Islam me aur usse qabl Taddud-e-azwaaj ka nizaam, Mufti Muhammad Shafi Usmani, Al Falah Islamic Foundation, India

اسلام میں اور اس سے قبل تعددِ ازواج کا نظام

مفتی محمد شفیع عثمانی

)پیش کش الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا(

ارشادِ ربانی ہے:

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ، ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۔

اور اگر تمھیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند آئیں، دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے، ہاں ! اگر تمھیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمھاری ملکیت میں ہیں۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بےانصافی میں مبتلا نہیں ہوںگے۔

تعددِ ازواج اسلام سے قبل

  ایک مرد کے لیے متعدد بیبیاں رکھنا اسلام سے پہلے بھی تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا۔ عرب، ہندوستان، ایران، مصر، بابل وغیرہ ممالک کی ہر قوم میں کثرتِ ازواج کی رسم جاری تھی اور اس کی فطری ضرورتوں سے آج بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دورِ حاضر میں یورپ نے اپنے متقدمین کے خلاف تعددِ ازواج کو ناجائز کرنے کی کوشش کی، تو اس کا نتیجہ بےنکاحی داشتاؤں کی صورت میں برآمد ہوا، بالآخر فطری قانون غالب آیا اور اب وہاں کے اہلِ بصیرت حُکما خود اس کو رواج دینے کے حق میں ہیں۔ مسٹر ڈیون پورٹ جو ایک مشہور عیسائی فاضل ہے، تعددِ ازواج کی حمایت میں انجیل کی بہت سی آیتیں نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :’ ان آیتوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ تعددِ ازواج صرف پسندیدہ ہی نہیں، بلکہ خدا نے اس میں خاص برکت دی ہے۔ ‘اسی طرح پادری نکسن اور جان ملٹن اور اپزک ٹیلر نے پُرزور الفاظ میں اس کی تائید کی ہے۔اسی طرح ویدک تعلیم غیر محدود تعددِ ازدواج کو جائز رکھتی ہے اور اس سے دس دس، تیرہ تیرہ، ستائیس ستائیس بیویوں کو ایک وقت میں جمع رکھنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔کرشن جو ہندوؤں میں واجب التعظیم اوتار مانے جاتے ہیں، ان کی سیکڑوں بیبیاں تھیں۔

تعددِ ازواج کے فوائد

جو مذہب اور قانونِ عفت و عصمت کو قائم رکھنا چاہتا ہو اور زنا کاری کا انسداد ضروری جانتا ہو، اس کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ تعددِ ازواج کی اجازت دے۔ اس میں زنا کاری کا بھی انسداد ہے اور مَردوں کی بہ نسبت عورتوں کی جو کثرت بہت سے علاقوں میں پائی جاتی ہے، اس کا بھی علاج ہے۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جائے تو داشتہ اور پیشہ ور کسبی عورتوں کی افراط ہوگی، یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں تعددِ ازواج کی اجازت نہیں، ان میں زنا کی کثرت ہے۔ یوروپین اقوام کو دیکھ لیجیے ان کے یہاں تعددِ ازواج پر تو پابندی ہے، مگر بہ طور دوستانہ جتنی بھی عورتوں سے مرد زنا کرتا ہے، اس کی پوری اجازت ہے، کیا تماشہ ہے کہ نکاح ممنوع اور زنا جائز!

قبلِ اسلام عورتوں کی حالت

غرض اسلام سے پہلے کثرتِ ازواج کی رسم بغیر کسی تحدید کے رائج تھی۔ ممالک اور مذاہب کی تاریخ سے جہاں تک معلوم ہوتا ہے، کسی مذہب اور کسی قانون نے اس پر کوئی حد نہ لگائی تھی، نہ یہود و نصاریٰ نے، نہ ہندوؤں اور آریوں نے اور نہ پارسیوں نے۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں بھی یہ رسم بغیر تحدید کے جاری رہی، لیکن اس غیر محدود کثرتِ ازدواج کا نتیجہ یہ تھا کہ لوگ اول اول تو حرص میں بہت سے نکاح کرلیتے تھے، مگر پھر ان کے حقوق ادا نہ کرسکتے تھے اور یہ عورتیں ان کے نکاح میں ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزارتی تھیں۔پھر جو عورتیں ایک شخص کے نکاح میں ہوتیں، ان میں عدل و مساوات کا کہیں نام و نشان نہ تھا، جس سے وابستگی ہوئی اس کو نوازا گیا، جس سے رخ پھر گیا اس کے کسی حق کی پروا نہیں۔

اسلام کا عادلانہ نظام

اسلام نے تعدد ازدواج پر ضروری پابندی لگائی اور عدل و مساوات کا قانون جاری کیا ۔قرآن نے عام معاشرے کے اس ظلمِ عظیم کو روکا، تعدادِ ازواج پر پابندی لگائی اور چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا اور جو عورتیں ایک ہی وقت میں نکاح کے اندر ہیں، ان میں مساواتِ حقوق کا نہایت مؤکد حکم اور اس کی خلاف ورزی پر وعیدِ شدید سنائی۔ آیتِ مذکورہ میں ارشاد ہوا :فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مَثْنیٰ وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعْ یعنی جو حلال عورتیں تمھیں پسند ہوں، ان سے نکاح کرسکتے ہو، دو دو تین تین چار چار۔

تعدادِ ازواخ کی حدبندی

آیت میں ’ماطاب‘ کا لفظ آیا ہے۔ حسن بصری، ابن جبیر اور ابن مالک نے ’ماطاب‘ کی تفسیر ’ماحل‘ سے فرمائی ہے، یعنی جو عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔اور بعض حضرات نے ’ماطاب‘ کے لفظی معنی کے اعتبار سے ’پسندیدہ ‘ کا ترجمہ کیا ہے، مگر ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ مراد ہوسکتا ہے کہ جو عورتیں طبعی طور پر تمھیں پسند ہوں اور تمھارے لیے شرعاً حلال بھی ہوں۔ اس آیت میں ایک طرف تو اس کی اجازت دی گئی کہ ایک سے زائد دو ، تین، چار عورتیں نکاح میں جمع کرسکتے ہیں، دوسری طرف چار کے عدد تک پہنچا کر یہ پابندی بھی عائد کردی کہ چار سے زائد عورتیں بہ یک وقت نکاح میں جمع نہیں کی جا سکتیں۔

تعاملِ نبی و صحابہؓ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان نے اس قرآنی تخصیص اور پابندی کو اور زیادہ واضح کردیا۔ اس آیت کے نزول کے بعد ایک شخص ’غیلان بن اسلمہ ثقفی‘ مسلمان ہوئے، اس وقت ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں اور وہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمِ قرآنی کے مطابق ان کو حکم دیا کہ ان دس میں سے چار کو منتخب کرلیں، باقی کو طلاق دے کر آزاد کردیں۔ غیلان بن اسلمہ ثقفی نے حکم کے مطابق چار عورتیں رکھ کر باقی سے علاحدگی اختیار کرلی۔ (مشکوۃ،ص:472) مسند احمد میں اسی روایت کے تکملے میں ایک اور واقعہ بھی مذکور ہے، اس کا ذکر کرنا بھی فایدے  سے خالی نہیں، کیوں کہ اس کا تعلق بھی نسوانی حقوق سے ہے، وہ یہ کہ غیلان بن اسلمہ نے حکمِ شرعی کے مطابق چار عورتیں رکھ لی تھیں، مگر فاروقِ اعظم کے زمانۂ خلافت میں انھوں نے ان کو بھی طلاق دے دی اور اپنا کل مال و سامان اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا۔ فاروقِ اعظمؓ کو اس کی اطلاع ملی تو ان کو حاضر کر کے فرمایا کہ تم نے ان عورتوں کو اپنی میراث سے محروم کرنے کے لیے یہ حرکت کی ہے، جو سراسر ظلم ہے، اس لیے فوراً ان کی طلاق سے رجعت کرو اور اپنا مال بیٹوں سے واپس لواور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھو کہ تمھیں سخت سزا دی جائے گی۔

قیس بن الحارث اسدیؓفرماتے ہیں کہ میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں، میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان میں سے چار رکھ لو باقی کو طلاق دے دو۔ (ابو داؤد، ص:403)اور مسند امام شافعی میں نوفل بن معاویہ دیلمی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں پانچ عورتیں تھیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی ایک عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ ’مشکوٰۃ شریف‘ (ص:472) میں بھی ’شرح السنتہ‘ سے نقل کیا ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرامؓکے اس تعامل سے آیتِ قرآنی کی مراد بالکل واضح ہوگئی کہ چار سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔

عدل و انصاف ناگذیر

چار بیویوں تک کی اجازت دے کر فرمایا: فَإنْ خِفْتُمْ اَلَّاتَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْمَامَلَکَتْ اَیْمَانَکُمْ یعنی اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی پر بس کرو، یا جو کنیز شرعی اصول کے مطابق تمھاری ملک ہو اس سے گذارہ کرلو۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی صورت میں جائز اور مناسب ہے جب کہ شریعت کے مطابق سب بیویوں میں برابری کرسکے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھ سکے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھی جائے۔ زمانۂ جاہلیت میں یہ ظلم عام تھا کہ ایک ایک شخص کئی کئی بیویاں رکھ لیتا تھا، جس کا ذکر چند احادیث کے حوالے سے اس آیت کے ضمن میں پہلے گزرا ہے، اور بیویوں کے حقوق میں مساوات اور عدل کا مطلق خیال نہ تھا، جس کی طرف زیادہ میلان ہوگیا اس کو ہر حیثیت سے نوازنے اور خوش رکھنے کی فکر میں لگ گئے اور دوسری بیویوں کے حقوق نظر انداز کر ڈالتے۔ قرآنِ کریم نے صاف صاف فرما دیا کہ اگر عدل نہ کرسکو تو ایک ہی بیوی رکھو یا کنیز سے گذارہ کرلو۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مملوک کنیز جس کا ذکر آیت میں ہے اس کی خاص شرائط ہیں، جو عموماً آج کل مفقود ہیں، اس لیے اس زمانے میں کسی کو مملوکِ شرعی کنیز کہہ کر بےنکاح رکھ لینا حرام ہے، اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔

ایک ہی بیوی پر اکتفا

حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآنِ کریم نے چار عورتوں تک نکاح میں رکھنے کی اجازت دے دی اور اس حد کے اندر جو نکاح کیے جائیں گے وہ صحیح اور جائز ہوں گے، لیکن متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں ان میں عدل و مساوات قائم رکھنا واجب ہے اور اس کے خلاف کرنا گناہ عظیم ہے۔ اس لیے جب ایک سے زائد نکاح کا ارادہ کرو تو پہلے اپنے حالات کا جائزہ لو کہ سب کے حقوق عدل و مساوات کے ساتھ پورا کرنے کی قدرت بھی ہے یا نہیں، اگر یہ احتمال غالب ہو کہ عدل و مساوات قائم نہ رکھ سکو گے تو ایک سے زائد نکاح پر اقدام کرنا اپنے آپ کو ایک عظیم گناہ میں مبتلا کرنے پر اقدام ہے، اس سے باز رہنا چاہیے اور اس حالت میں صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہیے۔

  چار سے زائد عورتوں سے کسی نے بیک وقت یعنی ایک ہی ایجاب و قبول میں نکاح کرلیا تو وہ نکاح سرے سے باطل ہے، کیوں کہ چار سے زائد نکاح کا کسی کو حق نہیں اور چار کے اندر جو نکاح کیے جائیں، وہ نکاح تو بہ ہر حال ہوجائیں گے، لیکن بیویوں میں عدل و مساوات قائم نہ رکھی تو سخت گناہ ہوگا اور جس کی حق تلفی ہو رہی ہو وہ قاضی کی عدالت میں دعویٰ کر کے اپنا حق وصول کرسکے گی۔

عدل و انصاف کی تاکید

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب بیویوں کے درمیان پوری مساوات و عدل کی سخت تاکید فرمائی ہے اور اس کے خلاف کرنے پر سخت وعیدیں سنائی ہیں اور خود اپنے عمل کے ذریعے بھی اس کو واضح فرمایا ہے، بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ان معاملات میں بھی مساوات فرماتے تھے جن میں مساوات لازم نہیں۔ایک حدیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے نکاح میں دو عورتیں ہوں اور وہ ان کے حقوق میں برابری اور انصاف نہ کرسکے تو وہ قیامت میں اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔ (مشکوۃ، ص:872)البتہ یہ مساوات ان امور میں ضروری ہے، جو انسان کے اختیار میں ہیں، مثلاً نفقے میں برابری، شب باشی میں برابری۔ رہا وہ امر جو انسان کے اختیار میں نہیں، مثلاً قلب کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہوجائے ،تو اس غیر اختیاری معاملے میں اس پر کوئی مواخذہ نہیں، بہ شرط یہ کہ اس میلان کا اثر اختیاری معاملات پر نہ پڑے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اختیاری معاملات میں پوری مساوات قائم فرمانے کے ساتھ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا :’ یا اللہ! یہ میری برابر والی تقسیم ہے، ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں، اب وہ چیز جو آپ کے قبضے میں ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے، اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کرنا۔ ‘

ظاہر ہے کہ جس کام پر ایک رسولِ معصوم بھی قادر نہیں، اس پر کوئی دوسرا کیسے قادر ہوسکتا ہے، اس لیے قرآنِ کریم کی دوسری آیت میں اس غیر اختیاری معاملے کا ذکر اس طرح فرمایا :’ عورتوں کے درمیان تم پوری برابری ہرگز نہ کرسکو گے۔ ‘جس میں بتلا دیا کہ میلانِ قلب اور محبت ایک غیر اختیاری معاملہ ہے، اس میں برابری کرنا انسان کے بس میں نہیں، لیکن آگے اس غیر اختیاری معاملے کی اصلاح کے لیے بھی ارشاد فرمایا :’ فَلَا تَمِیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ‘ یعنی اگر کسی ایک بیوی سے زیادہ محبت ہو تو اس میں تو تم معذور ہو، لیکن دوسری بیوی سے کُلّی بےاعتنائی اور بےتوجہی اس حالت میں بھی جائز نہیں۔ اس آیت کے جملے ’فَإنْ خِفْتُمْ اَلَّاتَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً‘ میں جس عدل و مساوات کا بیان ہے، یہ وہی امورِ اختیاریہ کا عدل ہے کہ اس میں بےاعتدالی گناہِ عظیم ہے اور جس شخص کو اس گناہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اس کو یہ ہدایت کی گئی کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرے۔

ایک شبہ اور اس کا جواب

مذکورہ بالا تفصیل و تشریح کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے بعض لوگ سورۂ نساء کی آیتِ مذکورہ اور اس آیت (129) کو ملانے سے ایک عجیب مغالطے میں مبتلا ہوگئے، وہ یہ کہ آیتِ سورۂ نساء میں تو یہ حکم دیا گیا کہ اگر عدل و مساوات قائم نہ رکھنے کا خطرہ ہو تو پھر ایک ہی نکاح پر بس کرو اور اس دوسری آیت میں قطعی طور پر یہ واضح کردیا کہ عدل و مساوات ہو ہی نہیں سکتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سے زائد نکاح مطلقاً جائز نہ رہے، لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ جل شانہ کا مقصود ان تمام آیات میں ایک سے زائد نکاح کو روکنا ہی ہوتا تو بھی اس تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ ’فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی وثلاث وربع‘ یعنی نکاح کرو جو پسند آئیں تم کو عورتیں دو دو تین تین چار چار۔ کیوںکہ اس صورت میں تو بےانصافی یقینی ہے، پھر خطرہ ہونے کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔

اس کے علاوہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓکا عملی اور قولی بیان اور مسلسل تعامل بھی اس پر شاہد ہے کہ ایک سے زائد نکاح کو کسی وقت اسلام میں نہیں روکا گیا، بات وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے کہ سورۂ نساء کی پہلی آیت میں امورِ اختیاریہ کے عدل و مساوات کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں محبت اور قلبی میلان میں عدمِ مساوات پر قدرت نہ ہونے کا بیان ہے، اس لیے دونوں آیتوں میں نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ان آیات میں مطلقاً تعددِ ازدواج کی ممانعت کی کوئی دلیل ہے۔

بیوی ایک ہو تو بھی عدل کرے

آیت کے ختم پر ارشاد فرمایا:’ ذٰلک ادنیٰ اَلا تعولُوْا‘۔ اس آیت میں دو کلمے ہیں؛ ایک کلمہ’ ادنیٰ‘ یہ لفظ ’دلو‘ سے مشتق ہے، جو قرب کے معنی میں ہے، اور دوسرا لفظ ’لاتعولوا‘ ہے۔ عال یعول، مال یمیل کے معنی میں ہے، جس کے معنی میلان کے ہیں اور یہاں ناجائز میلان اور ظلم و جور کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جو کچھ تم کو بتلایا گیا ہے (یعنی عدل نہ کرسکنے کی صورت میں ایک بیوی پر اکتفا کرنا یا باندی کے ساتھ گذارہ کرلینا) یہ ایسی چیز ہے کہ اس کو اختیار کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں تم ظلم کرنے سے بچ سکو گے اور زیادتی و تعدّی کے مواقع ختم ہو سکیں گے۔یہاں ایک شبہ یہ ہے کہ جب ایک بیوی ہوگی تو ظلم کا بالکل کوئی موقع نہ ہوگا، پھر لفظ ’ادنی‘ بڑھا کر یہ کیوں فرمایا کہ اس پر عمل پیرا ہونا اس بات کے قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو، بلکہ یہ فرمانا چاہیے کہ تم بالکل اس ظلم سے بچ جاؤ گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لفظ  ’ادنی‘ بڑھا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چوں کہ بہت سے لوگ ایک بیوی کو بھی ظلم و ستم کا تختہ بنائے رکھتے ہیں، اس لیے ظلم کا راستہ بند کرنے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرو، وہاں یہ ضرور ہے کہ اس صورت میں ظلم کا خطرہ کم ہوجائے گا اور تم عدل کے قریب پہنچ جاؤ گے اور ظلم وجور سے مکمل رہائی اس وقت ہوگی جب کہ ایک بیوی کے حقوق پورے ادا کیے جائیں، اس کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ ہے، اس کی خامیوں سے درگزر اور اس کی کجی پر صبر کیا جائے۔

(ماخوذ از معارف القرآن:2/281-296 بترمیم)

[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here