قربانی کس پر واجب ہے ؟
ندیم احمد انصاری
(اسلامی اسکالر و صحافی)
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: جو صاحبِ نصاب، باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔(ابن ماجہ) اسی کے پیش نظر علماءِ محققین نے قربانی کوواجب قرار دیاہے۔ (فتاویٰ سراجیہ)لیکن قربانی واجب ہونے کی مندرجۂ ذیل شرطیں ہیں:
(۱) مسلمان ہونا، غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں ۔(ہندیہ)
(۲) مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں، اگر چہ وہ بقدر نصاب مال کا مالک ہو، یعنی اگر وہ ایام قربانی، ۱۰؍ ذی الحجہ کے طلوع آفتاب سے۱۲؍ ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب تک سفر شرعی میں رہے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی اور واپسی کے بعد اس کی قضاء بھی واجب نہیں (ہندیہ)
اس رو سے حاجی کا حکم یہ ہے کہ اگر حاجی کا قیام مکہ معظمہ میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے روانگی کے درمیان، پندرہ دن سے کم ہو تو وہ مسافر ہے، اس پر عیدالاضحیٰ کی قربانی واجب نہیں اور اگر حاجی کا قیام مکہ معظمہ میں داخل ہونے کے بعد سے واپسی تک پندرہ دن یا اس سے زائد رہے اور وہ مالکِ نصاب بھی ہو، تو اس پر عید کی قربانی بھی واجب ہو جائے گی، لیکن یہ قربانی حدودِ حرم میں کرنا لازم نہیں، بلکہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں، ایامِ نحر میں کرنا جائز اور درست ہے۔ لہٰذا اپنے وطن میں قربانی کا انتظام کردے، تو بھی درست ہے ۔(انوارِ رحمت) اور اگر کوئی حج تمتع یا حج قران کرتا ہے، تو ایک سفر میں حج اور عمرہ دونوں کرنے کی سعادت میّسر آنے کے شکرانہ میں اس پر ایک قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ اور یہ قربانی ایام نحر میں حر م میں کی جائیگی اور اسے یہ اختیار ہے کہ چاہے ایک بکرا یا دنبہ ذبح کرے یا ایک پورا اونٹ یا ان بڑے جانوروں کا ساتواں حصہ، جس کا ساتواں حصہ ایک بکرے کے قائم مقام قرار پاتا ہے ۔(قاضی خان)
(۳) آزاد ہونا، غلام پر قربانی واجب نہیں۔ آزاد سے مراد یہ ہے کہ وہ غلام یا باندی نہ ہو، عورت خاوند کے ہوتے ہوئے بھی آزاد ہے، بیٹے اور نوکر سب آزاد ہیں۔ ہندوستان میں غلامی کا وجود نہیں۔ قیدی بھی آزاد ہیں اور ملازمِ سرکار وغیر سرکار سب آزاد ہیں۔ اگر یہ لوگ مالکِ نصاب ہوں تو ان پر قربانی واجب ہوگی۔ (ہندیہ، کفایت المفتی)
(۴) مالکِ نصاب ہونا اور اس میں اتنا کافی ہے کہ نصاب کا یا ایسی چیز کا مالک ہو، جس کی قیمت حاجتِ اصلی سے زائد ہوکر نصاب کے برابر ہو جائے۔ (ہندیہ)
نیز قربانی ایسے شخص پر واجب ہے جس کے پاس بنیادی ضروریات کے علاوہ کوئی بھی سامان یا نقد رقم اتنی موجود ہو، جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اگر کسی شخص پر قرض ہو، لیکن بنیادی ضروری اشیاء، رہائشی مکان، استعمالی چیزوں اور استعمالی کپڑوں کے علاوہ جو کچھ اس کی املاک ہوں، وہ اتنی ہوں کہ بیچ دی جائیں تو قرض ادا کرنے کے بعد بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر اس کے پاس بچ رہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے اور جس طرح دوسرے حقوق کی ادائیگی کے لئے حسبِ ضرورت قرض لینا درست ہے، ایسے ہی اس مقصد کے لئے بھی قرض لینا جائز ہے۔ (کتاب الفتاویٰ)اور قربانی صاحبِ نصاب پر زکوٰۃ کی طرح ہر سال واجب ہوتی ہے، لیکن اس میں زکوٰۃ کی طرح نصاب پر سال گزرنا ضروری نہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل)
یاد رکھنا چاہئے کہ ٹی وی، وی سی آر جیسی خرافات، کپڑوں کے تین جوڑوں سے زائد لباس اور وہ تمام اشیاء جو محض زیب و زینت یا نمود و نمائش کے لئے گھروں میں رکھی رہتی ہیں، اور سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہوتیں، زائد از ضرورت ہیں، اس لئے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔(احسن الفتاویٰ)
تنبیہ:جو عورت صاحبِ نصاب ہو تو خود اس پر قربانی واجب ہے، شوہر پر اپنی بیوی کی طرف سے قربانی واجب نہیں۔ عورت کو چاہئے کہ اپنے پیسوں سے قربانی کرے، اگر اس کے پاس نقد رقم نہ ہو تو شوہر وغیرہ سے لیکر قربانی کرے، یا اپنا کوئی زیور بیچ کر قربانی کرلے، یا عورت کی اجازت سے اس کا شوہر اس کی طرف سے قربانی کردے، لیکن اگر عورت کی اجازت اور اس کو مطلع کئے بغیر اس کا شوہر قربانی کریگا تو واجب قربانی ادا نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ رحیمیہ)خلاصہ یہ کہ ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا مستقلاً واجب ہے، لہذا شوہر و بیوی دونوں صاحبِ نصاب ہوں تو ہر ایک پر علاحدہ قربانی واجب ہے، دونوں کی طرف سے ایک قربانی کافی نہیں۔(سوال و جواب)
(۵) بالغ ہونا، نا بالغ پر قربانی واجب نہیں، البتہ! اگر والدین صاحبِ مال ہوں اور اپنی نا بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، لیکن یہ مستحب ہے، واجب نہیں ۔(فتاویٰ رحیمیہ)
(۶) عاقل ہونا، مجنون پر قربانی واجب نہیں۔ اگر قربانی کے ایام میں مجنون کو افاقہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ (جواہر الفقہ)
(اس ویب سائٹ کو عام کرکے دینی کو فروغ دینے میں ہمارا ساتھ دیں)