شادی سادی ہو سودا نہ ہو

شادی سادی ہو سودا نہ ہو، ندیم احمد انصاری

دنیا وجہان اور قومی و بین الاقوامی مسائل و موضوعات پر جہاں ہم بہت کچھ لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں، وہیں ہمیں ان مسائل پر بھی غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے جو انسانی معاشرے کی بنیاد ہے، یعنی نکاح و شادی بیاہ۔نکاح و شادی جہاں ایک مذہبی و دینی فریضہ ہے، وہیں ایک ناگزیر انسانی و معاشرتی ضرورت بھی ہے، جس سے فرار یا فرار کی صورت میں قرار ممکن نہیں۔ اس وقت اس کی ضرورت و اہمیت یا فضیلت و افادیت پر کلام مقصود نہیں، البتہ اس میں در آئی ایک برائی کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کروانا مقصود ہے، امید کہ سود مند ہو!
شادی ، جسے خانہ آبادی سے تعبیر کیا جاتا تھا، فی زمانہ ایک لڑکی کے باپ کے لیے بربادی یا کم سے کم چین و سکون کو غارت کرنے والی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ کہنے کو یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں یا لڑکیاں کسی معاملے میں لڑکوں سے کم نہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن جب پریکٹکل لائف میں جھانک کر دیکھا جاتا ہے تو اس طرح کے بلند بانگ دعوے کرنے والے خود اس گندگی میں زیادہ لتھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔انھیں اخلاق کی کوئی فکر وہتی ہے نہ قانون کی۔ آپ ہزار قانون بنائیں لیکن ان لوگوں کو جو کرنا ہے، اس سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔
کہتے ہیں کہ بیٹی کو باپ سے اور باپ کو بیٹی سے زیادہ محبت ہوتی ہے، اس کے باوجود جو باپ خود اپنے گھر میں بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر پیشانی پر سلوٹوں کے ساتھ نظر آتے ہیں اس کی ایک وجہ زندگی بھر کی وہ فکر ہوتی ہے جو سماج اسے دیتا ہے کہ وہ ’بیٹی والا‘ ہے۔ جس کا مطلب سماج نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اب اسے خوشی کا ساتھ جینے کا حق نہیں، وہ اپنی بیٹی کو خوب پڑھائے لکھائے اور وقت آنے پر کسی ایسے سوداگر کے ساتھ روانہ کر دے جو گھر میں اس سے خدمت لیتا رہے اور اگر لائق ہو تو باہر سے بھی آمدنی کرواتا رہے، تہوار اور ہر خاص موقعے پر تحفے تحائف کے نام پر نذرانے پیش کرتا رہے، اس کے یہاں اولاد پیدا ہو تو اسے اپنے گھر میں رکھ کر زچگی کا خرچ برداشت کرے اور اس کی ہر طرح سے خدمت کرے، یہی نہیں بلکہ جب بیٹی کی یہ اولاد جوان ہو جائے اور ان کی شادی کا موقع آئے اس وقت بھی اس پر لازم و ضروی ہے کہ خطیر رقم پیش کرے، خواہ قرض لے کر ہی کیوں نہ ہو۔یہ تو اس کی زندگی کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جس بیٹی کے لیے باپ یہ سب کرتا ہے، اسے بیاہنے کے بعد اس کی صورت دیکھنے کا اپنی مرضی کے مطابق اسے کوئی حق نہیںرہتابلکہ جب اس کا جابر و ظالم شوہر چاہے گا، تبھی وہ اپنے جگر گوشے سے مل کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر سکتا ہے۔ اس شفیق باپ کی غَیبت میں داماد بیٹی کے ساتھ جو چاہے ناروا سلوک کرے، اس معاملے میں دخل دینے کا باپ کو کوئی حق نہیں۔ رہا قانون‘ وہ تو بے قصوروں پر ظلم ڈھانے کے لیے اکثر استعمال ہوتا ہے، ظالم و چال باز کب اس کے شکنجے میں آتے ہیں،اس لیے کہ عزت دار لوگوں کو تو پولیس و عدالت کے نام سے ہی پسینہ آجاتا ہے اور کبھی کبھار انھوں نے ہمت کر بھی لی تو سماج انھیں اس کو پاش پاش کر دیتا ہے۔
اس وقت ذہن میں بہت سی باتیں ہیں جن پر حسبِ موقع ہم اپنے قارئین سے آئندہ گفتگو کریں گے،من جملہ ان منتشر خیالات کے یہ ہے کہ ہماری شادیاں سادی ہونی چاہئیں، انھیں سودے بازی کی شکل ہرگز ہرگز نہ دی جائے۔ ایسے بہت سے لوگ آج کل پائے جا رہے ہیں جو رشتہ طے کرتے وقت تو بڑی محبت بھری اور میٹھی میٹھی باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں صرف لڑکی چاہیے، اس کے ساتھ کچھ نہیں چاہیے، ہم لڑکی کو بیٹی بنا کر لے جائیں گے وغیرہ وغیرہ، لیکن جیسے جیسے شادی کے دن قریب آنے لگتے ہیں، ویسے ویسے وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے لگتے ہیں اور ان کے مطالبات کی فہرست کھلے طور پر یا اشاروں میں طویل ہوتی چلی جاتی ہے۔لڑکی کے گھر والے تو ظاہر ہے سماج میں اپنی عزت کو بچانے کے لیے رشتہ ہو جانے کے بعد کسی طرح اسے منقطع کرنے سے ڈرتے ہیں اور لڑکے والے اسی بات کا بھرپور فایدہ اٹھانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ استثنا ہر جگہ ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح و شادی کو نہایت آسان ہونا چاہیے تاکہ عمر و تقاضا ہونے پر کوئی لڑکا یا کوئی لڑکی اس سے محروم نہ رہ سکے اور سماج میں زنا جیسے ناپاک جرائم پنپنے نہ پائیں، لیکن آج نکاح کو اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ زنا تو عام ہو گیا لیکن نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بڑی تعداد ہے جو بڑھتی عمر کے ساتھ نکاح کو ترس رہے ہیں۔ بہت دفعہ تو لڑکا خود بھی اپنے نکاح کے ذریعے مال و متاع کا خواہاں ہوتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کے گھر والے ہرگز یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور اگر انھیں اس تعلق سے کچھ سمجھانے کی کوشش کی جائے تو کہتے ہیں کہ سارے ہی ماں باپ اپنی بیٹیوں کو دیا کرتے ہیں!یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جہیز اور لڑکی سے مختلف موقعوں پر حاصل کی جانے والی دیگر رقومات ہی کے سبب بہت سے بھائی اپنی بہنوں کو باپ کی میراث میں ان کا حصہ دینا نہیں چاہتے، جو ایک سنگین گناہ ہے اور جس کے اثرات دور رس ہیں۔ظاہر ہے کہ ان تمام مسائل کے حل کے لیے ذی شعور اور با ہوش لڑکوں کو آگے آنا ہوگاکہ وہ یہ تہیہ کریں کہ ہم ان خرافات اور غلط رسموں کا قلع قمع کریں گے، اس لیے کہ لڑکی والے تو ان معنوں میں مجبور ہوتے ہیں، اب مَردوں کو ہی اپنی جواں مَردی سے کام لے کر سماج سے جہیز جیسی خرافات کو ختم کرنے کے لیے پیش قدمی کرنی ہوگی تاکہ کوئی باپ اپنے گھر میں بیٹی کے پیدا ہونے پر خوشیاں منانے سے محروم نہ رہے۔ ویسے بھی جو لوگ اپنے نکاح کے موقع پر دوسرے کی بیٹی کو بیاہنے کے لیے بے جا شرطیں لگاتے ہیں کیا معلوم ان کی قسمت میں خدا نے اولاد کی شکل میں بیٹیاں ہی لکھی ہوں!اگر ایسا ہوا تو خیال رکھیے یہ دنیا صداے باز گشت ہے، جیسی کہے ویسی سنے۔
جن نکتوں پر ہم آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہ رہے ہیں، اگر آپ نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہو تو واضح ہوگا کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی عرب اسی لیے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے کہ وہ آگے چل کر داماد کے نخرے برداشت کرنے سے خوف محسوس کرتے تھے نیز یہ ان کی شان کے خلاف تھا کہ کوئی ان پر بیٹی کے نام پر حکم رانی کرے۔ آج بھی حالات اس سے کچھ الگ نہیں ہیں، اس لیے کہ شادی کی بے جا رسوم و راج نے بیٹی کے باپ کو اس قدر تنگ کر کر رکھ دیا ہے کہ وہ اس لمحے کو کوسنے پر مجبور ہے ، جب وہ بیٹی کا باپ بنا۔خدارا ہوش کے ناخن لیں اور کسی بیٹی اور کسی باپ کی آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب ہرگز نہ بنیں کہ وہ لڑکی ہونے یا لڑکی کا باپ ہونے پر پچھتائے اور ہرگز اس حقیقت کو فراموش نہ کیجیے؎
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here