Sadr-e-Jamhooriyah-e-hind ki talqeen aur dam todti jamhooriyat

صدرِ جمہوریۂ ہند کی تلقین اور دم توڑتی جمہوریت

ندیم احمد انصاری

یوں تو گذشتہ چند دہوں سے ہندستانی جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کی پیہم کوششیں جاری ہیں، لیکن بی جے پی حکومت کے دورِ اقتدار میں اس جانب جس تیزی سے پیش رفت ہوئی، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ گنگا جمنی تہذیب والا ملک اس وقت بھگوائیوں کے نرغے میں ہے اور ہر آن یہ کوششیں جاری ہیں کہ دنیا کی اس عظم ترین جمہوریت کو ہندوراشٹر میں تبدیل کر دیا جائے۔ جن لوگوں کو بصارت کے ساتھ بصیرت کی دولت ملی ہے، وہ ان خطروں کو پہچانتے اور ملک کی مشترکہ تہذیب کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت یہی ہے کہ میڈیا وغیرہ پر جس طرح بھگوائیوں کا غلبہ ہے، اس سے آتشِ نفرت کے مزید بھڑکنے اور ملک کی سالمیت کو خاکستر کرڈالنے میں مدد مل رہی ہے۔بات گجرات فساد کی ہو یا دادری، بابری اور مظفر نگر کی، مسئلہ کنھیا کا ہو یا نجیب کا، معاملہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق ہو یا جوہر لال نہرو یونی ورسٹی سے، ہر ایک میں ڈبل اسٹینڈرڈ اور عدم رواداری کا نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور ہر جگہ جمہوریت تار تار ہو رہی ہے، اور ہم کفِ افسوس مَلنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ یقیناً یہ صورتِ حال لمحۂ فکر ہے کہ کیا واقعی آنے والے دنوں میں اس میں کوئی خوش گوار تبدیلی ہوگی یا اسی طرح دھرم و مذہب کے نام پر انسانیت کی بَلیاں چڑھائی جاتی رہیںگی!
حدتو یہ ہے کہ ملک کا وزیرِ اعظم دیوالی اور رمضان کے نام پر تفریق کا قائل ہے، اس کے وُزرا میں سے کوئی بابری مسجد کا مسئلے کو ہوا دے رہا ہے تو کوئی زندوں سے آگے بڑھ کر مُردوں پر اوچھی سیاست کرنے میں سرگرمِ عمل ہے۔ فیس بک وغیرہ پر جا کر دیکھیے کہ کیسی گندی اور چھوٹی سوچ کو عام کیا جا رہا ہے، اور اقلیتوں کے صبر کے پیمانے کو چھلکانے کی کیا کچھ کوششیں نہیں کی جا رہیں، یہ تو خدا کا شکر ہے کہ ملک میں اب بھی کچھ دور اندیش موجود ہیں، جن سے جمہوریت قائم ہے، ورنہ ان لوگوں کا تو حال یہ ہے کہ بچی ہوئی کسر پوری کرنے کے لیے کنیڈا سے تاریک پھٹے جیسوں کو امپورٹ کر رہے ہیں، جس کا کام صرف اور صرف اس مشترکہ تہذیب کو آگ لگانا اور ہندوومسلمانوں میں الگاؤ پیدا کرنا ہے۔ یقین جانیے ان سب سے ہمارا مقصد ناامید و خائف کرنا نہیں، لیکن متوجہ کرنا ضرور ہے، ہر اس دل و دماغ کو جن کے سینوں میں انسانیت کا درد ہے۔
ان حالات میں2 مارچ 2017ءکو خبر شائع ہوئی کہ دہلی یونیورسٹی کے رام جس کالج میں جاری تنازعے کے درمیان صدر پرنب مکھرجی نے یونیورسٹیوں کو مشورہ دیا کہ وہ بدامنی کے ماحول کو فروغ دینے کے بجائے منتقی بحث کے رجحان کو بڑھاوا دیں، ملک میں کسی عدم روادار ہندستانی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔دورانِ خطاب انھوں نے کہا کہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کو اپنے احاطے میں بدامنی کے ماحول کو فروغ دینے کے بجائے منطقی بحث کو فروغ دینا چاہیے،اور قومی مقاصد اور حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دے کر ہی ہم اپنے ملک کو مسلسل ترقی اور خوش حالی کی راہ پر لے جا سکتے ہیں۔دراصل واقعہ یہ ہے کہ 24 فروری 2017ء بروزجمعہ دہلی یونیورسٹی کے متعدد کالجوں کی طالبات نے اے بی وی پی کی مخالفت میں سوشل میڈیا پر مہم شروع کی تھی، جس میں طالبات نے ہاتھ میں ‘میں اے بی وی پی سے نہیں ڈرتی لکھا پوسٹر لے کر اپنی تصویریں شیئر کی تھیں، ان میں سے ایک لیڈی شری رام کالج کی طلبہ گرمیہر کور تھی، جس نے خود کو ایک شہید کی بیٹی بتایا تھا۔اے بی وی پی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ حمایت میں بھی دہلی یونیورسٹی کی کئی طالبات نے فیس بک وال پر اپنی تصویر شیئر کی، ان تصویروںمیں لکھا تھا کہ ملک دشمن عناصر کے خلاف ‘میں اے بی وی پی کی حمایت کرتی ہوں۔ یہ مخالفت اور حمایت کی مہم ہفتے یعنی 25فروری کو سوشل میڈیا پر خوب چھائی رہی اور ہزاروں لوگوں نے طالبات کی پوسٹ کو لائک اور شیئر کیا، حتّٰی کہ اے بی وی پی کی مخالفت اور حمایت میں ڈی یو کے باہر کے لوگ بھی میدان میں آگئے اور جے این یو کے طلبہ اے بی وی پی کی مخالفت میں اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے۔وجہ یہ تھی کہ بدھ کو اے بی وی پی اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اسا) کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ ہوگئی تھی،کیوں کہ ایک دن پہلے ہی اے بی وی پی نے رام جس کالج میں منعقد اس سیمینار کو زبردستی منسوخ کرا دیا تھا، جس میں جے این یو کے طالب علم عمر خالد کو مدعو کیا گیا تھا۔کہا جا رہا ہے کہ رام جس کالج میں عمر خالد اور شہلا رشید کو کالج کی لٹریری سوسائٹی نے ایک ٹاک میں حصہ لینے کے لیے بلایا تھا،خالد کو ‘دی وار ان آدی واسی ایریا کے موضوع پر بولنا تھا، لیکن اے بی وی پی کی مخالفت کی وجہ سے رام جس کالج کو یہ منسوخ کرنا پڑا،جس پر سیاست کا بازار بھی گرم ہو گیا اور اسی پس منظر میں صدرِ جمہوریہ کا مذکورہ بالا بیان سامنے آیا،جس سے ہمیں قطعاً اختلاف نہیںاور ہم اس بیان کی قدر کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عدم رواداری کا مظاہرہ اور جمہوریت کو پاش پاش کرنا صرف ان یونی ورسٹیوں تک محدود نہیں رہ گیا ہے، بلکہ سیاست کے میدان میں اس وقت یہی کرتب سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ فیس بک پر جاری ایک ویڈیو کے مطابق بعض بھگوا لونڈے پولیس کے جوانوں کو بھی دوڑا دوڑا کر مار رہے ہیں، اور ان سے کوئی پرسش کرنے والا بھی نظر نہیں آیا، گویاعدم رواداری اور اکثریت کے دم پر ہر غیر مہذب حرکت کر جانا اب اس ملک کا مقدر ہو چکا ہے۔
جس ملک میں پردھان سیوک اپنے منصب سے نیچے اتر کر دیوالی و رمضان میں بجلی کے نام پر تفریق کرنے کی کوشش کرے، اوراور ساکشی مہاراج جیسے لوگ مُردوں پر سیاست کرنا چاہیں، وہاں سابق مرکزی و زیرسیف الدین سوز کا یہ کہنا بالکل بجا ہے ’’ اب اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ہندوستان کا وہ تصور، جوسکیولرزم ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور سماجی رواداری سے تعبیر کیا جاتا تھا ،اُس کو ختم کیا جا رہا ہے! ـ‘‘ ان حالات میں صدرِ جمہوریہ کو صرف تلقین نہیں بلکہ مثبت اقدام کی ضرورت ہے۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here