قرآن مجید کو کھانے کمانے کا ذریعہ نہ بناؤ، ندیم احمد انصاری (اسلامی اسکالر و صحافی)
قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے، جس کے فضائل اور اہمیت بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ اس موقع پر ہمیں اس عظیم الشان کتاب کے فضائل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ اس کی جو ناقدری ایک خاص لائن سے عام ہوتی جا رہی ہے اس پر توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہے:ولا تشتروا باٰیتی ثمناً قلیلاً۔(مفہوم) اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا۔(البقرہ:41)
اس سے بعض کج فہموں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ مذکورہ آیت میں تھوڑی قیمت لینے کو منع کیا گیا ہے لیکن اگر زیادہ یا منہ مانگی قیمت ملے تو حق یعنی قرآن مجید کا سودا کیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں دنیا کے تمام خزانے،نہایت قلیل اور بہت تھوڑے ہیں، ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں، اس لیے ہمیں حق پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ اس مسئلے سے متعلق متعدد احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔ مشتِ از خروارے:
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرتے ہوئے سنا:’’جو شخص قرآن مجید پڑھے، اسے قرآن کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے ہی سوال کرنا چاہیے، عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور س کے ذریعے لوگوں سے سوال کریں گے‘‘۔(ترمذی:2917)’مسند احمد‘ میں ایک روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ قرآن پڑھو اور اس میں غلو نہ کرو اور اس سے اعراض نہ کرو، اسے کھانے کمانے کاذریعہ نہ بناؤ اور نہ ہی اس سے بہت سے دنیوی فوائد حاصل کرو‘‘۔(مسند احمدابن حنبل: 5/444)’مشکوٰۃ‘ میں حضرت بریدہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص قرآن مجید اس لیے پڑھے کہ اس کے ذریعے لوگوں سے کھائے، وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر صرف ہڈی ہوگی، گوشت نہیں ہوگا‘‘۔( مشکوٰۃ المصابیح: 2217)
یہ چند احادیث کا ذکر ہوا، اب ان کی تشریح کرنے والے علماے کرام میں سے ایک مشہور عالم شارحِ مشکوٰۃ علامہ نواب قطب دہلویؒ کا کلام ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:’’ان احادیث میں ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ اور وعید ہے جو قرآن کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یوں تو یہ بات بطور خود انسانی شرف کے خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک انسان کے سامنے دستِ سوال دراز کرے اور اسے حاجت روا قرار دے، چہ جاے کہ اس قبیح فعل کے لیے قرآنِ کریم کو ذریعہ بنایا جائے۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ قرآنِ کریم پڑھ کر صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے دستِ سوال دراز کرو، اپنے اخروی اور دنیوی امور میں جو چاہے اس سے مانگو، لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ، کیوں کہ وہ خود اسی ذات کے محتاج ہیں، وہ تمھاری کیا حاجت پوری کریں گے۔(مظاہر حق جدید:3/72)
ممکن ہے مذکورہ بالا تفصیل سے معلمین و مدرسین کی تنخواہ پر بھی کسی کو شبہ ہونے لگے، تو اس کے ازالے کے لیے عرض ہے کہ خلفاے راشدین نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں معلمینِ قرآن کے لیے وظائف اور تنخواہیں مقرر فرما کر اس مسئلے کو بے غبار کر دیا ہے۔(دیکھیے کتاب الخراج لابی یوسف: ۷۸۱) اور خلفاے راشدین کا یہ فعل ہمارے لیے حجت ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:تم میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابوداؤد:4607)اسی لیے ائمہ ثلاثہ امام احمد بن حنبل ،امام مالک، امام شافعی رحمہم اللہ اور متاخرین فقہاے احناف کے نزدیک یہ اجرت بلاشبہ جائز ہے۔ (شرح مسلم للنووی:2/224)
اردو کی مشہور تفسیر ’معارف القرآن‘ میں ہے:’’تعلیمِ قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین نے جائز قرار دیا ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے پورے دین کا نظام مختل ہو جاتا ہے، اس لیے اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے مُردوں کو ایصالِ ثواب کے لیے ختمِ قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ، حرام ہے کیوں کہ اس پر کسی دینی ضرورت کا مدار نہیں اور اجرت لے کے پڑھنا حرام ہوا تو اس طرح پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں گنہگار ہوئے، اور جب پڑھنے والے کو کوئی ثواب نہ ملا تو میت کو کیا پہنچے گا؟ایصالِ ثواب کے لیے قبر پر قرآن پڑھوانا، اجرت دے کر ختم کرانا صحابہؓ و تابعینؒ اور اسلافِ امت سے کہیں منقول نہیں، اس لیے بدعت ہے۔(معارف القرآن: 1/208)
اسی طرح تراویح میں ختمِ قرآن پر بھی برصغیر کے جمہور علماء کا عدمِ جواز پر اتفاق ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے اہتمام سے اس مسئلے پر مستقل فتویٰ ’معاوضہ علی التراویح کی شرعی حیثیت‘ کے نام سے اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کر رکھا ہے، جسے www.afif.inپر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔نیز اس مسئلے میں علماے دیوبند اکیلے نہیں بلکہ بریلوی علماء بھی اس پر متفق ہیں،اس طرح یہ کسی خاص مکتبِ فکر کا مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ بریلوی مکتبِ فکر کے مشہور عالم مولانا مفتی امجد علی قادری صاحب لکھتے ہیں کہ آج کل اکثر رواج ہو گیا ہے کہ حافظِ قرآن کو اجرت دے کر تراویح پرھواتے ہیں، یہ ناجائز ہے،دینے والا اور لینے ولا دونوں گنہگار ہیں۔اجرت صرف یہی نہیں کہ پیش ترمقرر کر لیں کہ یہ لیں گے یہ دیں گے بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگر چہ اس سے طے نہ ہو ا، یہ بھی نا جائز ہے کیوں کہ المعروف کا المشروط [معروف مشروط کے حکم میں ہے]۔ ہاں اگر کہہ دیں کہ کچھ نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا پھر پڑھے اور حافظ صاحب کی خدمت کریں تو اس میں حرج نہیں ہے۔( بہارِ شریعت: 4/35 )نیز اہلِ حدیث علماء کا بھی یہی موقف ہے، جیسا کہ مزید شدت کے ساتھ مولانا عبد اللہ امرتسری صاحب رقم طراز ہیں کہ ’’اجرت پر قرآن مجیدتراویح میں سننا یا اجرت پر قرآن مجید سنانا ،بالکل جائز نہیں بلکہ ایسے شخص کے پیچھے تراویح ہی نہیں ہوتی۔‘‘(فتاویٰ اہلِ حدیث:1/643)
اس قدر واضح تصریحات کے باوجود بعض لوگ یہ حیلہ کیا کرتے ہیں کہ تراویح میں قرآن سنانے والے کو کسی فرض نماز کا امام بنا دیا جائے تو اس کی اجرت دینا درست ہو جاتا ہے، جب کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ جواز کا فتویٰ اس وقت ہے جب امامت ہی مقصود ہو، حالاں کہ یہاں مقصود ختمِ تراویح [یعنی تراویح میں ختمِ قرآن]ہے اور یہ محض حیلہ دیانات میں ہے،جو کہ معاملہ بین العبد وبین اللہ ہے، حیل مفیدِ جواز واقعی کو نہیں ہوتے، لہٰذا یہ ناجائز ہوگا۔ (امداد الفتاویٰ:1/485)یعنی نفسِ تراویح میں امامت پر اجرت کے سبب ختمِ قرآن پر بھی حلت آجاے گی، ایسا نہیں ہے بلکہ ختم قرآن پر اجرت بہ ہرحال حرام ہی رہے گی۔دوسرے مقام پر موصوف رقم طراز ہیں کہ ’’بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اجرت لے کر قرآن مجید سناتے ہیں، جب کہ طاعت پر اجرت لینا حرام ہے،اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے نہیں ٹھہرایا، لیکن نیت تو دونوں کی یہی ہے اور نیت بھی خطرہ و خیال میں نہیں، بلکہ مرتبۂ عزم میں۔ اگر کسی طور سے معلوم ہو جائے کہ یہاں کچھ وصول نہ ہوگا تو ہر گز ہرگز وہاں پڑھیں نہیں الخ۔‘‘(دیکھیے اصلاح الرسوم:145-148)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تراویح میں اگر پہلے سے اجرت متعین نہ کی جائے تو پھر دینے میں کوئی حرج نہیں، مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری وغیرہ نے بھی وضاحت کی ہے کہ ’’اجرت دے کر قرآن سننا شرعاً جائز نہیں ،لینے والا دینے والا دونوں گنہگار ہیں اور اگر بغیر تعینِ اجرت سنایا جائے اور ختم قرآن کے بعد بطور تبرع دیا جائے تو اصح قول کی بنا پر یہ صورت بھی نا جائز ہے ‘‘۔ ( فتاویٰ مطاہر علوم:1/48) نیز دارالعلوم دیوبند کے مفتیِ اول مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی فر ماتے ہیں کہ’’ اجرت پر قرآن شریف پڑھنا درست نہیں ہے اور اس میں ثواب نہیں ہے اور بہ حکم’ المعروف کا لمشروط‘ جن کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور نا جائز ہے۔اس حالت میں صرف تراویح پڑھنا، اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف تراویح ادا کر لینے سے قیامِ رمضان کی فضیلت حاصل ہو جاے گی۔ (فتاویٰ دارا لعلوم:4/246) اور دارالعلوم دیوبند ہی کے سابق مفتی ، مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب لکھتے فرماتے ہیں ’’ تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ،دینے والے اور لینے والے دونوں گنہگار ہوں گے اور ثواب سے محروم رہیں گے، اگر بلا اجرت سنانے والا نہ ملے تو ’الم تر کیف‘ [یعنی جو سورتیں یاد ہوں ان]سے تراویح پڑھیں۔( فتا ویٰ محمودیہ:7/171)پاکستان کے مشہور عالم، مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’خدمت کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی معاوضہ ہی ہے اور اجرت طے کر نے کی بہ نسبت زیادہ قبیح ہے، اس لیے کہ اس میں دو گنا ہ ہیں؛ایک قرآن سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہالتِ اجرت کا گناہ [کہ ایسا کرنے والے اسے اجرت ماننے کو بھی تیار نہیں ہوتے]۔(احسن الفتاویٰ :3/514)
دورِ حاضر کے مشہور عالم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہمارے زمانے میں ایک عام رواج سا ہوگیا ہے کہ حفاظ صاحبان اپنے قرآن کی قیمت لگاتے پھرتے ہیں ،باضابطہ ایک رقم طے کرتے ہیں جو ان کو بہ طورِ اجرت ’نذرانہ‘ کے نام سے ختمِ تراویح پر دی جاتی ہے،بسا اوقات اس کے لیے طویل اسفار کرتے ہیں اور اپنے وطن ،شہر ،قریہ پر ایسی جگہ کو ترجیح دیتے ہیں جہاں زیادہ پیسہ ملیں ،یہ انتہائی نامناسب طرزِ عمل ہے۔تراویح میں ختمِ قرآن ’شرعی ضرورت ‘نہیں ہے،یہ محض ایک ایسی سنت ہے کہ تراویح کی ادائیگی کے لیے یہی کافی ہے کہ’الم ترکیف‘سے ’سورۃ الناس‘تک پڑھ کر نماز کی تکمیل کر لی جائے۔(جیسا کہ)اگر لوگوں میں تعب وتھکن اور قرآن کی طرف سے بے توجہی ہو تو فقہاء نے اسی کو بہتر قرار دیا ہے کہ تھوڑا ہی قرآن پڑھا جائے،تکمیل نہ کی جائے۔اب ظاہر ہے کہ ایک ایسی بات کے لیے قرآن فروشی کی کیوں کر اجازت دی جا سکتی ہے،اس لیے راقم الحروف کی رائے یہی ہے کہ ایسا کرنا ہرگزدرست نہیں۔یہ بات شریعت کی روح سے ہم آہنگ نہیں معلوم ہوتی کہ ایک سنت کے لیے، جس کا ترک کردینا بھی فقہاء کی تصریحات کے مطابق،حالات کے اعتبار سے قبیح نہیں،ایک نادرست عمل کوروا رکھا جائے اور اس کے لیے حیلے کی راہ دریافت کی جائے‘‘۔(جدید فقہی مسائل:۱۹۵۱۔۱۹۲بتصرف)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی ناقدری اور اسے دنیا کمانے کے طور پر استعمال کرنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین