سونو نگم کی ٹویٹ بازی مذہبی رواداری کے منافی
ندیم احمد انصاری
مال و شہرت کی بھوک انسان کی عقل کو کھا جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں، وہ بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی کچھ حال گذشتہ ان دنوں ہندستان کے ایک مشہور گلوکار سونو نگم کا ہوا۔ نہ معلوم انھیں چاندنی رات کے بعد صبح ہوتے ہی کیا سوجھی کہ بعض متنازع ٹویٹ کر کے انھوں نے اپنی شہرت کے چارچاند کو بادل میں چھپنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد و خبروں کی زینت تو بنے لیکن اپنے بہت سے فینس کی آنکھوں سے اُتر گئے۔ انھوں نے ٹویٹ پر یکِ بعد دیگرے کئی ایسی باتیں کہیں جن سے ملک کے اکثر و بیش تر مذہب پر عمل کرنے والوں کو تکلیف ہوئی، اس لیے کہ ان کا انداز جارحانہ تھا، جس سے جمہوریت اور ملک کے عوام کی مذہبی آزادی پر حملہ ہوا۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ انھوں نے اصلاً تو اذان او رمسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا تھا، بھلے ہی آگے چل کر دیگر مذاہب پر ضمناً کہہ کر چھوڑے ہوئے تیر کو پھیرنے کی کوشش کی۔ اب تو حال یہ ہے کہ ان کی اس حرکت سے اُن کے اپنے سر کے بال بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، لیکن جو عمل انھوں نے کیا، وہ ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں۔خبر ہے کہ پانی پت میں ان کے خلاف فوج داری مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے اور رضا اکیڈمی ممبئی نے بھی پولس کمشنر سے یہ مطالبہ کیا کہ سونو نگم کے خلاف مذہبی جذبات مجروح کرنے کے لیے ایف آئی آر درج کی جائے۔یہ تو ہونا ہی تھا، کیوں کہ انھوں ملک کی کثیر جہتی تہذیب اورمذہبی رواداری کو بھنگ کرنے کی کوشش جو کی تھی۔کسی نے بہت خوب کہا؎
بدلی بدلی نظر آتی ہے چمن کی خوشبو
مٹ گئی فکر کی تہذیب کی فن کی خوشبو
اب اذانوں سے بھی ذہنوں کو پریشانی ہے
زہر آلود ہوئی کتنی وطن کی خوشبو
گمان کیا جا رہا ہے کہ اپنی گری ہوئی مارکیٹ سدھارنے کے لیے گلوکار نے یہ اوچھا طریقہ اپنایا اور یوں کئی برسوں سے اپنی گم نامی کو ختم کرکے نئی ویڈیو البم ’ناچو کرکٹ والی بیٹ پر‘ کو پروموٹ کرنے کے لیے یہ اوچھی حرکت کی ہے،یعنی سونو نگم نے لائوڈ اسپیکر پر نمازِ فجر کی اذان کے خلاف زہر افشانی محض خود اپنے آپ کو دوبارہ خبروں، میڈیا اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنانے کے لیے دانستہ طور پر اور مارکیٹنگ کی منصوبے کے تحت کی ہے، کیوں کہ مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ جس تنازع کو سونو نگم نے چھیڑا ہے، اس کا موجودہ قومی صورتِ حال میں اس کی نئی ویڈیو البم اور ڈیجیٹل ایپ 100 ایم بی کو زبردست فایدہ ملے گا۔ بات یوں بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ سونو نگم سات بنگلہ، یاری روڈ، اندھیری (مغرب)، ممبئی کی ایک فلک بوس عمارت کی 12 ویں منزل پر رہتے ہیں، جس میں یقیناً اس بھری گرمی کے موسم میں وہ ایئر کنڈیشنڈبیڈ روم میں سوتے ہوں گے،پھر آخر اذانِ فجر سے اچانک ان کی نیند میں خلل کیوں پیدا ہونے لگا؟
واضح رہنا چاہیے کہ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ انھوںنے ٹوئٹ کرکے صرف لاوڈاسپیکر پر اذان دینے پر سوال اٹھائے ہیں، بلکہ انھوں نے اذان جیسی وقتی اور مختصر سی عبادت کو مذہبی زبردستی بلکہ غنڈہ گردی سے تعبیر کیا ہے۔جیسا کہ انھوں نے کہاکہ خدا ہر ایک پر رحم کرے! میں مسلمان نہیں ہوں اور مجھے صبح اذان کی آواز سے اٹھ جانا پڑتا ہے، کب تک ہندستان میں یہ مذہبی زبردستی جھیلنی پڑتی ہے۔یہ تو گنڈہ گردی ہے بس! جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے 43سالہ زندگی میں پہلی پہلی بار یہ اذان کی آوازیں سنی ہیں، جو ان کے خمار کو توڑنے میں کامیاب ہو سکی ہیں۔رہا ان کا یہ خیال کہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دین بنایا، اس دور میں بجلی نہیں تھی، تو جناب پہلے تو اپنے جملوں کی ضروری اصلاح کر لیں کہ حضرت پیغمبر نے کوئی دین یا مذہب بنایا نہیں، پہنچایا ہے، دوسرے اس زمانے میں اذان یا کسی بھی آواز میں حائل یہ فلک بوس عمارتیں بھی نہیں تھیں، نیز اس دور میں جنگلات کی طرح پھیلی ہوئی یہ انسانی آبادی بھی نہیں تھی۔ اس زمانے میں اعلانِ نماز کے لیے تیز آواز مؤذن کا پکارنا کافی ہو جاتا تھا، لیکن حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اب ان لاؤڈ اسپیکروں کا استعمال بعض موقعوں پر ناگذیر ہو گیا ہے۔ آپ ذرا ایک دفعہ اپنے گانے والوں کی تاریخ پر بھی نظر ڈالیں کہ کس نے سب سے پہلے مائک یا اسپیکر کا استعمال کیا، جب آپ اپنے مفاد کے لیے ان آلات کا استعمال کر سکتے ہیں تو مذہب پر عمل کرنے والے کیوں نہیں؟ یہ تو آپ کی عجیب زبردستی اور اجارہ داری ہے!
یہی وجہ ہے کہ اب سونونگم کو سخت ردِعمل کا ساما کرنا پڑ رہا ہے۔کسی کا کہنا ہے کہ اسے اہمیت نہیں دی جانی چاہیے تو کسی نے اسے فوری طو رپر گرفتار کرنے کا پر زور مطالبہ کیا ہے، کسی نے اسے ایک بے تکی بکواس تو کسی نے پبلسِٹی اِسٹنٹ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض نے اِس حرکت کو اُن کا ذہنی دیوالیہ پن تک کہا ہے۔اس سب کے بعدسونو نگم کا یہ کہنا کہ میرا بیان اذان، آرتی کے لیے نہیں، بلکہ لاؤڈ اسپیکرز کے لیے ہے،ہرگزقابلِ قبول نہیں، اس لیے کہ لاؤڈاسپیکر کا استعمال ضرورت کےموقعوں پر ہی کیا جاتا ہے، جہاں اس میں بے اصولی یا بے احتیاطی برتی جاتی ہے، وہ ایسا کرنے والوں کا الگ اور ذاتی معاملہ ہے۔نیز ممبئی میں صوتی آلودگی کے خلاف مہم چلانے والے افراد کا یہ کہنا کہ مسجدوں سے آنے والی آوازوں کی شدت 97 ڈیسی بل (ڈی بی) تک پہنچ گئی ہے، جو ڈرل مشین سے نکلنے والی آواز کی طرح زور دار ہوتی ہے،اور ہندوئوں کے مذہبی ادارے بھی اتنی ہی صوتی آلودگی پیدا کرنے کے قصور وار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہالکشمی مندر، ممبئی سے متعدد موقعوں پر مبینہ طور پر 100 ڈی بی تک کی شدید آواز نکلتی ہے۔ نیز آواز فائونڈیشن نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ ہندستان کی عدلیہ نے صوتی آلودگی کی روک تھام کے لیے جو احکامات صادر کیے ہیں، اس پر شہر میں معدودے چند ہی مذہبی ادارے عمل کرتے ہیں، تاہم ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کے اداروں کے سربراہان اس رائے سے متفق نہیں ہیں اور انھوں نے اس معاملے میں صفائی بھی پیش کی ہے۔ حاجی علی درگاہ کے نمائندوں نے بتایا کہ ہم پوری توجہ کے ساتھ آواز کم رکھتے ہیں، تاکہ اذان کے دوران پڑوس کے لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔برسوں سے ہمارا یہی طریقہ ہے، کیوں کہ اسلام میں دوسرے کو کسی بھی طرح کی تکلیف دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حیرت ہے کہ مذہبی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جب کہ ممبئی شہر میں دوسرے ذرائع سے پیدا ہونے والی آوازیں اس سے کہیں زیادہ صوتی آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ ہوا، سڑک پر ٹریفک اور ٹرینوں سے نکلنے والی آوازیں اس سے کہیں زیادہ زور دار ہوتی ہیں، پھر معروف لوگ اس پر رائے زنی کیوں نہیں کرتے۔ مہا لکشمی مندر کے اراکین نے بھی صوتی آلودگی سے متعلق قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی تردید کی ہے، کمیٹی کے ایک ممبر نے بتایا کہ مندر کے اطراف علاقے کو Silent Zoneکے طور پر برقرار رکھا گیا ہے اور آس پاس میں واقعی جو زور دار اور شدید آوازیں نکلتی ہیں، وہ ٹریفک اور دوسرے ذرائع کی ہوتی ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ تمام باتیں قابلِ غور ہیںاور اس معاملے میں عدلیہ کے فیصلے کافی ہیں، جس میں ہر کس و ناکس کو رائے زنی سے پرہیز کرنا چاہیے نیز ملک کی سالمیت اور مذہبی رواداری کے خلاف کوئی بھی بیان دینے سے قبل بار بار سوچ بچار کر لینا چاہیے۔ہندستان مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کا دیش ہے اور یہاں کے عوام رواداری کے ساتھ وطنِ عزیز میں پوری مذہبی آزادی کے ساتھ رہتے آئے ہیں، یہی اس ملک کی خاصیت اور روح ہے، جس کے بغیر اسے زمین کا ایک ٹکڑا تو کہا جا سکتا ہے، وطنِ عزیز ہرگز نہیں۔
[email protected]