لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات، ندیم احمد انصاری
رمضان المبارک نیکیوںکا مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں پر روزہ، تراویح وغیرہ مختلف احکامات متوجہ ہوتے ہیں۔ اللہ کے نیک بندے اپنی استطاعت کے مطابق ان کی انجام دہی کی کوشش کرتے ہیںاور ان مبارک ایام کو اپنے رب کی خوشنودی میں گزارنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب بندے اپنی استطاعت بھر نیکی انجام دیتے ہیں تو ارحم الراحمین کو بھی ان پر رحم آتا ہے، اسی لیے وہ ربِ کریم یوں تو ہر افطار کر وقت لاکھوں مسلمانوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کرتا ہے اور خصوصیت سے رمضان المبارک کی آخری رات میں یہ بخشش و عطا عام ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیتیں عطا کی گئی ہیں،جو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں، من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہی۔رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا؛اے اللہ کے رسول !کیا یہ شبِ قدر ہی؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیںبلکہ یہ اس لیے ہے کہ کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہی۔(کشف الاستار)
ایک حدیث کے مطابق جب عید الفطرکی رات آتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:جو عیدین کی راتوں میں جاگ کر عبادت کا اہتمام کرے گا ،اس کا دل اس وقت بھی زندہ رہے گا،جس وقت سب کے دل مردہ ہو جائیں گی۔(ابن ماجہ)یعنی فتنہ و فساد کے وقت جب لوگوں کے قلوب پر مردنی چھاتی ہے، اس کا دل زندہ رہے گا اور ممکن ہے کہ صور پھونکے جانے کا دن مُراد ہو کہ اس کی روح بے ہوش نہ ہوگی۔اس رات میں حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کو انعام دیا جاتا ہے، اس لیے بندوں کو بھی اس رات کی بے حد قدر کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ عوام کا تو پوچھنا ہی کیا خواص بھی رمضان کے تھکے ماندے اس رات میں میٹھی نیند سوتے ہیں، حالاں کہ یہ رات بھی خصوصیت سے عبادت میں مشغول رہنے کی ہے۔ فقہاء نے بھی عیدین کی رات میں جاگ کر عبادت کرنا مستحب لکھا ہے، جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ پانچ راتیں دعا کی قبولیت کی ہیں؛ (۱)جمعے کی رات (۲)عیدین کی رات(۳) غرۂ رجب کی رات اور نصف شعبان کی رات۔(فضائل رمضان)
لیلۃ الجائزہ کی فضیلت و ترغیب میں وارد روایات پر محدثین کو کلام ہے، اس کے باوجود یہ تو قرآن سے ثابت ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ۔ ﴿(التوبہ:120﴾)یعنی اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی تو نوازنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ روزہ و تراویح کے ذریعے رمضان کورس مکمل کرکے آنے والوں کو ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہوگا اور ربِ کائنات انسان کی اس محنت سے راضی ہوتا ہوگا اور یہی عبدیت کا سب سے بڑا مقام ہے کہ رب راضی ہو جائے۔ اس لیے جو حضرات عید الفطر کی رات میں عبادتیں کرنا چاہیں، وہ ضرور اس موقع سے فایدہ اٹھائیں لیکن دو باتوں کا خاص طور سے لحاظ رکھیں۔اول یہ کہ اس رات کو عبادت کے نام سے گزارنے کے بہانے کسی بے ہودہ کام جیسے سڑکوں پر اودھم مچانا، یا گاڑیاں دوڑانا یا مسجدوں میں جمع ہو کر شور شرابا کرنے سے باز رہیں، دوسرے نوافل میں اس طرح مشغول نہ ہوں کہ نمازِ فجر اونگھتے ہوئے گزاریں۔ ازراہِ شوق اس رات کو نیکیوں میں گزارنے کا دل چاہے تو حسبِ استطاعت نیکیاں کریں اور پھر اللہ کا نام لے کر سو رہیں اور صبح کی نماز پوری بشاشت سے ادا کریں۔امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے کہ کتنی رات جاگ کر عبادت کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہوگی؟بعض کا خیال ہے کہ رات کا اکثر حصہ اور بعض تھوڑی دیر عبادت کر لینے سے بھی اس فضلیت کے حاصل ہو جانے کے قائل ہیں۔(الأذکار للنووی)
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کمیت کا نہیں بلکہ کیفیت کا سودا ہے، نیز اہلِ خانہ کی ضرورتوں کا بھی لحاظ رکھیں کہ ان کے آرام و سکون میں خلل واقع نہ ہو۔ نفلی عبادتوں میں ان تمام باتوں کا لحاظ رکھا جانا از بس ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہنم سے نجات کا پروانہ نصیب فرمائے اور بار بار ہماری زندگیوں میں رمضان المبارک لائے۔ آمین