Imam-e-Azam Abu Hanifa rahmatullahi alayhi : Hayat-o-Khidmaat aur chand be ja ilzamaat ke jawabaat

 

[تاریخِ وفات (۲؍شعبان المعظم) پر خراجِ عقیدت]
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ:حیات و خدمات اور چند بے جا الزامات کے جوابات
ندیم احمد انصاری
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و شخصیت پر درجنوں کتابیں مختلف زبانوں اور مختلف زمانوں میں لکھی گئی ہیں، دیگر علما یا ائمۂ اربعہ جیسے ’سیرتِ ائمۂ اربعہ، قاضی اطہر مبارک پوریؒ(صفحات: 256)‘کے ساتھ یک جا لکھی جانے والی کتابوں کے علاوہ بہت سی کتابیں خاص آں موچصوف کے حالات و کمالات پر مشتمل ہیں، جس میں عربی کے علاوہ اردو کی بہت سی کتابیں موجود ہیں،اردو زبان میں درجِ ذیل کتابیں خود راقم الحروف کی باصرہ نواز ہوئیں، جن میں آں موصوف کے حالات و واقعات کا ذکر بھی ہے اور آپ کے مقام و مرتبے کا بھی، نیز بعض کتابوں میں آپ پر کیے گئے اعتراضات کے مدلل جوابات بھی دیے گئے ہیں اور حقائق کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام الائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کس اعلیٰ درجے کے محقق عالم، و محدث اور فقیہ تھے: (۱)مقامِ ابی حنیفہؒ، مولانا سرفراز خان صفدرؒ، صفحات: 284(۲)سوانح امام اعظم ابو حنیفہؒ، شاہ ابو الحسن زید فاروقی، صفحات: 400(۳)امام اعظم ابو حنیفہؒ کے حیرت انگیز واقعات، مولانا عبد القیوم حقانی، صفحات: 143(۴)امام ابو حنیفہ : سوانح و افکار، امانت علی قاسمی، صفحات: 270(۵)امام ابو حنفیہ کی تابعیت اور صحابہ سے ان کی روایت، مولانا عبد الرشید نعمانی، صفحات: 128(۶)علمِ حدیث میں امام ابو حنیفہؒ کا مقام و مرتبہ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، صفحات: 24 (۷)امام اعظم ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام، مولانا ظہور احمد الحسینی، صفحات:641(۸)امام ابو حنیفہؒ کی محدثانہ حیثیت، مولانا سید نصیب علی شاہ ہاشمی، صفحات:148(۹)امام ابو حنیفہ اور معترضین، مفتی سید مہدی حسن شاہ جہاں پوریؒ، صفحات: 119(۱۰)حضرت امام ابو حنیفہؒ پر ارجاء کی تہمت، مولانا نعمت اللہ اعظمی، صفحات:32(۱۱)امام اعظم ابو حنیفہ: حیات و فقہی کارنامے، مشتاق احمد کریمی، صفحات: 246(۱۲)امام ابو حنفیہ: امام الائمۃ فی الحدیث، ڈاکٹر طاہر القادری، صفحات: 865(۱۳)امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی،مولانا مناظر احسن گیلانی، صفحات: 615(۱۴)ملفوظات امام ابو حنیفہؒ، مولانا محمود اشرف عثمانی، صفحات:33۔البتہ اردو میں شیخ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن یوسفؒ صالحی دمشقی شافعی متوفی 942ھ کی تصنیف عقود الجمان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمانؒ کا اردو ترجمہ تذکرۃ النعمان اور مولانا شبلی نعمانیؒ کی سیرۃ النعمان بہت مشہور اور اہم کتابیں ہیں، جس میں موضوع سے متعلق بہت سی اہم باتیں خوبی سے جمع کر دی گئی ہیں، جس میں امام صاحبؒ کی سوانح حیات بھی ہے اور ان کی فقہ کی خصوصیات اور شاگردوں وغیرہ کے مختصر حالات بھی۔ہم انھیں دونوں سے کتابوں سے اخذ کرکے چند باتیں یہاں ذکر کرنا چاہتے ہیں:
بشارتِ نبوی
ایک حدیث میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد وارد ہوا ہے:لوکان الا یمان عند الثریا لاتنالہ العرب، لتناولہ رجل من ابناء فارس۔ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہو اور عرب ا س کو نہ پا سکتے ہوں تو بھی اس کو ایک فارسی آدمی پالے گا۔نیز علامہ جلال الدین سیوطیؒ اس حدیث سے قطعی طور پر امام ابو حنیفہؒ کو مراد لیتے ہیں اس لیے کہ ان سے پہلے کوئی بھی فارس کا رہنے والا امام صاحبؒ کے برابر علم والا نہیں ہو سکا۔
نام و نسب اور تابیعت
نام نعمان، کنیت ابو حنیفہ اور امامِ اعظم آپؒکا لقب ہے۔ خطیب بغدادیؒ نے شجرۂ نسب کے سلسلے میں امام صاحبؒکے پوتے اسماعیل کی زبانی نقل کیا ہے کہ میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان ہوں۔ ہم لوگ نسلِ فارس سے ہیں اور کبھی کسی کی غلامی میں نہیں آئے۔ ہمارے دادا ابو حنیفہ 80ھ میں پیدا ہوئے، ہمارے پر دادا ثابت بچپن میں حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، حضرت علیؓ نے ان کے لیے بر کت کی دعا کی، اللہ نے یہ دعا ہمارے حق میں قبول فرمائی،معلوم ہوا امام صاحبؒ عجمی النسل تھے۔
اکثر مورخین فرماتے ہیں کہ آپ 80ھ میں عراق کے دارالحکومت کوفہ میں پیدا ہوئے، اُس وقت وہاں صحابہ میں سے عبداللہ بن ابی اوفیؓموجود تھے، عبد الملک بن مروان کی حکومت تھی اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔یہ وہ عہد تھا کہ رسول اللہﷺ کے جمالِ مبارک سے جن لوگوں کی آنکھیں روشن ہوئی تھیں (یعنی صحابہؓ) ان میں سے چند بزرگ ابھی موجود تھے، جن میں سے بعض امام حنیفہؒ کے آغازِ شباب تک زندہ رہے۔ مثلاً انس بن مالکؓجو رسول ﷺ کے خادمِ خاص تھے، انھوں نے 93ھ میں انتقال کیا اور ابو طفیل عامر بن واثلہؓ110ھ تک زندہ رہے۔ ابن سعد نے روایت نقل کی ہے کہ جس کی سند میں کچھ نقصان نہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے انس بن مالکؓکو دیکھا تھا۔ حافظ ابن حجرؒنے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ امام صاحبؒنے بعض صحابہؓکو دیکھا تھا۔
تعلیم و تربیت اور اساتذہ
سلیمان کے عہدِ خلافت میں جب درس و تدریس کے چرچے زیادہ عام ہوئے تو آپ کے دل میں بھی ایک تحریک پیدا ہوئی، حسنِ اتفاق کہ ان ہی دنوں میں ایک واقعہ پیش آیا جس سے آپ کے ارادے کو اور بھی استحکام ہوا۔امام صاحبؒ ایک دن بازار جا رہے تھے، امام شعبیؒ جو کوفے کے مشہور امام تھےان کا مکان راہ میں تھا، سامنے سے نکلے تو انھوں نے یہ سمجھ کر کہ کوئی نوجوان طالبِ علم ہے بلا لیا اور پوچھا:کہاں جا رہے ہو؟آپؒنےایک سودا گر کا نام لیا۔ امام شعبیؒ نے کہا:میرا مطلب یہ نہ تھا، یہ بتاؤ تم پڑھتے کس سے ہو؟ آپؒنے افسوس کے ساتھ جواب دیا:کسی سے نہیں۔ شعبیؒ نے کہا:مجھ کو تم میں قابلیت کے جوہر نظر آتے ہیں، تم علما کی صحبت میں بیٹھا کرو۔ یہ نصیحت آپؒکے دل کو لگی اور اس کے بعد نہایت اہتمام سے تحصیلِ علم پر متوجہ ہوئے۔
امام ابو حفص کبیرؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے اساتذہ کے شمار کرنے کا حکم دیا، حکم کے مطابق شمار کئے گئے تو ان کی تعداد چار ہزار تک پہنچی۔ علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں جہاں ان کے شیوخِ حدیث کے نام گنائے ہیں اخیر میں لکھ دیا ہے:وخلق ٌکثیرٌ۔ حافظ ابو المحاسن شافعیؒ نے تین سوانیس(319) شخصیتوں کے نام بہ قیدِ نسب لکھے ہیں۔خلاصہ یہ کہ امام صاحبؒ نے ایک گروہِ کثیر سے استفادہ کیا جو بڑے بڑے محدث اور سند و روایت کے مرجعِ عام تھے۔ مثلاً اما م شعبیؒ، سلمہ بن کہیلؒ، ابو اسحاق سبعیؒ، سماک بن حربؒ، محارب بن ورثائؒ، عون بن عبد اللہؒ، ہشام بن عروہؒ، اعمشؒ، قتادہؒ، شعبہؒ اور عکرمہؒ وغیرہ وغیرہ۔
سلسلۂ تدریس و افتا
امام صاحبؒکے خاص استاد حضرت حمادؒ نے 120ھ میں وفات پائی، چوں کہ ابراہیم نخعیؒ کے بعد فقہ کا دارو مدار اِنھیں پر رہ گیا تھا، ان کی موت نے کوفے کو بے چراغ کر دیا، لہٰذا تمام بزرگوں نے اتفاقِ رائے سے امام ابو حنیفہؒ سے درخواست کی کہ مسندِ درس کو رونق بخشیں، اس وقت امام صاحبؒ کی عمر چالیس سال تھی۔ابوالولیدؒ کا بیان ہے کہ لوگوں نے ان کے پاس وہ سب کچھ پایا جو ان کے بڑوں کے پاس نہیں ملا اور نہ ہی ان کے ہم عصروں میں، چناں چہ لوگ آپؒ کی صحبت میں آ گئے اور غیروں کو چھوڑ دیا۔اُنھیں دِنوں میں امام صاحبؒنے خواب دیکھا کہ پیغمبرﷺ کی قبرِ مبارک کھود رہے ہیں۔ ڈر کر چونک پڑے اور سمجھے کہ ناقابلیت کی طرف اشارہ ہے، لیکن علمِ تعبیر کے امام ابن سیرینؒنے تعبیر بتائی کہ اس سے ایک مُردہ علم کو زندہ کر نا مقصود ہے۔تب امام صاحبؒ کو تسکین ہو ئی اور اطمینان کے ساتھ درس و افتاء میں مشغول ہو گئے۔دھیرے دھیرے اسلامی دنیا کا کوئی حصہ نہ بچاجو آپؒکی شاگردی کے تعلق سے الگ رہا ہو۔ جن جن مقامات کے رہنے والے آپؒکی خدمت میں پہنچے ان کا شمار ممکن نہیں لیکن جن اضلاع و ممالک کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں: مکہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، مصر، یمن، یمامہ، بغداد، اصفہان، استرآباد، ہمدان، طبرستان، مرجان، نیشاپور، سرخس، بخارا، سمرقند، کس، صعانیاں، ترمذ، ہرات، خوازم، سبستان، مدائن، حمص وغیرہ۔ مختصر یہ کہ آپؒکی استادی کے حدود خلیفۂ وقت کی حدودِ حکومت سے کہیں زیادہ تھے۔حتیّٰ کہ آپؒ کے شاگردوں میں بڑے بڑے امام ہوئے اور بڑے بڑے علما آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مشتِ از خروارے:یحیٰ بن سعیدؒ، عبداللہ بن مبارکؒ، یحیٰ بن زکریاؒ، وکیع بن جراحؒ، یزید بن ہارونؒ، حفص بن غیاصؒ، ابو عاصمؒ عبد الرزاق بن ہمامؒ، داوٗد الطائیؒ جیسے محدثین اور قاضی ابو یوسفؒ، محمد بن حسن الشیبانیؒ، زفرؒ، حسن بن زیادؒ وغیرہ وغیرہ۔
چند واقعات اور وفات
خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ یزید بن عمر بن ہیبر، والیِ عراق نے امام ابو حنیفہؒ کو حکم دیا کہ کوفے کے قاضی بن جائیں، لیکن امام صاحب نے قبول نہیں کیا تو اس نے آپؒکو ایک سو دس کوڑے لگوائے۔ روزانہ دس کوڑے لگواتا، جب بہت کوڑے لگ چکے اور امام صاحب اپنی بات یعنی قاضی نہ بننے پر اڑے رہے تو اس نے مجبور ہو کر چھوڑ دیا۔ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب قاضی ابن لیلیٰ کا انتقال ہو گیا اور خلیفہ منصور کو اطلاع ملی تو اس نے امام صاحب کے لیے قضا کا عہدہ تجویز کیا، امام صاحب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس کی قابلیت نہیں رکھتا۔ منصور نے غصّے میں آ کر کہا:تم جھوٹے ہو۔ امام صاحب نے کہا: اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ دعویٰ ضرور سچا ہے کہ میں عہدۂ قضا کے قابل نہیں، کیوں کہ جھوٹا شخص کبھی قاضی نہیں بن سکتا۔
خلیفہ ابو جعفر منصور نے دارالخلافہ کے لیے بغداد کا انتخاب کیا اور امام اعظمؒ کو قتل کرنے کے لیے کوفہ سے بغداد بلوایا تھا، کیوں کہ حضرت حسنؓکی اولاد میں سے ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علیؓنے خلیفۂ منصور کے خلاف بصرہ میں عَلَمِ بغاوت بلند کر دیا تھا۔ امام صاحب ابراہیم کے علانیہ طرف دار تھے، ادھر منصور کو خبر دی گئی کہ امام ابو حنیفہؒ ان کے حامی ہیں اور انھوں نے زرِ کثیر دے کر ابراہیم کی مد د بھی کی ہے۔خلیفہ منصور کو امام صاحب سے خوف ہوا، لہٰذا ان کو کوفے سے بغداد بلا کر قتل کر نا چاہا، مگر بلا سبب قتل کر نے کی ہمت نہ ہوئی، اس لیے ایک سازش کر کے قضا کی پیش کش کی۔ امام صاحب نے قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول کر نے سے انکار کر دیا اور معذرت کر دی کہ مجھ کو اپنی طبیعت پر اطمینان نہیں، میں عربی النسل نہیں ہوں، اس لیے اہلِ عرب کو میری حکومت ناگوار ہو گی، درباریوں کی تعظیم کرنی پڑے گی اور یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔منصور نے قاضی القضاۃ کے عہدہ قبول نہ کر نے کی وجہ سے امام صاحب کو اس وقت یعنی 146ھ میں قید میں ڈال دیا، لیکن ان حالات میں بھی اس کو ان کی طرف سے اطمینان نہ ہوا۔ امام صاحب کی شہرت دور دور تک پہنچی ہوئی تھی، قید کی حالت نے ان کے اثر اور قبولِ عام کو کم کر نے کے بجائے اور زیادہ کر دیا تھا، قید خانے میں ان کا سلسلۂ تعلیم بھی برابر قائم رہا۔امام محمدؒ نے جو فقہ کے دست و بازو ہیں، قید خانے ہی میں ان سے تعلیم پائی۔ ان وجوہ سے منصور کو امام صاحب کی طرف سے جو اندیشہ تھا وہ قید کی حالت میں بھی برقرار رہا، جس کی آخری تدبیر اس نے یہ کی کہ بے خبری میں ان کو زہر دلوا دیا۔ جب ان کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں قضا کی اور اپنے رب سے جا ملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
اولاد و احفاد
آپؒ 80ھ میں پیدا ہوئے اور 150ھ میں وصال فرمایا، تب آپ کی عمر مبارک 70 سال تھی۔ وفات کے وقت حماد کے سوا آپؒکے کوئی اور اولاد نہ تھی۔وہ بڑے رتبےکے فاضل تھے، ان کی تعلیم و تربیت نہایت اہتمام سے ہوئی تھی۔ چناں چہ جب الحمد ختم کی تو ان کے والدِ بزرگوار نے اس تقریب میں معلّم کو پانچ سو درہم نذر کیے، بڑے ہوئے تو خود امام صاحبؒ سے مراتبِ علمی کی تکمیل کی۔ علم و فضل کے ساتھ بے نیازی اور پرہیز گاری میں بھی باپ کے خلف الرشید تھے، تمام عمر کسی کی ملازمت نہیں کی، نہ شاہی دربار سے کچھ تعلق پیدا کیا۔ ذیو القعدہ 176ھ میں قضا کی۔ چار بیٹے چھوڑے عمر، اسمعیل، ابو حیان اور عثمان۔علاوہ ازیں امام صاحبؒ کی معنوی اولاد تو آج تمام دنیا میں پھیلی ہو ئی ہے اور اور خدا کے فضل سے علم و فضل کا جوہر بھی نسلاً بعد نسل اُ ن کی میراث میں چلا آتا ہے۔
حافظ الحدیث و بانی فقہ
امام ابو حنیفہؒ کا شمار بڑے حفاظِ حدیث میں ہو تا ہے۔ امام صاحبؒ نے چار ہزار محدثین سے حدیث پڑھی ہے، ان میں سے بعض شیوخِ حدیث تابعی تھے اور بعض تبعِ تابعی، اسی لیے علامہ ذہبیؒنے امام صاحبؒ کا شمار محدثین کے طبقۂ حفاظ میں کیا ہے۔امام صاحبؒ کے شاگردوں نے خود ان سے سیکڑوں حدیثیں روایت کی ہیں۔ مؤطا امام محمدؒ، کتاب الآثار، کتاب الحج جو عام طور پر متداول ہیں، ان میں بھی امام صاحب سے بیسیوں حدیثیں مروی ہیں۔اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ جس شخص نے بیس برس کی عمر سے علمِ حدیث پر توجہ کی ہو اور ایک مدت تک اس شغل میں مصروف رہا ہو، جس نے کوفے کے مشہور شیوخِ حدیث سے حدیثیں سیکھیں ہوں، جو حرمِ محترم کی درس گاہوں میں بر سوں تحصیلِ حدیث کر تا رہا ہو، جس کو مکہ و مدینہ کے شیوخ نے سندِ فضیلت دی ہو، جس کے اساتذۂ حدیث عطا بن ابی رباحؒ، نافع بن عمرؒ، عمر بن دینارؒ، محارب بن و رثاؒ، اعمش کوفیؒ، امام باقرؒ، علقمہ بن مرثدؒ، مکحول شامیؒ، امام اوزاعیؒ، محمد بن مسلمؒ، ابو اسحٰق السبیعیؒ، سلیمان بن یسارؒ، منصور المعتمرؒ، ہشام بن عروہ رحمہم اللہ وغیرہ ہوں، جو فنِ روایت کے ارکان ہیں اور جن کی روایتوں سے بخاری و مسلم مالا مال ہیں، وہ حدیث میں کس رتبہ کا شخص ہو گا؟ نیز امام صاحبؒ کے شاگردوں پر غور کرو یحیٰ بن سعید القطانؒجو فنِ جرح و تعدیل کے امام ہیں، عبد الرزاق بن ہمامؒ جن کی جامع کبیر سے امام بخاریؒ نے فایدہ اٹھایا ہے، یزید بن ہا رونؒجو امام احمد بن حنبلؒ کے استاد تھے، وکیع بن الجراحؒ جن کی نسبت امام احمد بن حنبلؒ کہا کر تے تھے حفظِ اسناد و روایت میں میں نے کسی کو ان کا ہم پلّہ نہیں دیکھا، عبد اللہ بن مبارکؒ جو فنِ حدیث میں امیر المومنین تسلیم کیے گئے ہیں، یحیٰ بن زکریاؒ جن کو علی بن المدنیؒ (استادِ بخاری) منتہائے علم کہتے ہیں،یہ لوگ براے نام امام صاحبؒکے شاگرد نہ تھے بلکہ برسوں ان کے دامنِ فیض میں تعلیم پائی تھی اور اس انتساب سے ان کو فخر و ناز تھا، عبد اللہ بن مبارکؒ کہا کر تے تھے کہ اگرخدا نے ابو حنیفہؒ سے میری مدد نہ کی ہوتی، تو میں ایک معمولی آدمی ہو تا۔
امام صاحبؒ کی مرویات کم کیوں؟
امام صاحب نے روایت کے متعلق جو شرطیں اختیار کیں کچھ تو وہی ہیں جو اور محدثین کے نزدیک مسلّم ہیں، کچھ ایسی ہیں جن میں وہ منفرد ہیں یا صرف امام مالکؒ اور بعض اور مجتہدین ان کے ہم خیال ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ صرف وہ حدیثیں حجت ہیں جس کو راوی نے اپنے کانوں سے سنا ہو اور روایت کے وقت تک اس کو یاد رکھا ہو۔یہ قاعدہ بظاہر نہایت صاف جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا لیکن اس کی تفریعیں نہایت وسیع اثر رکھتی ہیں اور عام محدثین کو اُن سے اتفاق نہیں ہے۔ محدثین کے نزدیک ان پابندیوں سے روایت کا دائرہ تنگ ہو جا تا ہے، لیکن اما م صاحبؒ نے روایت کی وسعت کی نسبت احتیاط کو مقدم رکھا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ کا اشتغال مسائل کو دلائل سے استنباط کر نے میں زیادہ رہا جیسے کہ کبارِ صحابہؓحضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ عمل میں مشغول رہے، اسی وجہ سے ان کی مرویات کم ہیں، اس کے برخلاف جو صحابہؓ ان سے کم مر تبہ ہیں ان کی روایات ان اکابر صحابہؓ کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔ یہ تمام باتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ علمِ حدیث میں امام ابو حنیفہؒ کا کیا پایہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں نے امام ابو حنیفہؒ کو امام ابو حنیفہؒ نہیں بنایا، اگر وہ حافظ الحدیث تھے تو اور لو گ بھی تھے، اگر ان کے شیوخِ حدیث کئی سو تھے، تو بعض ائمۂ سلف کے شیوخ کئی کئی ہزار تھے، اگر انھوں نے کوفہ و حرمین کی درسگاہ میں تعلیم پائی تھی تو اوروں نے بھی یہ شرف حاصل کیا تھا۔ ابو حنیفہ کو جس بات نے تمام ہم عصروں میں امتیاز دیا وہ اور چیز ہے، جو ان سب باتوں سے بالا تر ہے یعنی احادیث کی تنقید اور بہ لحاظِ ثبوت احکام، ان کے مرا تب کی تفریق۔امام ابو حنیفہؒ کے بعد علمِ حدیث کو بہت ترقی ہوئی، غیر مرتب اور منتشر حدیثیں یک جا کی گئیں، صحت کا التزام کیا گیا۔ اصولِ حدیث کا مستقل فن قائم ہو گیا، جس کے متعلق سینکڑوں بیش بہا کتابیں تصنیف ہوئیں۔ زمانہ اس قدر ترقی کر گیا تھا کہ باریک بینی اور دقتِ آفرینی کی کو ئی حد نہیں رہی، تجربہ اور دقتِ نظر نے سیکڑوں نئے نقطے ایجاد کیے، لیکن تنقیدِ احادیث، اصولِ درایت، امتیازِ مراتب میں امام ابو حنیفہؒ کی تحقیق کی جو حد ہے آج بھی ترقی کا قدم اس سے آگے نہیں بڑھتا۔
قیاس کا الزام اور اس کی تردید
عبد اللہ بن مبارکؒ سے روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے حج کیا تو ابو جعفر محمد بن علی بن حسینؓبن علی ابی طالبؓکی زیارت کی۔ ابو جعفر نے امام صاحبؒ سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ تم وہی ہو جو عقل و قیاس کے ذریعے حدیثوں کی مخالفت کر تے ہو؟ابو حنیفہ نے فرمایا:اللہ کی پناہ! آپ تشریف رکھیے، آپ کی تعظیم ہم پر واجب ہے، کیوں کہ آپ سادات میں سے ہیں۔ابو جعفر محمد بیٹھ گئے، تو امام صاحبؒنے با ادب عرض کیا: حضرت! آپ سے صرف تین مسئلے دریافت کر رہا ہوں جواب عنایت فرمائیں؛ اول یہ کہ مرد زیادہ کمزور ہے یا عورت؟ فرمایا:عورت۔امام صاحبؒنے عرض کیا:مرد اور عورت کا کتنا کتنا حصہ وراثت میں ہوتا ہے؟ ابو جعفر نے فرمایا:عورت کا حصہ مرد کے حصے کا آدھا ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے عرض کیا: اگر میں قیاس سے کہتا اور عقل کا استعمال کرتا تو اس کے برعکس کہتا، کیوں کہ عورت مرد سے کمزور ہے، لہٰذا اس کا حصہ دوگنا ہو نا چاہیے۔دوسرا مسئلہ عرض یہ ہے کہ نماز افضل ہے یا روزہ؟ فرمایا:نماز۔ تب امام صاحبؒ نے عرض کیا اگر میں قیاس سے کہتا تو دوسرا حکم دیتا اور کہتا کہ حائضہ عورت نماز کی قضا کرے، روزے کی نہیں، کیوں کہ نماز روزے سے افضل ہے۔تیسرا مسئلہ امام صاحب نے دریافت کیا کہ پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی؟ فرمایا:پیشاب زیادہ نجس ہے۔ اس پر امام صاحبؒنے فرمایا: اگر میں قیاس سے کہتا تو یہ حکم دیتا کہ پیشاب سے غسل واجب ہے، منی سے نہیں، کیوں کہ پیشاب زیادہ نجس ہے۔ اللہ کی پناہ! کہ میں حدیث کے خلاف کوئی بات کہوں، میں تو حدیث کے چاروں طرف پھرتا ہوں۔ یہ سن کر ابو جعفر محمد کھڑے ہو گئے اور ابو حنیفہ کی پیشانی چوم لی۔
ضعیف احادیث سے استدلال اور اس کا جواب
امام اعظم ابو حنیفہؒ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آ پؒجن احادیث سے استدلال کر تے ہیں وہ اکثر ضعیف ہیں۔اس اعتراض کا جواب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت میں مفصل تحریر فرمایا ہے، جسے مختصراً نقل کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو حقیقت کا اندازہ ہو سکے:
(1) ضعیف حدیث سے استدلال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ احکام کے سلسلے کی آیتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور پھر حنفیہ کی کتابوں کا انصاف اور حقیقت پسندی سے پڑھا جائے تو حقیقتِ حال واضح ہو جائے گی، خاص طور سے مندرجۂ ذیل کتابوں کا مطالعہ اس مکالمے میں نہایت مفید ہو گا:شرح معانی الآثار للطحاویؒ،فتح القدیرلا بن الہمامؒ،نصب الرایہ للزیلعیؒ،الجوہر النقی للمداینیؒ،عمدۃ القاری للعینیؒ،فتح الملہم للشیخ العثمانیؒ،بذل المجہود للشیخ السہارنپوریؒ،اعلاء السنن للشیخ احمد العثمانیؒ،معارف السنن للشیخ البنوریؒ،فیض الباری شرح صحیح البخاریؒ للشیخ انور شاہ کشمیریؒ۔ ان کتابوں میں قرآن و سنت سے حنفی مسلک کے دلائل شرح و بسط کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ صحیح احادیث صرف بخاری و مسلم ہی میں منحصر نہیں ہیں۔ امام بخاری اور مسلم کے علاوہ سینکڑوں ائمۂ حدیث نے احایث کے مجموعے مرتب فرمائے ہیں، دوسری کتابوں کی احادیث بھی بسا اوقات صحیحین کے معیار کی ہو سکتی ہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی حدیث سنداً صحیحین سے بھی اعلیٰ معیار کی ہو سکتی ہو۔ مثلاً ابن ماجہ صحاح ستہ میں چھٹے نمبر کی کتاب ہے، لیکن اس میں بعض احادیث جس اعلیٰ سند کے ساتھ آئی ہیں، صحیحین میں اتنی اعلیٰ سند کے ساتھ نہیں ( ملاحظہ ہو: ماتمس الیہ الحاجۃ) لہٰذا محض یہ دیکھ کر کسی حدیث کو ضعیف کہہ دینا کسی طرح درست نہیں کہ وہ صحیحین یا صحاحِ ستہ میں موجود نہیں،بلکہ اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اصولِ حدیث کے لحاظ سے اس کا کیا مقام ہے ؟ اگر یہ بات ذہن میں رہے تو حنفیہ کے مسلک پر بہت سے وہ اعتراضات خود بہ خود دور ہو جاتے جو بعض سطح بیں حضرات وارد کیا کر تے ہیں۔
یہاں اس سے زیادہ کے بیان کی گنجائش نہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ پر خوب خوب رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں تفقہ فی الدین سے نوازے۔ آمین
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here