حضرت محمدﷺ کو آخری نبی مانے بغیر ایمان معتبر نہیں !
ندیم احمد انصاری
ایمان کی تکمیل کے لیے جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو معبود ماننے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُس کے علاوہ کسی کو حقیقی معبود نہ مانے، اسی طرح حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نبی و رسول ماننے کے ساتھ ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول و نبی ہیں۔آپ کے آخری نبی ہونے کا بیان قرآن و احادیث میں اس کثرت و وضاحت سے آیا ہے، جس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش ہے اور نہ انکار کی۔ اس مسئلے میں ہر دور کے مسلمانوں کا اجماع رہا ہے بلکہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جس مسئلے پر سب سے پہلے اجماع ہوا وہ بھی یہی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ، وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمَا۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم تمھارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، ہاں اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (الاحزاب:40)
اس اعلانِ خداوندی کے بعد کسی کا منہ نہ رہا کہ وہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے لیکن افسوس کہ اس قدر صریح ارشاد کے باوجود متعدد ایسے ناہنجار پیدا ہوتے رہے، جنھوں نے اس مقامِ عالی شان کو اپنی ہوس کا شکار بنانے کی کوشش کی لیکن کمال دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے موقعوں پر ہمیشہ ایسے جیالے پیدا کیے جنھوں نے ان ملعونوں کو دھول چٹادی اور اُن کے تمام جھوٹے دعووں اور دلیلوں کا دندانِ شکن جواب دیا۔
حضرت زید ابن حارثہؓ روایت کرتے ہیں کہ جب میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر مسلمان ہو گیا تو میرا قبیلہ مجھے تلاش کرتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اے زید! ہمارے ساتھ چلو۔ انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی کو پسند نہیں کرتا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا ارادہ رکھتا ہوں۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا: اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )! اس لڑکے کے عوض میں ہم آپ کو بہت سا مال دے سکتے ہیں، جو آپ چاہیں ہمیں بتلا دیں ہم اُسے ادا کر دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تم سے صرف ایک چیز مانگتا ہوں، وہ یہ کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور اس بات کی کہ میں اُس کے بھیجے ہوئے تمام نبیوں اور رسولوں میں آخری نبی اور رسول ہوں، اگر تم ایسا کرو تو میں ابھی اس لڑکے کو تمھارے ساتھ بھیجے دیتا ہوں۔ ( مستدرک حاکم:3/314)
دیکھیے اس حدیث میں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی توحید پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا، اسی طرح اپنی ختمِ نبوّت پر ایمان لانے کا مطالبہ بھی کیا، اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا، آپ کی ختمِ نبوت پر ایمان لائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ قرآنِ کریم میں {وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہ}کے ساتھ {وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ} کا لفظ بھی اسی لیے استعمال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول اللہ نہیں ہیں بلکہ خاتم النبیین بھی ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخصوص لقب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے ہی اس کا دعویٰ کیا ہے، آپ سے پہلے کبھی کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا۔ مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لقب بہ طور ر مدح نہیںبلکہ عقیدے کی حیثیت سے ہے، خاتم المحدثین یا خاتم الشعراء کی طرح صرف ایک محاورہ نہیں ہے۔ (ترجمان السنۃ:1/355 بتغیر)
ان مختصر دلائل سے معلوم ہوا کہ جہانوں کا سردار آگیا، اب کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔۔۔دنیا اسی کے زیرِ رسالت و سیادت ختم ہو جائے گی۔ عالَم کی آبادی کا دارو مدار اُس کی ہدایت پر ہے اور کارخانۂ ہدایت تمام کا تمام رسولوں کی ذات سے وابستہ ہے، اس لیے عالَم کی ابتدا و انتہا اور رسالت کی ابتدا و انتہا میں بڑا گہرا ربط ہے۔۔۔پروردگارِ عالم نے جب ایک طرف عالَم کی بنیاد رکھی تو اُسی کے ساتھ ساتھ دوسری طرف قصرِ نبوت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی یعنی عالَم میں جس کو اپنا خلیفہ بنایا تھا، اُسی کو قصرِ نبوت کی خشتِ اوّل قرا ر دے دیا۔ اِدھر عالَم بہ تدریج پھیلتا رہا، اُدھر قصرِ نبوت کی تعمیر ہوتی رہی۔۔۔ آخر کار عالَم کے لیے جس عروج پر پہنچنا مقدر تھا، پہنچ گیا، اُدھر قصرِنبوت بھی اپنے جملہ محاسن و خوبیوں کے ساتھ مکمل ہو گیا اور اس لیے ضروری ہوا کہ جس طرح عالَم کی ابتدا میں رسولوں کی بعثت کی اطلاع دی گئی تھی، اُ س کی انتہا پر رسولوں کے خاتمے کا بھی اعلان کر دیا جائے تاکہ قدیم سنت کے مطابق آیندہ اب کوئی شخص رسول کی آمد کا انتظار نہ کرے۔
اعلانِ خداوندی ہوا:
ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ، فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن۔
(مفہوم)اے آدم کی اولاد! (دیکھو) تمھارے پاس تم میں سے ہی رسول آئیں گے، جو میری آیتیں تمھیں پڑھ پڑھ کر سنائیں گے، جس نے تقوے کی راہ اختیار کی اور نیک رہا تو اُس پر نہ گذشتہ کا خوف نہ آیندہ کا غم۔(الاعراف:35)
اس اعلان کے مطابق خدا تعالیٰ کی زمین پر بہت سے رسول آئے مگر کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ خاتم النبیین ہے، بلکہ ہر رسول نے اپنے بعد دوسرا رسول آنے کی بشارت سنائی، حتیّٰ کہ وہ زمانہ آگیا، جب کہ اسرائیلی سلسلے کے آخری رسول نے اسماعیلی سلسلے کے اُس رسول کی بشارت دے دی، جس کا اسمِ مبارک’احمد‘ ہے۔
وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰئۃِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِن بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۔
اور جب کہ عیسیٰ بن مریم نے فرمایا کہ اے بنی اسرائیل میں تمھارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں، مجھ سے پہلے جو توراۃ ہے میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت دینے والا ہوں۔(الصف:6)
پھر عالم کے اس منتظر اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ و السلام کے اس مبشر رسول نے دنیا میں آکر ایک نیا اعلان کیا اور وہ یہ تھا کہ میں اب آخری رسول ہوں، خود عالَم کا زمانہ بھی آخر ہے اور ہاتھ کی دو اُنگلیوں سے اشارہ کرکے فرمایا کہ میں اور قیامت اِس طرح قریب قریب ہیں، عالم اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے، قصرِ نبوت میں ایک ہی اینٹ باقی تھی، وہ میری آمد سے پوری ہو گئی ہے۔ دونوں تعمیریں مکمل ہو گئیں ہیں، اب صلاح و تقوے کا نتیجہ دیکھنے کا زمانہ آتا ہے۔ (ترجمان السنۃ:1/377، بتغیر)
اسی لیے علماے اسلام نے دو ٹوک الفاظ میں تحریر فرمایا کہ ہمارے نبی، رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین ہیں، اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کو آپ پر ختم کر دیا ہے۔ آپ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا، اب آپ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا اور آپ کا لایا ہوا دین تمام گذشتہ دینوں کا ناسخ ہے، آپ کی لائی ہوئی کتاب ، تمام گذشتہ کتابوں کے احکام کی ناسخ ہے۔ قیامت تک کے لیے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اور آپ کی شریعت کا اتباع فرض ہے اور اس کے سوا تمام دینوں کا ترک کرنا لازم ہے، سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ تک پہنچنے کی سب راہیں بند کر دی گئی ہیں اور آپ کی شریعت، تمام شریعتوں کی ناسخ ہے، اب قیامت تک آپ ہی کی شریعت رہے گی اور کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ جو شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ سمجھے، وہ بلا شبہ کافر ہے اور جو شخص آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، وہ بلا شبہ کافر ہے۔ (عقائد الاسلام:2/75، بتغیر) نیز جن فرقوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختمِ نبوت کا انکار کرکے نبی کے لیے لیے دروازہ کھولنا چاہا اور قرآنِ کریم کی واضح تصریح خاتم النبیین کو اپنے مقصد میں حائل پایا تو انھوں نے رسول و نبی کی بہت سی قسمیں اپنی طرف سے اختراع کر لیں، جن کا نام نبیِ ظلّی، نبیِ بروزی وغیرہ رکھ دیا اور ان کے لیے گنجائش نکالنے کی کوشش کی، مذکورالصدر آیت نے ان کے دجل و گمراہی کو بھی واضح کر دیا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ کے ایمان بالرسل میں کسی ظلی و بروزی کا کہیں نام و نشان نہیں، یہ کھلا ہوا زندقہ اور الحاد ہے۔ (معارف القرآن:1/356)
اس تفصیل سے کسی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قُربِ قیامت واپس آنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر اشکال نہیں ہونا چاہیے، اس لیے کہ خاتم النبیین اور آخر النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص عہدۂ نبوت پر فائز نہیں ہوگا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سے پہلے جس کو نبوت عطا ہو چکی ہے اُن کی نبوت بھی سلب ہو جائے گی یا اُن میں سے کوئی اِس عالم میں پھر نہیں آسکتا، البتہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اصلاح و تبلیغ کے لیے آئے گا، وہ اپنے منصبِ نبوّت پر قائم رہتے ہوئے، اس امت میں اصلاح کی خدمت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہی کے تابع رہ کر انجام دے گا، جیسا کہ احادیثِ صحیحہ میں تصریح ہے۔ (معارف القرآن: ۷؍۱۶۴، بتغیر) نیز اس اشکال کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا، جیسے آخری اولاد اور آخری بیٹے کے یہ معنی ہیں کہ اِس کے بعد کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوئے اور آپ سے پہلے پیغمبر ہوئے، اس لیے اُن کا نزول ختمِ نبوت کے معارض نہیں۔ (دیکھیے مسلک الختام من ختم النبوۃ: 36)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی عقائد کو صحیح طور پر جاننے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین