہونے والے بچے فرعون کے سپاہیوں کے ذریعے قتل کیے جارہے تھے اس لیے حضرت موسی کی ماں کو ہر وقت یہ ڈر لگارہتاتھا کہ میرابچہ بھی تو قتل ہی کیا جائے گالیکن اللہ تعالی نے ان سے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں ہے بلاخوف و خطر دودھو پلاتی رہو اور جب زیادہ خطرہ معلوم ہو تو اپنے بچے کو ایک بوکس میں رکھ کر اسے سمندر میں ڈالدو جب ان کی ماں نے اللہ تعالی کے حکم پہ عمل کرتے ہوئے انہیںتابوت میں رکھ کر دریا میں ڈالدیاتو دریا نے حضرت موسی علیہ السلام کو لیجاکر ایسی چٹان پر چھوڑا، جہاں فرعو ن کی باندیا ں او رلونڈیاں نہانے اوردھونے کے لیے جایا کر تی تھیں۔انہو ں نے تابوت کو اٹھاکر فرعون کی بیو ی کے پاس پہنچادیا ۔جب بیو ی نے کھول کر دیکھا ،تو انھیں حضرت موسی علیہ السلام بہت پیارے لگے دیکھتے ہی ان کی محبت پیدا ہو گئی اگرچہ سپاہیو ں نے فرعو ن کی بیو ی کے پاس پہنچ کرحضرت موسی علیہ السلام کو بھی قتل کرنا چاہا، لیکن فرعو ن کی بیو ی حضرت آسیہ نے انھیں منع کردیااور فرعون سے کہا کہ یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھو ں کی ٹھنڈک ہو گا اسے قتل مت کرو! ہو سکتا ہے کہ ہمیں آنے و الے زمانے میں فائدہ پہنچا ئے یا ہم اسے اپنا لڑکا بنالیں۔ فرعون نے حضرت موسی کوقتل نہ کرنے کا حکم دیا ۔اب حضرت موسی علیہ السلام دو دھ کس کا پیتے اس کے لیے آسیہ نے اپنی نوکرانیوں کویہ حکم دیا کہ حضرت مو سی علیہ السلام کو بازاروں ا ورلوگو ںکے مجمع میں لے جاؤ! دیکھو شائد کسی کا دو دھ پی لیں۔لیکن حضرت موسی کسی کا د ددھ قبول ہی نہیں کررہے تھے ۔اب آسیہ بہت پریشان ہوئیں۔ادھر حضرت علیہ السلام کی ماں نے ان کی بہن کو بھیجا کہ پتہ لگائیں کہ موسی کا کیا حال ہے؟ ہلاک ہو گئے؟ سمندر میں کسی چیزنے کھالیا ؟یا قتل کردیئے گئے؟جب بہن باہر نکلیں ،توانہوں نے دیکھا کہ فرعون کی نو کرانیاں حضرت موسی کو لیے پھر رہی ہیں!۔پر یشان ہیں !کہ کوئی ایسی عو رت مل جائے ،جس کا دو دھ حضرت علیہ السلام قبول کرلیں، لیکن کوئی ایسی مل نہیں رہی ہے! ۔موقع پاکر ،ان کی بہن نے کہا اگر مو سی علیہ السلام کو فلاں گھر انے میں لے جایا جائے ،تو مجھے امید ہے کہ وہ د ودھ قبول کرلیںگے۔ اتنا سننا تھا کہ مو سی علیہ السلام کی بہن کو ان نوکرانیو ںنے پکڑلیا ۔ کیوں کہ ان کو شک ہو گیا کہ ہو نہ ہو، یہ موسی کی بہن یا ماں ہو ۔بہن نے کہا کہ میں نے یہ بات اس لیے کہی کہ اس گھر کے لو گ بادشاہ کے محل میں آنے جانے کی لالچ میں بچے کو دو دھ پلانے میں دلچسپی سے کام لیںگے۔او رخوب دل کھول کر خدمت کریں گے۔خیر! نو کرانیو ں نے بہن کو چھو ڑدیا ۔یہ خو شی خوشی گھر لو ٹیں او رپہنچ کر ماں کو ساری باتیں بتلادیں او رکہاکہ مو سی زند ہ ہیں لیکن کسی کا دو دھ نہیں لے رہے ہیں ۔پھر ماںکو اس جگہ لیکر آئیں ۔نو کرانیو ں کے کہنے سے حضرت علیہ السلام کی ماں نے انھیں گو د میں لے لیا ا ور جو ںہی گو د میں رکھا ،حضر ت موسی علیہ السلام نے اپنی ماں سے دو دھ لینا شرو ع کردیا ۔پھر کیا تھا!! یہ نو کرانیاں خو شی کے مارے پھو لے نہیں سمارہی تھیں ۔فورا جاکر آسیہ کو خو شخبری سنائی’’ دودھ پلانی والی مل گئی!‘‘آسیہ نے حضرت مو سی علیہ السلام کی ماں کو بلوا یا او ر کہاکہ مجھے اس بچے سے بہت زیادہ محبت ہے۔میں تو اسے اپنی نظر وں سے او جھل نہیں کرسکتی ۔اس لیے آپ کو میرے محل میں ر ہ کر ہی دو دھ پلانا ہو گا۔انہو ں نے جب یہ دیکھاکہ آسیہ کو مو سی علیہ السلام سے اتنا لگا ؤ ہے ،تو تھو ڑی سی بے نیا زی دکھاتے ہو ئے کہا: ’’میر ی گو د میں خود پہلے سے ایک بچہ ہے، جو دو دھ پی رہا ہے۔ میں اُ سے کیسے چھوڑ دو ں؟ یہ نہیں ہو سکتا! ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ میں اِسے اپنے گھر لے جاؤں ۔او رو ہیں دو دھ پلاؤں۔ البتہ میں اتنا ضرو ر و عدہ کرتی ہو ں کہ ا س کی حفاظت میں کو ئی کمی نہیں کرو ںگی ۔اگر آپ ا س کے لیے راضی ہیں تو ٹھیک ہے‘‘۔بیوی آسیہ کے پاس کو ئی راستہ نہیںتھا ۔انہو ںنے مجبور ہو کر اسی دن حضر ت مو سی علیہ السلام کو ان کی ماں کے حو الے کردیا۔اور ماں صاحبہ اپنے لاڈلے موسی علیہ السلام کو اپنے گھر لیکر آگئیں۔اس کے بعد پھر موسیؑ کوفرعون کے پاس بھیجے جانے سے لیکر موسی کے فرعون کے ساتھ تما م واقعات کا تفصیل سے بیان ہے (جو نویںپارے میںبھی ہے) ساتھ ہی فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد حضرت موسی کے کوہ طور پہ قیام کے دوران سامری کے ذریعہ بچھڑا بنالئے جانے کا واقعہ بھی اسی طرح اخیر میں ایمان و آخرت کی زندگی کی قیمت کے بیان پر پارہ مکمل ہوگیا ہے۔
سامری کے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے باپ دادا شام کے ایک گاؤں سامرہ کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں بنی اسرئیل میں آبسنے کی وجہ سے ان کا شمار انہیں لوگوں میں ہوگیا اور چوں کہ اس کی پیدائش کے سال بھی بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل ہورہاتھا اس لیے اس کی ماں نے قتل سے محفوظ کرنے لیے اسے ایک غار میں ڈالدیاتھاپھر اللہ تعالی کے حکم سے حضرت جبرئیل کے ذریعے اس کی پرورش ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ حضرت جبرئیل کو پہچانتا تھا اور اس نے سمند ر میں فرعون کے ڈوبنے کے موقع پہ حضرت جبرئیل کے گھوڑے کے نشان سے مٹی لے لی تھی جس کے بارے میں اس کے دل میں یہ آیا کہ اس میں جان ڈالنے کی صلاحیت ہے یا اس وجہ سے کہ اس نے دیکھا کہ جہاں حضرت جبرئیل کے گھوڑے کا سمُ پڑتاتھا وہاں سبزہ اگ جاتاتھاتو اس نے یہ یقین کیا کہ ا س میں جان ڈالنے کی صلاحیت ہے ۔ جب حضرت موسی کو ہ طورپہ چلے گئے تو اس بیچ میں اس نے فرعون کی قوم سے حاصل شدہ زیورات کو جمع کرواکر ان سے بچھڑ ے کا ایک ڈھانچہ تیار کیا اور اس میں وہ مٹی ڈالدی اور وہ بولنے بھی لگا اس کے بعد بنی اسرائیل نے اس کی پوچا شروع کردی جب وہ پہلی مرتبہ بولتا تو یہ لوگ اس کے آگے سجد ے میں گرجاتے اور جب دو بارہ بولتا تو یہ سجدے سے سراٹھالیتے(ابن کثیر عن ابن ابی حاتم) اس پہ غضب یہ کہ انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کردیا کہ یہی موسی کا بھی خدا ہے ان سے غلطی ہوگئی کہ وہ طور پہ خدا سے ملنے چلے گئے حضرت موسی نے واپسی پرناراضگی کا اظہار فرمایا جس کا تذکرہ نویں پارے میںبھی آگیا ہے یہاں اس پارے میں یہ ہے کہ انہوں نے حضرت ہارون اور قوم کے ساتھ ہی سامری سے بھی پوچھا کہ تم نے یہ سب کیوں کیا تو اس نے یہ جواب دیا کہ میں نے جو چیز دیکھی وہ ان لوگو ں نے نہیںدیکھی اور میں نے فرشتے کے قدم کے نشان سے ایک مٹھی مٹی لے لی تھی جسے میں نے اس بچھڑے کے سانچے میں ڈالدیااس موقع سے حضرت موسی نے فرمایا کہ اس دنیا میں تمہاری سزا یہ ہے کہ تم یہ کہتے پھرو گے کہ بھائی دیکھو چھونا مت!،، اورا س سلسلے میں مشہوربات یہ بتائی جاتی ہے کہ اگر کوئی اسے چھودیتا تو اسے دو دنوں تک بخار چڑھ جاتا اس لیے وہ ہمیشہ ڈرا رہتا کہ کہیں کوئی چھونہ دے اور کسی کو دور سے ہی دیکھ کر چلانا شروع کردیتا ,, بھائی چھونا مت ،، اور آخرت کا وعدہ ہے اور یہ معبود جس کی عبادت پہ تم جم گئے تھے ہم اسے ہم ضرور جلادیںگے اور اس کی راکھ دریا میں پھینکر بہادیں گے تا کہ اس کانام ونشان مٹ جائے (بیان القرآن عن الدر المنثور والمعالم)��

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here