ناچ اور گانے بجانے کو عام کرنا ایک گہری سازش
ندیم احمد انصاری
فی زمانہ ناچ اور گانے باجے کو ریلٹی شوز کے ذریعے اتنے بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ! تقریباً ہر بڑے شو میں ہزاروں لاکھوں بچّے و بچیاں اور مرد و خواتین آڈیشن کے لیے آتے ہیں، جس کے تشہیر ہر سڑک اور گلی کوچے میں کی جاتی ہے، پھر سفر کی صعوبتیں برداشت کر، رات رات بھر قطاروں میں کھڑے ہوکر، دن و رات ریاض کرکے معتد بہ تعداد شو میں آگے بڑھتی ہے، پھر ان میں سے تین چار لوگ فائنل میں آکر رخصت کر دیے جاتے ہیں اور بعض مقامات پر انھیں بھی کسی قدر انعامات سے نوازا جاتا ہے ، جب کہ اول مقام حاصل کرنے والوں کو پچاس پچاس لاکھ تک کے نہ صرف انعامات دیے جاتے ہیں بلکہ انڈسٹری میں ان کی اینٹری بھی تقریباً طے ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کیا ہندو اور کیا مسلمان، آج کل بہت سارے لوگ اسی طرح بڑا بننے کا خواب بُننے لگتے ہیں، ویسے بھی ان پروگراموں کی پیش کش بھی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ پیچھے رہ جانے والے ہزاروں لاکھوں پر تو کسی کی نظر بھی نہیں جاتی، جب کہ وہ بھی بہت کچھ سیکھ کر ہی آئے ہوتے ہیں، بس جیتنے والے کے پچاس لاکھ روپئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ان شو والوں کا بزنس ہے ، جس میں وہ کروڑوں بلکہ اربوں کماتے ہیں اور عوام اسے کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔یہ وسیع موضوع ایسا نہیں کہ چند پیراگرافس میں سمیٹا جا سکے ، یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ چند باتیں عرض کی جا رہی ہیں۔
حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق فتنوں کا ایک ایسا زمانہ بھی اس دنیا میں بسنے والوں کو دیکھنا ہے جس میں دین پر عمل کرنا ہاتھ پہ انگارہ رکھنے کی مانند ہوگا، خیال ہوتا ہے کہ وہ زمانہ آچکا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے وطن ہندوستان میں اس وقت کچھ ایسی فضا بنائی جا رہی ہے ، جس میں مذہبِ اسلام کے مسلّمات اور طے شدہ امور پر بے وجہ بحث و مباحثے کے دروازے کھولے جا رہے ہیں، اور آزادیِ اظہار و بیان کے نام پر خدائی دین میں رائے زنی کی جا رہی ہے،ایسے موقعوںپر اصحابِ علم و قلم کی ذمّے داری بنتی ہے کہ وہ پوری تن دہی سے احقاقِ حق اور ابطالِ باظل کی خدمت انجام دیں۔ ناچ، گانا اور باجا وغیرہ اسلام کی رو سے قطعاً ممنوع ہے ،جس میں کسی اہلِ علم کا اختلاف نہیں، اس کے باوجود گذشتہ دنوںکسی بچّی کے اس مشغلے کو بہ طور پیشہ اختیار کرنے پر علما کی طرف سے کی گئی اپیل یا تلقین کو میڈیا اور اسلام دشمن عناصر نے فتوے کے نام سے اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی کہ غلط فہمیوںکو فروغ ہو۔ بعد میںگو کچھ لوگوں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ انھوں نے قبل از تحقیق خبر کو غلط طریقے سے پیش کر دیا تھا، وہ ایک اپیل تھی فتویٰ نہیں، اس کے باوجود یہ شوشہ چھوڑنے سے پیچھے نہ ہٹے کہ کیا اسلام میں واقعی گانا بجانا حرام ہے اور یہ کہہ کر کہ’اگر ایسا ہے تو ہم اس سے اتفاق نہیں رکھتے‘، اسلام کے ایک مسلّمہ امر میں رائے زنی کرکے لوگوں کو میں وسوسہ ڈالنے کی اپنی سی کوشش کی،جب کہ قرآن و احادیث اور فقہ‘ جو کہ شریعتِ اسلامی کے مآخذ ہیں، ان میں ان امور کی حرمت صراحت کے ساتھ مذکور ہے ۔گانا بجانا پوری امتِ مسلمہ کے نزدیک حرام ہے اور جن لوگوں نے سماع وغیرہ کے نام سے گنجائش نکالنے کی سعی کی ہے ، وہ بھی تاویلوں کا سہارا لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ۔ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ۔ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ۔ (ترجمہ)تو کیا تم اسی بات پر حیرت کرتے ہو ؟اور(اس کا مذاق بنا کر) ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو، جب کہ تم تکبر کے ساتھ کھیل کود میں پڑے ہوئے ہو؟ (النجم: 59-61) سمود کے معنی غفلت اور بے فکری کے ہیں، سامدون بہ معنی غافلون ہے اور ایک معنی سمود کے گانے کے بھی آتے ہیں، وہ بھی اس جگہ مراد ہوسکتے ہیں۔ (معارف القرآن: 8/222) اگر سامدون کے دوسرے معنی مراد لیے جائیں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ کفارِ مکہ قرآن کی آواز کو دبانے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کردیتے تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل ہی ارشاد فرما دیا تھاکہ ’میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا ، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر چلے جائیں گے ، چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا۔ (بخاری:5590) یہ تمام چیزیں آج ہر طرف دیکھی جا سکتی ہیں، آج بھی لوگ گانے باجے میں لگ کر یا لگا کر لوگوں کو قرآن سے غافل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ یہ باور کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں،دراصل یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے ، جسے بہت کم ذہن سمجھ سکے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کا دماغ برقی لہروں( electrical waves)پر فنکشن کرتا ہے ، اس پر جو سگنل (signal)جاتے ہیں وہ الیکٹرکل سگنل ہوتے ہیں، جو انسان کے جسم میں چارج ہوتے ہیں، اس لیے اگر ریڈیو چل رہا ہو اور آپ اس کے اینٹینے کو پکڑ لیں تو اس کی آواز بہتر ہو جاتی ہے ، کیوں کہ آپ اس کے ویوس(waves)کو رِسیو(recieve)کرکے اسے دینے لگتے ہیں، اسی کے پیشِ نظر میوزک پر ریسرچ کی گئی کہ وہ پہلے تو محض ایک آواز ہوتی ہے ، مگر انسان کے جسم میں پہنچ کر الیکٹرکل ویو( electrical wave)بن جاتی ہے ، جسے ویو لیٹ اینالیسس(wavelet analysis)کہتے ہیں کہ کون سی ویو لیٹ انسان کے دماغ پر زیادہ اثر کرتی ہے ، چناں چہ ایسی ویو لیٹ ایجاد کی گئیں جسے سن کر آدمی تِھرکنا بھی شروع کر دیتا ہے ، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دماغ تک پہنچ گئے ۔ پھر اس پر محنت کرتے کرتے ایک سسٹم ایجاد کیا، جس کا نام ہے بیک ٹریک سسٹم(Back Track System)(Back‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ میوزک تو ویو بار(wave bar) میں ہوتی ہے ، اس کے اوپر اپنا ایک میسج بٹھا دیتے ہیں، جیسے کسی انسان کے کندھے پر مکھی بیٹھ جائے اور جہاں انسان داخل ہو، وہ بھی ساتھ ہی میں داخل ہو جائے ، بالکل اسی طرح انسان میوزک تو سنتا محض ری فریش (refresh)ہونے کے لیے ، مگر اس کے ساتھ وہ پیغام بھی اس کے دماغ تک پہنچتا ہے اور اثر دکھاتا ہے ، چناں چہ اس کا تجربہ شروع میں اس طرح کیا گیا کہ ایک گانا بنوایااور ایک ایسے گویّے کے ذریعے سے کہ جس کی آواز لوگ پسند کرتے تھے گوایا گیا، اس طرح لوگ اسے بار بار سنتے ، پھر اس گانے پر انھوں نے اپنا پیغام بھیجا کِل یور مام(kill your mom)، پھر انھوں نے اینالیسس (analysis)کیا کہ جتنے نوجوانوں کو وہ گانا پسند تھا، وہ اسے سنا کرتے تھے ، ان کے اندر اپنی امّی کے بارے میں ایسا غصہ پیدا ہو جاتا تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ اسے قتل کر ڈالیں۔ جب ان سائنس دانوں کو اس کا بھی کامیاب تجربہ ہو گیا، تو اس طرح کے بار بار تجربے کیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی کی مرضی کے بغیر اس کے دماغ تک پہنچ سکیں، جو سائنس کی دنیا میں بڑی کامیابی تھی۔ اس طرح انھیں ایک ٹول(tool) ہاتھ آگیا کہ کسی بھی انسان کے دماغ میں میوزک کے ذریعے اپنا پیغام بھیج سکتے ہیں، یہاں سے ایک نئے دور نے جنم لیا، جسے کہتے ہیں کلچر تھرو میڈیا(culture through media)، یہ انسان کی زندگی کا ایک نیا باب ہے ، جس کے ذریعے اپنے کلچر کو لوگوں کے دماغ میں بٹھا دیا جاتا ہے ، چناں چہ پہلے میوزک حرام تھی اس لیے کہ اس میں فقط ٹون(tone) ہوتی تھی اور آج کل تو میوزک اس لیے حرام در حرام در حرام ہے کہ اس میں انسان کا ایمان ضایع ہونے کا خطرہ ہے ۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کو میوزک سے دل چسپی ہے ، آپ لاکھ اسے سمجھائیں، جتنی چاہیں نیک باتیں سنانے کی کوشش کریں، وہ اسے سننا پسند نہیں، کیوں کہ میوزک کے ذریعے نیکی کے خلاف اس کے دماغ میں اتنا کچھ بھر دیا گیا ہے، جو اسے نیکی کے قریب آنے نہیں دیتا۔(مستفاد از خطباتِ ذوالفقار:19/218-227)
یہ سب تحقیقیں تو بعد میں آنے والے انسانوں کی ہیں، لیکن پیغمبرِ خدا نے مسلمانوں کو اپنے زمانے ہی میں ان سب سے آگاہ کر دیا تھا، تاکہ کوئی انسان کسی انسان کے ذہن کو ہیک (Hack)کرکے انھیں اپنا غلام بنانے کی غلط کوشش نہ کر سکے، کاش مسلمان سمجھیں اور اس لعنت سے توبہ کریں اور اپنی اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کریں۔
https://afif.in/