سودسے بچیں جس میں متعدد شرعی، اخلاقی اور معاشی مفاسدپوشیدہ ہیں!
ندیم احمد انصاری
سود ایک ایسی لعنت ہے، جس سے نجات پانا خصوصاً مسلمانوں کے لیے از بس ضروری ہے، لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ حال ہی میں 8 نومبر 2016ء کی رات سے حکومتِ ہند نے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ بند کرنے کا جوں ہی اعلان کیا کہ اب سے یہ نوٹ لیگل ٹینڈر نہیں رہیں گے،اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتےبعض لوگ انھیں کم مالیت یعنی پانچ سو کے نوٹ کو چار سو میں خریدنے بیچنے کا کاروبار کرنے میں لگ گئے، جو درست نہیں۔ جس میں ضرورت مند کا غلط فایدہ اٹھانا بھی ہے اور سودی معاملے کا حصے دار بننا بھی۔اس لیے کہ اطلاعات کے مطابق عام بینکوں میں 31 دسمبر 2016ء تک اور اس کے بعد رزور بینک آف انڈیا (RBI)میں 15مارچ تک ان نوٹوں کو اصل مالیت کے مطابق جمع کرنے کی گنجائش موجود ہے،اس لیے بے چینی و پریشانی کا شکار ہوئے بغیر مناسب تدبیر اپنائیں اور حرام سے مکمل احتراز کی ہر ممکن کوشش کریں اور مضمونِ ہٰذا میں پیش کی گئی تفصیلات کو ضرور مدِ نظر رکھیں۔
اسلامی شریعت میں ’سود‘ قطعی حرام ہے، ویسے سود کا مطلب محض یہی نہیں کہ کسی کو ایک روپیہ دے کر اور وقتِ مقررہ کے بعد اس کے بدلے میں کچھ اضافے کے ساتھ وصول کیا جائے، بلکہ یہ بھی سود ہے کہ آپ بلا سود کےکسی کو کچھ قرض دیں اور اس کے باعث قرض دار سے کسی قسم کی رعایت یا فائدہ حاصل کریں۔ اس کی مکمل تفصیل مقامی علماے کرام سے معلوم کرلی جائے، یہاں ہمارا مقصد صرف اس ناپاک شئے کی شناعت وناپاکی معاشرے کے سامنے لانا ہے، خصوصاً ان حضرات کے سامنے جو کہ ذرا ذرا سی مشکل پر خود بھی اس عظیم ترین گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں ملوث ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔
عربی زبان میں سود کو ’ربا‘کہتے ہیں، جس کے معنی ہیں ’رأس المال‘ یعنی اصل سرمایہ پر جو اضافہ حاصل کیا جاتا ہے، وہ ’ربا‘ ہے، لیکن شریعت میں خاص قسم کی بڑھوتری کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ (مفردات القرآن) اصطلاحِ شریعت میں مالی لین دین کے معاملے میں ایسا مالی اضافہ، جس کا دوسرے فریق کی طرف سے کوئی عوض نہ ہو ’ربا‘ کہلاتا ہے۔ (ہندیہ) انگریزی میں ’ربا‘ یا ’سود‘ کو ’Interest‘کہتے ہیں،اسلام میں سود کی بہت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میںسود کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کی حرمت پر امت کا اجماع واتفاق ہے۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ)
ارشادِ الٰہی ہے:الذین یأکلون الربا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس، ذلک بأنھم قالوا انما مثل الربوا، وأحل اللہ البیع و حرم الربوا، الآیۃ۔(مفہوم) جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ (قیامت میں) اس شخص کی طرح اٹھیں گے، جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنادیا ہو۔ یہ اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا: بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع (خرید وفروخت) کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔(البقرہ) یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آیت میں سود کھانے کا ذکر ہے اور اس سے مراد مطلقاً سود لینا اور اس کا استعمال کرنا ہے، خواہ کھانے میں استعمال کرے یا لباس میں یا مکان اور اس کے فرنیچر وغیرہ میں، لیکن اس کو ’کھانے‘کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا کہ جو چیز کھائی جائے، اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا، بخلاف دوسری ضرورتوں کے استعمال کے کہ اس چیز کو واپس لیا دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے مکمل قبضے اور تصرف کو کھا جانےکے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور نہ صرف عربی زبان میں بلکہ اردو ، فارسی وغیرہ زبانوں کا بھی یہی محاورہ ہے۔ (معارف القرآن بتغیر) جیسے اگر کوئی کسی کی رقم لے کر واپس دینے کا نام نہ لے، تو کہتے ہیں،’یہ میری رقم کھا گیا‘۔ آگے ارشاد فرمایا:یمحق اللہ الربوا وریبی الصدقٰت، واللہ لا یحب کل کفار اثیم۔ (مفہوم)اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے، جو ناشکرا اور گنہگار ہو۔(البقرہ)نیز ارشاد فرمایا:فان لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ ورسولہ، وان تبتم فلکم رءوس أموٰلکم لا تظلمون ولا تظلمون۔ (مفہوم)اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور اگر تم ایسا نہ کروگے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو، اور اگر تم (سود سے) توبہ کرو، تو تمھارا اصل سرمایہ تمھارا حق ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ (البقرہ)
اس کے علاوہ احادیث میں بھی سود کی حرمت پر متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ رسول اللہ حضرت محمد ﷺ نے سود لینے والے، دینے والے، لکھنے والے، اور اس کا گواہ بننے والے(سب پر) لعنت فرمائی ہے، (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔ (بخاری، مسلم) اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود کے 73 درجے ہیں، ان میں سب سے کم درجہ اس گناہ کی طرح ہے کہ کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے (جو کہ جائز ہی نہیں، یعنی زنا کرے)۔ (ابن ماجہ) ایک حدیث میں حضرت نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:4 لوگوں کا اللہ نے خود پر ذمہ لیا ہے کہ انھیں جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ اس (جنت) کی نعمتوں کا مزہ چکھائے گا، ان میں ایک سود کھانے والا بھی ہے۔ (الترغیب) ایک حدیث میں فرمایا: جب قوم سود میں مبتلا ہوتی ہے، وہ خود پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو حلال کرلیتی ہے۔ (ایضاً) ایک حدیث میں فرمایا: سود کا ایک درہم، جسے (سود) جانتے ہوئے آدمی کھالے، ۳۶؍ مرتبہ زنا کرنے سے بھی برا ہے۔ (ایضاً)ایک روایت میں ہے کہ ایک رات حضرت نبیِ اکرم ﷺ خون سے بھری ہوئی ایک نہر پر سے گذرے، جس کے بالکل بیچ میں ایک آدمی کھڑا تھا اور اس نہر کے کنارے پر ایک دوسرا آدمی پتھر لیے کھڑا تھا۔ نہر کے اندر والاآدمی جب نہر سے باہر نکلنے کے لیے آگے بڑھتا، تو وہ کنارے والاآدمی اس کے منہ میں ایک پتھر ڈال دیتا اور پھر اس کی جگہ اسے لوٹا دیتا، یہ سلسلہ برابر جاری تھا۔ حضرت نبیِ اکرم ﷺ نے فرشتوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ آدمی جو نہر کے اندر ہے، سود کھانے والا ہے۔ (بخاری) معراج کی رات میں حضرت نبیِ اکرم ﷺ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں، جن کے پیٹ کمروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ پھر رہے ہیں، جو باہر سے نظر آرہے ہیں۔ حضرت نبیِ اکرم ﷺ نے حضرت جبریل امینؑ سے ان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ لوگ سود کھانے والے ہیں۔ (ابن ماجہ) اور ایک حدیث میں نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود جتنا چاہے (ظاہر میں) بڑھ جائے، لیکن اس کا انجام ہمیشہ قلت وکمی کی طرف ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)
ذہن نشین رہے کہ سود صرف دینی حیثیت سے ہی برا نہیں، بلکہ اس کا اثر انسان کے اخلاق وکردار پر بھی پڑتا ہے۔ اس سے ہمدردی اور بہی خواہی جو کہ انسانیت کا جوہر ہےاور جس کی تاکید قرآن وحدیث میں بھی آئی ہے، سود اس کو مٹا کر اس کی جگہ خود غرضی اور خالص منفعت پرستی سکھاتا ہے۔ اپنے نفع کی خاطر انسان دوسروں کی عزت وآبرو ہی نہیں، بلکہ جان ومال سے بھی کھیل جاتا ہے۔ غرض یہ کہ انسانیت کا یہ عظیم جوہر اس سے بالکل چھن جاتا ہے اور اسلام سب سے زیادہ اسی جوہر کو پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قرآن وحدیث میں دوسروں کے ساتھ ہم دردی، بھلائی اور کسی غرض اور ریا کے بغیر ان کی اعانت کی تاکید کی گئی ہے۔سودی کاروبار معاشی حیثیت سے بھی غریبوں کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ اس کی خرابی کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ کسی مقام پر سیلاب وغیرہ کی وجہ سے جب فصل وغیرہ تباہ ہوجاتی ہیں، تو سودی کاروبار کرنے و الے ایسے وقت میں بھی اس کا فایدہ اٹھاتے ہیں اور موقعہ پاکر زیادہ سے زیادہ غلہ جمع کرکے بعض تاجر غریبوں اور کم آمدنی والے لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں، جب کہ عام آدمی کے پاس دو وقت کا کھانا بھی نہیں میسر ہوتا۔ (مستفاد اسلامی فقہ)