ایصالِ ثواب یعنی خود کوئی نیکی کرکے اس کا ثواب کسی شخص کو بخشنا
ندیم احمد انصاری
قانونِ الٰہی کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے تمام بندوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس دنیا میں ان امور کی انجام دہی میں زندگی بسر کریں جن کے باعث روزِ قیامت نیکیوں کا پلڑا بھاری اور جنت کا پروانہ نصیب ہوسکے۔ ہر انسان کو اس بات کی حتی المقدور کوشش کرنی ناگزیر ہے، اس کے باوجود کسی کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے اعمال پر اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوکہ فلاں عمل میری نجات کے لیے کافی ہو جائے گا، اس لیے کہ ہمارا عمل اللہ کے یہاں قابلِ قبول ہے بھی یا نہیں، اس کا ہم میں سے کسی کو کوئی علم نہیں۔نیز اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہمت و توفیق کے موافق عمل کرکے جب انسان اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کے متعلقین کے لیے مستحب اور کارِ ثواب ہے کہ اپنے رشتے داروں و عزیزوں کے لیے حسبِ استطاعت ایصالِ ثواب اور دعاے مغفرت کا اہتمام کرتے رہیں۔ زندوں کا مُردوں کے حق میں دعاےخیر اور ایصالِ ثواب کرنا خود ان کے حق میں بھی ثواب کا باعث اور مُردوں کے حق میں مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتا ہے۔کما فی الھندیۃ:یستحب عند زیادۃ القبور قراء ۃ سورۃ الإخلاص سبع مرات؛ فإنہ بلغني من قرأہا سبع مرات إن کان ذٰلک المیت غیر مغفور لہ یغفر لہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ:5/350)البتہ یہ صورت وقتی طور پر ثواب کے انتظام کی ہے، اس لیے متوفی کو حسبِ استطاعت دائمی ثواب پہنچانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کی طرف سے کوئی ایسا نیک کام کیاجائے کہ جس سے لوگ مسلسل فایدہ اٹھاتے رہیں،مثلاً کسی نیک کام کے لیے زمین وقف کردی جائے وغیرہ وغیرہ۔عن ابن عباس رضي اللہ عنہما أن سعد بن عبادۃ أخا بني ساعدۃ توفیت أمہ وہو غائب عنہا فأتی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ! إن أمي توفیت وأنا غائب عنہا، فہل ینفعہا شيء إن تصدقت بہ عنہا، قال نعم! قال: فإني أشہدک أن حائطي المخراف صدقۃ علیہا۔ (بخاري:2762)وعن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ، إلا من ثلاثۃ: إلا من صدقۃ جاریۃ، أو علم ینتفع بہ، أو ولد صالح یدعو لہ۔ (مسلم:2/41)یہ بھی واضح رہے کہ ایصالِ ثواب کے لیے یہ شرط نہیں کہ جسے ایصالِ ثواب کیا جا رہا ہے، وہ وفات پا چکا ہو، بلکہ زندوں کو بھی ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے۔وفی البحر من صام او صلی او تصدق وجعل ثوابھہ لغیرہ من الاموات والاحیاء جاز و یصل ثوابھا الیھم عند اھل السنۃ کذا فی البدائع ، ثم قال وبھذا علم انہ لا فرق بین ان یکون المجعول لہ میتا او حیا والظاھر انہ لا فرق بین ان ینوی بھہ عند الفعل لغیرہ او یفعل لنفسہ ثم بعد ذالک یجعل ثوابہ لغیرہ لاطلاق کلام ھم قانہ لا فرق بین الفرق اھ۔(شامی:1/605)
معلوم ہوا کہ لسانی و جسمانی عبادات میں سے ہر شخص اپنے گھر میں انفرادی طور پر جو نیک عمل اپنے لیے کرتا ہے؛ نفل نماز پڑھتا ہے، نفل روزے رکھتا ہے، تسبیحات پڑھتا ہے، تلاوت کرتا ہے، نفل حج یا عمرہ کرتا ہے، طواف کرتا ہے، اس میں صرف یہ نیت کر لے کہ اس کا ثواب ہمارے فلاں عزیز یا دوست کو پہنچے، وہ پہنچ جائے گا اور بس یہی ایصالِ ثواب ہے، وہ ثواب جو آپ کو ملنا تھا آپ کو بھی بھی ملے گا اور جن دوسرے لوگوں کی نیت کی ہے، ان سب کو بھی پورا ثواب ملے گا۔(احسن الفتاویٰ:8/169)
ایصالِ ثواب کا جواز
جو لوگ ایصالِ ثواب کے قائل نہیں،ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میںہے:وأن لیس للانسان الا ما سعیٰ۔اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے، جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے۔(النجم:39)جب کہ اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیرمیںعلامہ رازیؒ کا کہنا ہے:والجواب منہ ان الإنسان لم یسع فی أن یکون لہ صدقۃ القریب بالإیمان لا یکون لہ صدقۃ فلیس لہ إلا ما سعی۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انسان خودایمان لاکر یہ کوشش نہ کرے کہ اس کے اہلِ قرابت کا صدقہ اس کے کام آئے، تو ان کا یہ صدقہ اس کے کام ہرگز نہ آئے گا،اس لیے کہ انسان کو وہی ملے گا ،جس کی وہ (ایمان لاکر)کوشش کرے،نیز ’تفسیر ابو سعید‘ میں ہے:واما شفاعۃ الانبیاء علیہم السلام، واستغفار الملائکۃعلیہم السلام، ودعاء الاحیاء للاموات وصدقتہم عنہم وغیر ذلک مما یکاد یحصیٰ من الأمور النافعۃ للإنسان مع انہا لیست من عملہ قطعاً فحیث کان مناط منفعۃ کل منہا عملہ الذی ہو الإیما ن والصلاح ولم یکن شییء منہانفع ما بد ونہ۔بہ ہر حال !انبیاء علیہم السلام کی شفاعت ،ملائکہ علیہم السلام کا استغفار اور زندوں کی دعااور صدقہ، میت کے لیےاور اس کے علاوہ دیگر بہت سے امورِنافعہ جن کا شمار ممکن نہیں،ان سب میں میت کا عمل دخل نہیں ہے،لیکن امورِ مذکورہ کے نافع ثابت ہونے کا مدارایمان اور اس کی اصلاح پر ہے،اگر یہ چیزیں(ایمان اور اس کی درستگی) ہی نہ ہو تو کسی کی کوئی چیز(تو کجا خود اپنا نیک عمل بھی)کوئی نفع نہیں دے گا۔(تفسیر کبیر:7/768)
معتزلہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ایک کے عمل کا ثواب دوسرے کو پہچانے سے بھی نہیں پہنچ سکتا اور ایصالِ ثواب کا انکار کرتے ہیں، جواب اس کا یہ ہے کہ للانسان میں لام نفع کا ہے اور نفع دو قسم کا ہے ایک ثواب، دوسرا وہ خاصیت جو عامل کے اندر اس سے پیدا ہوتی ہے، پس یہاں دوسری قسم کا نفع مراد ہے نہ کہ اول قسم بہ وجہ دوسری نصوص۔(اشرف التفاسیر:4/103) نیز آیت کی یہ تشریح بھی دل چسپ ہے کہ انسان کو صرف اپنے عمل کے ثواب کا حق پہنچتا ہے، کسی اور کے عمل کا ثواب لینے کا حق نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کو اس کے استحقاق کے بغیر کسی اور عمل کا ثواب عطا فرمادیں تو یہ ان کی رحمت ہے جس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، چناںچہ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کو ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے، اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے وہ ثواب مُردے کو پہنچاتے ہیں، کیوں کہ عام طور سے کوئی شخص دوسرے کو اسی وقت ایصالِ ثواب کرتا ہے جب اس نے اس کے ساتھ کوئی نیکی کی ہو یا اور نیک اعمال کیے ہوں۔ (توضیح القرآن:1633)
اہلسنت والجماعت کا موقف
اکثر علماے اہلِ سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ آدمی اپنی نفلی عبادتوں؛ خواہ وہ مالی ہوں یا بدنی،یا دونوں سے مرکب،ان کا ثواب دوسرے زندہ یا مردہ لوگوں کو بخش سکتا ہے، اس میں شرعاً کوئی رکاوٹ نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی نفل نمازیں، روزے یا حج وعمرہ یا قرآنِ پاک کی تلاوت وغیرہ کا ثواب اپنے مرحوم یا زندہ متعلقین کو پہنچانا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بس شرط یہ ہے کہ یہ اعمال نفلی ہوں اور ان پر دنیا میں کوئی اجرت نہ لی گئی ہو۔ (دیکھیے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ:24/366،بدائع الصنائع:2/454وغیرہ)حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما سے یہ بات منقول ہے کہ تلاوت وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچتا، لیکن فقہِ شافعی کی کتابوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ اگر ان عبادات کو انجام دے کر آدمی یہ دعا کرلے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ثواب فلاں کو پہنچادے، تو اس اعتبار سے انجام کار اس کا ثواب دوسرے کو پہنچ جائے گا اوراختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔(حاشیۃ البحر العمیق:4/2241-2242) اس لیے بعض حضرات کا میت کو نفسِ ایصالِ ثواب پر شدت سے نکیر کرنا صحیح نہیں ہے۔(ماخوذ از کتاب النوازل: 6/264-266ملخصاً)
ایصالِ ثواب کا طریقہ
ایصالِ ثواب اسی طرح کریں جس طرح سلفِ صالحین کرتے تھے، بلا تقیید و تخصیص اپنی ہمت کے موافق حلال مال سے مساکین کی خفیہ مدد کریںاور جو کچھ توفیق ہو بہ طور خود قرآن وغیرہ (جتنا ہو سکے پڑھ کر یا) ختم کرکے اس کو پہنچا دیں یا قبرستان میں قبلِ دفن جو فضول خرافات میں وقت گذار دیتے ہیں، اس وقت کچھ کلامِ الٰہی ہی پڑھتے رہا کریں بلکہ یہ وقت مُردہ کی مدد کرنے کے لیے زیادہ مناسب ہے، اس لیے کہ انسان کی سانسیں رکتے ہی اس کی اُخروی زندگی کے معاملات جاری ہو جاتے ہیں۔حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے حضرت سعد بن معاذ کو دفن کرکے کچھ تسبیح وغیرہ پڑھیں، جس سے ان کو ضیقِ قبر سے نجات ہوئی۔ غرض ایصالِ ثواب سے کوئی منع نہیں کرتا البتہ منکرات و مکروہات سے منع کرتے ہیں، جن سے ثواب بھی نصیب نہیں ہوتا اور مال بھی برباد ہوتا ہے۔ (اصلاح الرسوم: 141 بتصرف،احسن الفتاویٰ:8/169)زیادہ نہ ہو سکے تو تین مرتبہ قل ہو اللہ ہی پڑھ کر بخش دیں، جس سے ایک قرآن کا ثواب مل جائے گا، یہ اس سے بھی اچھا ہے کہ اجتماعی صورت میں دس قرآن ختم کیے جائیں،اللہ کے یہاں تھوڑے بہت کو نہیں دیکھا جاتا، خلوص اور نیت دیکھی جاتی ہے، چناں چہ حضور اقدسﷺ فرماتے ہیں کہ میرا ایک صحابی ایک مد کھجور خیرات کرے اور غیر صحابی اُحد پہاڑ کے برابر سونا، تو یہ اس درجے کو نہیں پہنچ پاتا، یہ فرق خلوص اورعدمِ خلوص کا ہےکیوں کہ جو خلوص ایک صحابی کا ہوگا وہ غیر صحابی کا نہیں ہو سکتا۔(فتاویٰ رحیمیہ:1/463 صالح)خلاصہ یہ کہ ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے، نہ اس میں کسی دن کی قید ہے نہ کسی خاص ذکر کی پابندی ہے اور نہ قرآنِ کریم کو ختم کرنا ضروری ہے، بلکہ بلا تعیین جو نفلی عبادت بدنی ومالی بہ سہولت ہوسکے، اس کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ (مستفاد از فتاویٰ محمودیہ: 3/87کراچی)
ایصالِ ثواب کے درجات
ایصالِ ثواب کی مختلف صورتوںکے متعلق یہ تفصیل پیشِ نظر رہے:
(۱) سب سے افضل اور بہتر صورت تو یہ ہے کہ مستحقین کو نقد تقسیم کر دیا جائے، کیوں کہ نہ معلوم انھیں کیا ضرورت ہے(۲) دوسرا درجہ یہ ہے کہ خشک جنس دی جائے کہ جب جی چاہے گا پکا کر خود کھا لے گا(۳) تیسرے درجے کی صورت یہ ہے کہ پکا کر خود کھلایا جائے اور اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ روزانہ ایک دو خوراک پکا کر مستحقین کو کھلایا جائے، ایک دم پکانے میں مستحق اور غیر مستحق سب جمع ہو جاتے ہیں بلکہ زیادہ برادری ہی کھاتی ہے، جیسا کہ رسم ہے( اس میں دکھاوا تو خوب ہو جاتا ہے، لیکن ثواب کچھ نہیں ملتا)۔ قرآن شریف میں ایصالِ ثواب کے لیے احبابِ خاص سے کہہ دیا جائے کہ اپنے اپنے مقام پر حسبِ توفیق پڑھ کر ثواب پہنچا دیں۔ اجتماعی صورت اس میں بھی مناسب نہیں،کیوں کہ اس میں اکثراہلِ میت کو جتلانا ہوتا ہے، خلوص نہیں ہوتا۔ (جواہر الفقہ:3/287)
غیر مسلم کو ایصالِ ثواب
کافر کے لیے ایصال ثواب و دعاے مغفرت مفید اور جائز نہیں۔(کفایت المفتی: 9/326) اس مسئلے کو اس طرح سمجھیں کہ آخرت میں ثواب پانے کے لیے ایمان کے ذریعے کھاتہ کھلوانا ضروری ہے، جب کسی نے وہ کھاتہ ہی نہیں کھلوایا تو آپ اسے اپنی نیکیوں کے بینک سےثواب بھی ٹرانسفر نہیں کر سکتے۔
ایصالِ ثواب کی نذر ماننا
بعض لوگ ایصالِ ثواب کی نذر مان لیتے ہیں، لیکن ایصالِ ثواب کی نذر منعقد نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کی جنس سے کوئی واجب نہیں اور یہ قاعدۂ کلیہ ہے کہ ما لیس من جنسہ واجب لاینعقد النذر بہٖ۔ اور گو تصدق کی جنس سے واجب ہے، مگر یہاں اصل مقصود ایصالِ ثواب بہ روحِ میت ہے، تصدق کی نذر تبعًا ہے اور نذرِ صحیح میں بھی صحتِ نذر کی تعیینِ مکان وزمان وتعیینِ فقیر لازم نہیں بلکہ اس میں تغییر کا اختیار رہتا ہے۔(امدادالاحکام:3/30)
[email protected]