سوگ و غم منانے میں بھی اسلامی ہدایات کا پاس و لحاظ ضروری
ندیم احمد انصاری
شریعتِ اسلامی نے خوشی ہو یا غم ہر ہر معاملے میں تفصیلی ہدایات مرحمت فرمائی ہیں، جن پر عمل کرنا آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی نافع ہے ، نیز رسم و رواج چوںکہ ہم جیسے انسانوں کے وضع کردہ ہوتے ہیں، اس لیے ان میں انسانی طبیعت و فطرت کا بھی پورا لحاظ نہیں رکھا جاتا، جس سے پورا معاشرہ کرب و تکالیف کا شکار ہو جاتا ہے ۔موت تو ہر جان دار کو آنی ہے ، جب کسی کے قریبی عزیز و رشتے دار کی موت واقع ہوتی ہے تو غم و اندوہ میں یا کبھی ناواقفیت کی بنا پر انسان ایسے اعمال کر بیٹھتا ہے جس کا شریعت سے نہ صرف کوئی تعلق ہوتا ہے بلکہ بعض امور تو شریعت کے عین مخالف ہوتے ہیں۔ اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ سوگ و غم منانے سے متعلق اسلامی تعلیمات و ہدایات کو مختصر انداز میں پیش کیا جائے ۔
میت پر رونا
میت پر رونا یعنی آنسو بہانا اور اس پر حزن و ملال ہونا ایک فطری امر ہے ، اس سے بچنا انسان کی استطاعت سے باہر ہے ، اس لیے اس سے بالکلیہ نہیں روکا گیا، اور کیسے روکا جاتا یہ چیز تو رقتِ قلبی کا نتیجہ ہے اور رحم دلی محمود ہے ۔ عمرانی زندگی میں باہمی الفت و محبت اس پر موقوف ہے ، اور انسان کی سلامتیِ مزاج کا بھی تقاضا ہے ، اس لیے میت پر آنسو بہانا جائز ہے ، مگر اس طرح رونا- جو نوحے کی حد تک پہنچ جائے یعنی زور زور سے رونا اور چیخ و پکار کرنا یا میت کے مبالغہ آمیز فضائل بیان کرنا- ان امور کی بالکل اجازت نہیں۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادہ کی بیمار پُرسی کے لیے تشریف لے گئے اور آپ ان کا حال دیکھ کر رو پڑے ، دوسرے لوگ بھی رونے لگے ۔ آپ نے فرمایا: سنو! اللہ تعالیٰ آنسو بہانے اور دل کے حزن و ملال پر سزا نہیں دیتے ، بلکہ اس کی وجہ سے سزا دیتے ہیں- اور آپ نے اپنی زبانِ مبارک کی طرف اشارہ کیا- یا مہربانی فرماتے ہیں، یعنی اگر زبان سے ناشکری، بے صبری اور بے ادبی کے کلمات نکالے تو مستحقِ عذاب ہوگا اور حمد و ترجیع کی، تو مستحقِ ثواب ہوگا۔ پس معمولی رونا جائز ہے اور سخت واویلا کرنا جو نوحے کی حد تک پہنچ جائے ، جائز نہیں۔ (تحفۃ الالمعی:۳؍۴۰۴،رحمۃ اللہ الواسعہ:۳؍۶۸۷)
نوحے کی ممانعت اور اس کی وجہ
نوح اور نیاح کے معنی مردے پر رونے اور واویلا کرنے کے ہیں۔ رونا ایک تو فطری ہوتا ہے ، جو کسی عزیز اور رشتے دارکی موت پر بلا اختیار آجاتا ہے ، یہ جائز ہے ، اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ثابت ہے کہ صاحب زادۂ رسول حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ نیز حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر جب ان کے گھر کی خواتین نے رونا شروع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو توجہ دلائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر آواز بلند نہ ہو اور سر پر خاک نہ ڈالیں تو انھیں چھوڑ دو، اس بنا پر فقہا نے ایسے رونے کی اجازت دی ہے ، جو بے ساختہ ہو، واویلا کرنے ، گریبان پھاڑ لینے یا سر پر خاک ڈالنے ، سینہ کوبی اور رخسار کوبی کرنے وغیرہ سے منع کیا گیا ہے ، اور یہ مکروہِ تحریمی ہے ۔(قاموس الفقہ:۵؍۲۴۱)
قرآن وحدیث سے نوحے کا ممنوع ہونا صراحتاً ہے ،اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:اپنے اوپرہرگز ظلم نہ کرو۔(التوبۃ:۳۶) حضرت مغیرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :کسی میت پر اگر نوحہ کیا جاتا ہے ، تو اس نوحے کی وجہ سے اس (میت) پر عذات ہوتا ہے۔ (بخاری:۱۲۹۱، مسلم:۹۳۳) حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنے رخسار پیٹے ، گریبان پھاڑے اور (مصیبت کے وقت میں آپے سے باہر ہوکر) جاہلیت کی باتیں کرے ، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔(بخاری:۱۲۹۷، مسلم:۱۰۳)
نیز حدیث شریف میں ہے کہ نوحہ گری کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کی تو اسے قیامت کے دن اس حال میں کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر قطران کا کرتا اور خارش کی قمیص ہوگی۔ (مشکوٰۃ:۱۷۲۷) قَطِران تارکون جیسا ایک سیاہ بد بو دار مادّہ ہے ، جو درخت ابہل (ہوبیر) نے نکلتا ہے اور خارشی اونٹوں پر ملا جاتا ہے اور وہ آگ بہت جلدی پکڑتا ہے ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس پر خارش مسلّط ہوگی اور اوپر سے قطران ملا جائے گا، یہ سزا جنسِ عمل سے ہے ، کیوں کہ بین کرنے والی عورت کا اس کے گناہ نے احاطہ کر لیا ہے ، پس اس کا گناہ جسم کا احاطہ کرنے والے بدبو دار مادّے کی صورت میں مشتمل ہوگا اور کھڑا کرنا یا تو تشہیر کے لیے ہے یا یہ بھی جنسِ عمل سے سزا ہے ، کیوں کہ نوحہ کرنے والی عورت مجمع میں کھڑی ہوکر گریہ و زاری کرتی ہے ، اس لیے اس کی سزا بھی ویسی ہی ہونی چاہیے ۔(رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ:۳؍۶۸۹)
اس لیے غم اور موت کے موقع پر نوحہ کرنا جائز نہیں، یہ ہندوانہ طریقہ ہے اور حدیث میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں وہ عربوں کی عادت کے مطابق ہیں، پس سینہ پیٹنا، دیوار سے سر پھوڑنا، چوڑیاں توڑنا اور سرمنڈوانا، یہ سب ماتم میں داخل اور ممنوع ہیں، جس کی تین ہیں:(۱)یہ چیزیںغم میں ہیجان پیدا کرتی ہیں اور جس کا کوئی عزیز مر جاتا ہے ، وہ بہ منزلۂ مریض کے ہوتا ہے ۔ مریض کا علاج ضروری ہے ، تاکہ مرض میں تخفیف ہو، اس کے مرض میں اضافہ کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔ اسی طرح مصیبت زدہ کا ذہن کچھ وقت کے بعد حادثے سے ہٹ جاتا ہے ، پس بالقصد اس صدمے میں گھسناکسی طرح مناسب نہیں(۲)کبھی بے چینی میں ہیجان قضاے الٰہی پر عدمِ رضا کا سبب بن جاتا ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہنا ضروری ہے ، پس جو چیز اس میں خلل انداز ہو، وہ ممنوع ہونی ہی چاہیے ( ۳)زمانۂ جاہلیت میں لوگ بہ تکلّف (بناؤٹی) درد و غم کا اظہار کیا کرتے تھے اور یہ بری اور نقصان رساں عادت ہے ، اس لیے شریعت نے نوحہ و ماتم کو ممنوع قرار دیا۔(ماخوذ از تحفۃ الالمعی:۳؍۴۰۳-۴۰۴)
سوگ کی تعریف اور قسمیں
سوگ[احداد]کی تعریف یہ ہے کہ ایسی حالت میں رہنا کہ جس سے رنج و غم کا اظہار ہو یعنی ہر ایسی چیز سے بچنا جو زیب و زینت کے لیے استعمال ہوتی ہوں۔مختلف عورتوں کو[ عدت وغیرہ میں]مختلف مواقع پر سوگ منانا ہوتا ہے ۔سوگ کی دو قسمیں ہیں :
(۱) واجب: یہ شوہرکی موت کے ساتھ خاص ہے اور ہر ایسی عورت پر واجب ہے جو عاقلہ، بالغہ، مسلمان ہو اور اس کا کسی مسلمان سے نکاح صحیح ہوا ہو۔ اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تووہ عورت چار ماہ دس دن عدت میں سوگ منائے گی،اس کے علاوہ وہ عورت جسے اس کے شوہر نے طلاقِ بائن یا طلاقِ ثلاث دے دی ہو یا نامردی وغیرہ کی وجہ سے قاضی نے تفریق کرادی ہو، ان پر بھی عدت میں سوگ منانا واجب ہے ۔
(۲)جائز: یہ شوہر کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ شوہر کے علاوہ کسی اور قریبی عزیز کے انتقال پر تین دن تک سوگ منانا جائز ہے ، جیسے ؛ باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ۔(نجم الفتاویٰ:۶؍)
اہلِ میت اور سوگ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ میّت کے گھر والوں کو سوگ کرنا چاہیے اور گھر میں کھانا نہ پکایا جائے ، اور برادری والوں میں کھانا تقسیم کرنا چاہیے ، جب کہ صحیح یہ ہے کہ میّت کی بیوہ کے علاوہ باقی گھر والوں کو تین دن تک سوگ کرنے کی تو اجازت ہے ، اور بیوہ کو عدّت ختم ہونے تک سوگ کرنا واجب ہے ، لیکن میّت والے گھر میں کھانا پکانے کی ممانعت نہیں، ہاں چوں کہ وہ لوگ غم کی وجہ سے کھانے کا اہتمام نہیں کرسکیں گے ، اس لیے میّت کے گھر والوں کے لیے قریبی عزیزوں یا ہم سایوں کی طرف سے دو وقت کھانا بھیجنا مستحب ہے ، برادری والوں کو کھانا تقسیم کرنا محض ریا و نمود کی رسم ہے ، اور ناجائز ہے ۔البتہ جس گھر میں میّت ہوجائے وہاں چولہا جلانے کی کوئی ممانعت نہیں، چوں کہ میّت کے گھر والے صدمے کی وجہ سے کھانا پکانے کا اہتمام نہیں کرپاتے ، اس لیے عزیز و اقارب اور ہم سایوں کو حکم ہے کہ ان کے گھر کھانا پہنچائیں اور ان کو کھلانے کی کوشش کریں۔ اپنے چچازاد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو یہ حکم فرمایا تھا اور یہ حکم بہ طور استحباب کے ہے ، اگر میّت کے گھر والے کھانا پکانے کا انتظام کرلیں تو کوئی گناہ نہیں، نہ کوئی عار یا عیب کی بات ہے ۔(ماخوذ از آپ کے مسائل اور ان کا حل:۴؍۳۲۰)
سوگ کے احکام
سوگ یا احداد سے مراد یہ ہے کہ زیب و زینت کی تمام چیزوں، خوش بو، تیل، سرمہ، کاجل، مہندی، خضاب، ریشمی لباس، کریم، شوخ زعفرانی، سرخ رنگ وغیرہ کے کپڑے ، بلکہ سیاہ و سفید کے علاوہ کوئی بھی کپڑا اور ایسی تمام اشیا سے اجتناب کیا جائے ۔ امام ابو حنیفہؒ کے یہاں اس حکم میں دن و رات دونوں ہی برابر ہیں، البتہ بیماری کی وجہ سے دوا، سرمہ یا کوئی دوسری چیز استعمال کی جا سکتی ہے ، اور اس کے لیے بھی دن و رات کی کوئی قید نہیں۔ (قاموس الفقہ:۲؍۴۳بترمیم)
خاموشی کے ذریعے اظہارِ غم
شریعت میں موت اور ما بعد الموت کے تمام احکام تفصیل سے مذکور ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرنے والے سے ہم دردی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو تو اسے مالی اور بدنی عبادات سے ثواب پہنچایا جائے ، اور مرحوم کے ورثا سے ہم دردی کا تقاضا یہ ہے کہ اُنھیں دلاسہ دیا جائے اور ان کا غم ہلکا کرنے کی تدبیر کی جائے ۔ اس میں خاموشی کوئی عبادت نہیں بلکہ خالص غیر مسلموں کی رسم ہے ، مسلمانوں کو اس سے اجتناب ضروری ہے ، اگر ان کے ساتھ تشب?ہ کے قصد سے مسلمان بھی ایسا کریں گے ، تو سخت گناہ ہوگا۔ایسے ہی پرچم سرنِگوں کرنا بھی غیر مسلموں کی رسم ہے ، اس سے بچا جائے ۔(خیر الفتاویٰ:۳؍۲۱۸)
کاروبار بند رکھنا
کسی کے انتقال پر اس کے قریبی اعزّہ کا تین دن تک کاروبار بند رکھنا تو جائز ہے ، لیکن اس کو ضروری نہ سمجھا جائے اور بند نہ رکھنے والے پر طعن نہ کی جائے ۔(فتاویٰ رحیمیہ:۸؍۱۹۰-۱۹۳)
سوگ کی مدّت
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں: میں حضرت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں،جب کہ اُن کے والد حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگائی، جس میں خلوق یاکسی اور چیز کی زردی تھی،اور انھوں نے وہ خوشبو ایک لڑکی کو لگا دی اور تھوڑی سی اپنے رخسار پر مل لی، اور فرمایا کہ خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں، جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن سے زیادہ کسی میت کا سوگ کرے ، سوائے اپنے خاوند کے ، اُس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے ۔(بخاری:۵۳۳۴، مسلم:۱۴۸۶)
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:میںاُم المؤمنین زینب بنتِ جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں، جب کہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا۔ انھوں نے خوشبو منگوائی اور اس میں سے تھوڑی سی لگاکر فرمایا: خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے ، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی عورت کے لیے یہ حلال نہیں، جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے ، سوائے اپنے خاوند کے ، کہ وہ چار ماہ دس دن ہے ۔(بخاری:۱۲۸۲، مسلم:۱۴۸۶)
شوہر اور دیگر کے سوگ میں فرق
عورت کو اپنے والدین وغیرہ کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اپنے خاوند کی وفات پر اس کو چار ماہ دس دن کا سوگ کرنا واجب قرار دیا گیا ہے ۔ یہ امر اس شریعت کی خوبیوں اور حکمتوں اور مصالحِ عامہ کی رعایت سے ہے ، کیوںکہ میت پر سوگ کرنا مصیبتِ موت کی تعظیم میں سے ہے ، جس میں زمانہ ٔجاہلیت کے لوگ بہت مبالغہ کیا کرتے تھے اور اس کے ساتھ گریبان کا پھاڑنا اور رخساروں کو پیٹنا اور بالوں کو کھسوٹنا اور واویلا کرنا ان میں رائج تھا، اور عورت بہت تنگ و تاریک و سنسان گھر میں مدت تک برابر پڑی رہتی تھی، نہ کسی خوش بو کو چھوتی، نہ صاف کپڑے پہنتی، نہ تیل لگاتی، نہ غسل کرتی تھی، علی ہذا القیاس۔ اسی قسم کی اور نامناسب رسوم بھی جو کہ خدا تعالیٰ اور اس کی قضا و قدر پر غصہ کرنے پر دلالت کرتی ہیں، ان میں مروج تھیں، پس خدا تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت کی یہ رسم اپنی رحمت اور رأفتِ عامہ سے باطل کردی اور اس کے بدلے میں ہمیں صبر و حمد و استرجاع یعنی انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے کی ہدایت فرمائی، جو مصیبت زدہ کے لیے دارین میں بہت مفید و نافع ہے اور چوںکہ مصیبت زدہ کو مصیبتِ موت پر بالضرور غم و رنج بہ تقاضاے طبیعتِ انسانی پیدا ہوتا ہے ، لہٰذا خدا تعالیٰ نے جو کہ بندوں کے حال کا دانا و بینا ہے ، کسی قدر سوگ کرنا جائز رکھا اور وہ ایامِ سوگ میت کے بعد تین دن ہیں، جن میں مصیبت زدہ سوگ کرکے اپنے غم و رنج کا اظہار کرے ۔(المصالح العقلیہ:۱؍۱۲۶-۱۲۷بترمیم)
شوہر کا سوگ چار ماہ دس دن کیوں؟
خاوند کا سوگ عدت کے تابع ہے اور یہ سوگ عدت کے مقتضاؤں اور اس کے مکملات میں سے ہے ، کیوںکہ عورت کو اپنے خاوند کی زندگی میں اپنی زینت و تجمل و تعطر کی ضرورت پڑتی ہے کہ اپنے خاوند کی محبوب و مرغوب رہے اوران دونوں میں حسنِ معاشرت ہو، پس جب خاوندمرجائے تو وہ اس کی عدت میں رہے اور دوسرے شوہر کے پاس نہ پہنچے ، اس لیے پہلے خاوند کا اتمامِ حقوق اور دوسرے شوہر کا میعادِ عدت کامل ہونے سے پہلے پہلے نکاح سے روکنا یہ اس کو مقتضی ہے کہ عورت کو ان امور سے منع کیاجائے ، جو عورتیں اپنے خاوندوں کے لیے کیا کرتی ہیں، نیز اس میں اس بات کا مسدود کرنا ہے کہ عورت کو مَردوں کی طمع ہو اور اس کی زینت و اسباب کے ملاحظے سے اس کی طرف مَردوں کی چشمِ طمع دراز ہو، پس جب عدت ختم ہوجائے تو وہ ان امور کی محتاج ہوئی جو محرک و مرغوب فی النکاح ہیں، اس لیے اس عورت کو وہ اُمور مباح ہو جائیں گے جو خاوند والی عورت کے لیے مباح ہوا کرتے ہیں۔یہ ممانعت اور اباحت نہایت حسن و مناسبت پر واقع ہوئی ہے ، تمام عالَم کی عقلیں بھی اس سے بہتر تجویز نہیں کرسکتیں۔(المصالح العقلیہ:۲؍۲۲۱بترمیم)
سوگ کا حکم صرف مدتِ عدت کے لیے ہے ، عدت کے ایام ختم ہو جانے کے بعد اس کو ختم ہو جانا چاہیے ،شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی عورت بیوہ ہو جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے سوگ کا طریقہ اختیار کرلے ، نیز شوہر کے علاوہ کسی دوسرے عزیز و قریب مثلاً بھائی، باپ وغیرہ کے انتقال پر اگر کوئی عورت اپنا دِلی صدمہ اور تاثر سوگ کی شکل میں ظاہر کرے تو صرف تین دن تک کی اجازت ہے ، اس سے زیادہ منع ہے ۔(معارف الحدیث: ۷؍۴۷۶)مرد کے لیے سوگ کرنا قطعاً حرام ہے ، اس لیے کہ یہ بات مرد کے موضوع کے خلاف ہے ، مرد کاروبار کرنے والا اور رزق کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنے والا ہے ، اگر وہ سوگ کرے گا یعنی عدت میں بیٹھے گا تو زندگی کی گاڑی رُک جائے گی۔ (تحفۃ الالمعی:۴؍۹۰)
طلاق کے بعد سوگ
امام ابو حنیفہؒ کے یہاں عدتِ وفات کے علاوہ طلاقِ مغلظہ اور طلاقِ بائن کی عدت میں بھی سوگ کیا جائے گا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً عدت گزارنے والی عورت کو مہندی کے استعمال سے منع فرمایا ہے کہ مہندی بھی ایک طرح کی خوش بو ہے ۔ طلاقِ رجعی کی عدت میں سوگ کے بہ جائے زیب و زینت کرنی چاہیے ، تاکہ مرد کی طبیعت کا میلان ہوا اور وہ دوبارہ بیوی کو لوٹا لے ۔(مستفاد از قاموس الفقہ:۲؍۴۲)
سوگ اور عیدین
کسی گھر میں کوئی موت ہوجائے ، تو اس کے بعد جب پہلی عید و بقرعید پڑتی ہے ، تو اعزّا واقربا میت کے گھر پہنچنا ضروری سمجھتے ہیں، چاہے انتقال ہوئے مہینوں گذر چکے ہوں، نیز گھر والے نہ نئے کپڑے پہنتے ہیں، نہ ہی عید کی خوشی مناتے ہیں۔جب کہ مذہبِ اسلام نے اپنے دامن سے وابستہ لوگوں کو کامل ومکمل دستورِ زندگی، اور مستقل ضابطۂ حیات سے نوازاہے ،اور قرآن وسنت کی شکل میں ایسی جامع ومانع ،ٹھوس ومضبوط اساس مرحمت فرمائی ہے کہ کسی بھی شعبۂ زندگی میں ہمیں غیر کا دست نِگر اور محتاج نہیں بنایا، خالقِ کائنات نے انسانی ذوق ومزاج اور اس کی نفسیات کی پوری پوری رعایت کے ساتھ نبی اُمّی فداہ ابی وامی کے واسطے سے قولاً ،فعلاً وتقریراً انسانی ضروریات کے تعلق سے قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا پوراپورا حل فرمادیاہے ، نیز ان تمام جاہلانہ رسومات وخرافات کی جڑیں کاٹ دیں جو منشاے الٰہی سے میل نہیں کھاتی تھیں، اور اس مسئلے میں موت وحیات کا سلسلہ توہرفردِ بشر سے جڑا ہواہے ، پھر خدائی ہدایت ورہنمائی ہمارے لیے مشعلِ راہ کیوں نہ ہوتی؟ اس کے تعلق سے ہرہرجز کی کافی وشافی تعلیمات سے کیوں نہ نوازاجاتا؟اسی لیے شریعتِ مطہرہ نے میت کے ، غیر شوہر ہونے کی صورت میں گھر والوں کے لیے صرف تین دنوں تک ترکِ زیب وزینت کی اجازت دی ہے ، اور اس سے زائد کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے ۔لہٰذا فی زمانہ رائج یہ غلط رسم تعلیماتِ شرعیہ سے بالکل جوڑ نہیں کھاتی، نیز عیدین کے ایام تو فرحت وشادمانی کے ہیں، اس میں غیر شرعی اظہارِ غم واندوہ کی آمیزش کیسی؟ پس اس کا ترک لازم ہے ۔ایک کلمہ گو کے لیے حکمِ شرعی کے بالمقابل کسی اور چیز کی کوئی حیثیت نہیں، اس کے لیے تو بس خدا ورسول کی رضامندی ہی سرمایۂ زیست ہے !(فتاویٰ ریاض العلوم:۱)
[email protected]