قربانی کرنا ہر صاحبِ نصاب پر ضروری

قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب و ضروری

ندیم احمد انصاری

الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا

قربانی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور جس طرح زکوٰۃ ادا کرنا مخصوص شرائط کے ساتھ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل ضروری ہوتا ہے ، اسی طرح قربانی بھی مخصوص شرائط کے ساتھ ہر صاحبِ نصاب پر علاحدہ علاحدہ واجب ہوتی ہے ، البتہ دونوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے نصاب پر سال گزرنا اور موجود مال کا مالِ نامی ہونا ضروری ہے اور قربانی کے لیے نصاب پر سال گزرنا ضروری ہے نہ موجود مال کا مالِ نامی ہونا،لیکن فی زمانہ دیگر مسائل کے ساتھ اس مسئلے میں بھی امت کے کم پڑھے لکھے طبقے کو تشکیک میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کس طرح اس اہم فریضے سے دست بردار ہو جائیں، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ ایک مختصر مضمون میں صحیح موقف کو واضح کر دیا جائے ۔قربانی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے اور جس طرح زکوٰۃ ادا کرنا مخصوص شرائط کے ساتھ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل ضروری ہوتا ہے ، اسی طرح قربانی بھی مخصوص شرائط کے ساتھ ہر صاحبِ نصاب پر علاحدہ علاحدہ واجب ہوتی ہے ، البتہ دونوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے نصاب پر سال گزرنا اور موجود مال کا مالِ نامی ہونا ضروری ہے اور قربانی کے لیے نصاب پر سال گزرنا ضروری ہے نہ موجود مال کا مالِ نامی ہونا،لیکن فی زمانہ دیگر مسائل کے ساتھ اس مسئلے میں بھی امت کے کم پڑھے لکھے طبقے کو تشکیک میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کس طرح اس اہم فریضے سے دست بردار ہو جائیں، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ ایک مختصر مضمون میں صحیح موقف کو واضح کر دیا جائے ۔ سب سے اول چند احا دیث ملاحظہ فرمائیں؛حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :رسول اللہﷺنے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور آپ ہر سال برابر قربانی کرتے تھے ۔(ترمذی)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ میں دو چتکبرے اور سینگ والے مینڈھوں کو اپنے دستِ مبارک سے قربان کیا۔ (بخاری، مسلم)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے ، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے ۔(ابن ماجہ، حاکم)بعض محدثین نے اس روایت پر اعتراض کیا ہے کہ یہ روایت موقوف ہے اور مرفوع کے مقابلے میں موقوف صحیح نہیں ہے ، جب کہ اس روایت کا موقوف ہونا طے نہیں، نیز اس روایت کو امام حاکمؒنے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے تمام رجال ثقات ہیں۔ (فتح الباری)تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیںہمارا مدلل رسالہ بہ نام قربانی محض سنت نہیں، واجب ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ(حجۃ الوداع کے موقع پر) تشریف لائے ۔ آپؓمکہ معظمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقامِ سرف میں حائضہ ہوگئی تھیں… اس وقت آپؓرورہی تھیں۔حضرت نبی کریمﷺنے دریافت فرمایا: کیا بات ہے ؟ کیا تمھیں حیض کا خون آنے لگا ہے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: جی ہاں! نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: یہ تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے ، تم حاجیوں کی طرح اعمالِ حج کرلو، صرف طوافِ کعبہ مت کرنا۔ وہ کہتی ہیں کہ پھر جب ہم منیٰ میں تھے تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ’رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے ۔‘(بخاری، مسلم) اسی لیے امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ ہر صاحبِ نصاب کے ذمّے الگ الگ قربانی واجب ہے ، ایک بکری سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوسکتی۔ حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ ’قربانی‘ ایک عبادت ہے اور عبادت ہر ایک انسان پر الگ الگ فرض ہوتی ہے ، عبادت میں ایک آدمی دوسرے کی طرف سے قائم مقامی نہیں کرسکتا۔ جس طرح زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب پر الگ الگ فرض ہے ، اسی طرح قربانی بھی ہر ایک پر الگ الگ واجب ہے ، اور حضورﷺسے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ اپنی قربانی الگ فرماتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے ، جیسا کہ متذکرہ حدیث میں گزرا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک قربانی سب کی طرف سے کافی نہیں۔ (درسِ ترمذی) نیز مفتیِ اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ قربانی صاحبِ نصاب پر واجب ہے دلیلِ وجوب یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں مروی ہے کہ یعنی جس کو وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو ہمارے مصلے کے قریب نہ آئے اور ظاہر ہے کہ صاحبِ نصاب ذی وسعت ہے ، پس اگر ایک گھر میں دو شخص صاحبِ نصاب ہوں تو دونوں پر قربانی واجب ہوگی اور چار ہوں تو چاروں پر اور ایک ہو تو ایک پر ۔ ہاں ہر فرض عبادت کی طرح اس کا بھی حال ہے چار رکعت فرض ظہر ادا کرنا ہر شخص پر فرض ہے پھراسے اختیار ہے کہ چار رکعتیں مزید نفل پڑھ کر اس کے ثواب میں اپنے گھروالوں کو، خاندان والوں کو شریک کرلے ۔(الدرالمختار) زکوٰۃ فرض ادا کرکے بطور نفل مزید صدقہ کرے اور اس میں گھر والوں، خاندان والوں کو شریک کرلے ، اسی طرح قربانی واجب ادا کرکے اسے حق ہے کہ مزید ایک نفلی قربانی کرکے اس کے ثواب میںسب گھر والوں کو بلکہ تمام امت کو شریک کرلے ۔ آں حضرتﷺکی قربانی تمام اہلِ بیت یا آلِ محمدﷺ یا امتِ محمدﷺ کی طرف سے اسی پر محمول ہے کہ یہ قربانی نفلی ہوتی تھی اور اس میں خاندان یا امت کو ثواب کا شریک کرلیتے تھے ۔ ورنہ ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک بکرا یا مینڈھا تمام امت کی طرف سے اداے واجب کے لیے کافی ہوتا تو جن حدیثوں میں گائے کو سات کی طرف اور اونٹ کو سات کی طرف سے معین کیا گیا، اس کے کیا معنی ہوں گے ؟ گائے میں اگر آٹھ شریک ہوجائیں تو بہ مقتضاے تحدید البقرۃ عن سبعۃ قربانی جائز نہ ہوگی، ورنہ تحدید بے کار ہوجائے گی اور ظاہر ہے کہ ایک بھیڑ کا تمام امت کی طرف سے ہوجانا اور گائے کا آٹھ نو کی طرف سے نہ ہونا غیر معقول ہے ، پس صحیح یہ ہے کہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے اور نفلی قربانی کا ثواب تمام گھر والوں کو یا تمام امت کو بخشا جاسکتا ہے ، مگر قربانی ایک ہی کی ہوگی اور گائے میں فرض قربانی والے یا نفل قربانی کرنے والے سات ہی شریک ہوں گے ، جو فرض والے تھے ان کا فرض ادا ہوگا اور جس کا حصہ نفلی قربانی تھا وہ اپنی قربانی کے ثواب میں دس بیس آدمیوں بلکہ تمام امت کو شریک کرسکتا ہے ۔(کفایت المفتی)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here